Friday 29 November 2013

100بچوں کا قاتل

 100 بچوں کےقاتل جاوید اقبال نے خود کو روزنامہ جنگ لاہور کے دفاتر میں سرینڈر کیا تھا۔ اس نے پولیس اور روزنامہ جنگ کو اپنے جرائم کا اعتراف نامہ بھجوایا تھا۔ اس خط کے ساتھ اس نے ان سو بچوں کی تصاویر بھی  تھیں، پولیس تک تو پتہ نہیں اس کا خط پہنچا یا نہیں،  اگر پہنچا بھی ہوگا تو اسے ردی کی ٹوکری میں  پھیک دیا گیا ہوگا ،،،ہمارے اپنے آفس میں یہ  کئی دن تک یہ  خط  مختلف  ہاتھوں سے ہوتا ہوا میرے پاس پہنچا تھا،،،میں نے خط ملتے ہی  جاوید اقبال کو جنگ کے دفتر میں بلوا لیا، کیونکہ وہ ہماری موجودگی میں رضاکارانہ طور پر گرفتاری دینا چاہتا تھا۔  میں نے اس کی آمد سے پہلے پولیس بھی بلوا لی تھی ،،،سوبچوں کے قاتل سے باتیں کرتے کرتے میری جاسوسی کی رگ پھڑکی کہ وہ یہاں بیٹھے بیٹھے
خود کشی بھی تو کر سکتا ہے، چنانچہ میں نے اس کی جسمانی تلاشی لی، اس نے اپنے جسم کے مختلف حصوں میں مختلف طریقوں سے بھاری مقدار میں نیند کی گولیاں چھپا رکھی تھیں تاکہ وقت ضرورت وہ آسان موت مر سکے۔ اسی دوران جبکہ ہمارا ٹیلنٹڈ کرائمز رپورٹر جمیل چشتی اس سے سوال جواب کر رہا تھا۔ IB CHIEF جنرل شمیم وائیں نے مجھے فون کرکے کہا کہ ہمارے علم میں ہے کہ سو معصوم بچوں کا قاتل آپ کی تحویل میں ہے، جنرل شمیم وائیں نے مجھےADVICE کیا کہ میں اسے پولیس کے حوالے نہ کروں، کیونکہ پولیس اسے کسی بھی بہانے قتل کر دے گی تاکہ حسب روایت اسے اس اہم کیس کی تفتیش نہ کرنا پڑے، میں نے صورتحال کا ادراک کرتے ہوئےجاوید اقبال کو ملٹری انٹیلیجنس کے حوالے کردیا۔ جاوید اقبال بچوں کو قتل کرکے ان کی لاشیں تیزاب کے ڈرموں میں پھینک دیا کرتا تھا۔ سو سے زیادہ بچوں کے جوتے اور جرابیں اس نے اپنی قتل گاہ میں سنبھال رکھی تھیں، وہ گھروں سے بھاگے ہوئے بچوں کو بہلا پھسلا کر اپنے گھر لے جاتا۔ وقتل سے پہلے وہ ان بچوں سے زیادتی بھی کرتا اور ان کی پاسپورٹ سائز تصویریں بھی محفوظ کر لیتا۔پھر پتہ نہیں کیسے جاوید اقبال MI سےپولیس کی تحویل میں چلا گیا۔  پولیس نے اپنی روایتی تفتیش اور اس کے مکمل اعترافات کے بعد کیس عدالت کے سامنے رکھ دیا۔ تھوڑی سی سماعت کے بعد ہمارے دوست ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اللہ بخش رانجھا نے نجانے کس حالت مستی میں اسے عجیب و غریب سزا سنا دی۔ حکم صادر ہوا کہ اسے سو بار بھانسی دے کر اس کی لاش کے ٹکڑے کر دیے جائیں اور بوٹیاں مینار پاکستان کی اونچائی سے نیچے اچھالی جائیں تاکہ انہیں کوے گدھیں کھا جائیں۔ اسے کوٹ لکھپت جیل میں بھجوا دیا گیا۔ جہاں سے کچھ عرصے بعد (8 اکتوبر2001) خبر آگئی کہ جاوید اقبال نے جیل میں خود کشی کر لی ہے       (اسے یقینآ جیل میں تشدد کرکے مار دیا گیا ہوگا)۔ یوں انسانی تاریخ کی وحشتوں کی ایک بڑی کہانی زمین کی گہرائیوں میں دفن ہو گئی۔پھر ایک دن جب اعجاز وکی کے ڈیرے پر جج اللہ بخش رانجھا سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے کہا۔ یار رانجھے،، تم ہو بہت ہی بے وقوف جج۔


( تصویر میں خاور نعیم ہاشمی جاوید اقبال کی جسمانی تلاشی لیتے ہوئے)۔