Tuesday 12 November 2013

BG

بی جی کی والدہ نور جہاں فلموں میں چھوٹے موٹے رول کیا کرتی تھیں ، میں نے انہیں پہلی بار1968 میں باری اسٹوڈیوز میں دیکھا , وہ  فلور فائیو میں نعیم ہاشمی صاحب  کی ڈاکومنٹری فلم ،، مقدس امانت ،، میں ایک  معمولی سے رول کے لئے بلوائی گئی تھی ، مگر اس کی  دس  بارہ سال کی بیٹی  بے بی نجیبہ  اس فلم میں  ایک اہم رول ادا کر رہی تھی،،نورجہاں نے مجھے بتایا کہ وہ نعیم ہاشمی صاحب کی 1957 میں ریلیز ہونے والی فلم ۔۔نگار۔۔ میں بھی کام کر چکی ہے،اب وہ ایکسٹرا سپلائر بھی ہے
،فلمی لغت میں ایکسٹرا سپلائر اسے کہتے ہیں جو ہیروئن کے ساتھ ناچنے کے لئے یا ہیرو یا ولن کی لڑائی مار کٹائی میں شامل ہوتے ہیں ، یعنی فلم کے ایسے مناظر جہاں زیادہ لوگوں کی عارضی ضرورت ہو، اس زمانے میں فلمیں بہت بنا کرتی تھیں اور تمام اسٹوڈیوز کے فلور ڈے نائٹ بک ہوا کرتے تھے ۔۔نگار خانوں کے دروازوں پر بھی سیکڑوں نوجوان اس آس پر کھڑے نظر آتے کہ کوئی ایکسٹرا رول انہیں مل جائے یا انہیں کسی ایکٹر، ایکٹرس کی ایک جھلک ہی نظر آجائے، گھروں سے بھاگ کر آنے والی لڑکیاں نگار خانوں کے دروازوں پر ہی دلالوں اور تماش بینوں یا اسٹوڈیو ملازمین کے ہتھے چڑھ جاتی تھیں ،یہ لڑکیاں ہیروئن بننے کے خواب آنکھوں میں سجا کر آتیں اور کچھ عرصے بعد کسی اڈے پر چل رہی ہوتیں یا اپنا اڈہ چلاتی نظر آتیں، شاہنور ، باری اور ایور نیو سٹوڈیوز کے بالمقابل ایک بستی ہے’’سید پور‘‘ یہ بستی ان جیسی لڑکیوں نے ہی بسائی تھی۔ نجیبہ ، نور جہان کی چار بیٹیوں میں سے ایک تھی ، ان کا ایک بیٹا بھی تھا ، جس کا سال پہلےانتقال ہو گیا ۔ نجیبہ نے بے بی نجیبہ کے نام سے چائلڈ اسٹار کے طور پر فلمی دنیا میں قدم رکھا، قدم کیا رکھنا جی ، اس نے تو آنکھ ہی ایور نیو سٹوڈیوز کے فوارے پر کھولی تھی ، آج کی قابل احترام بی جی نے کئی سو فلموں میں ، فردوس ، نغمہ ، شیریں، سلونی اور اس دور کی دوسری بڑی ہیروئنز کے بچپن کے رول ادا کئے ، اس کی ایک بہن شبانہ شیخ نے بھی کئی فلموں میں ڈانس یا ثانوی کردار ادا کئے ، بعد میں وہ لاہور میں اسٹیج کی معروف ہیروئن بھی رہی ، بی جی نے کبھی اپنے ماضی پر پردے نہیں ڈالے، وہ اپنی زندگی پر کتاب بھی لکھنا چاہتی ہے اور فلم بھی بنانا چاہتی ہے۔ ’’ نور جہاں کے حوالے سے ایک واقعہ جس کی راوی بی جی ہے‘‘
’’رات ڈھل رہی تھی مائی نور جہاں باری اسٹوڈیوز کے ایک سیٹ پر اس انتظار میں تھی کہ آرٹسٹ اور دوسرے لوگ کب کھانا کھاتے ہیں ، اس کے پانچوں بچے گھر میں بھوکے ماں کی واپسی کے منتظر تھے، جب سب نے کھانا کھا لیا تو مائی نورجہان نے بچا کھچا سمیٹ لیا، وہ یہ ’’جھوٹا کھانا‘‘ چادر میں چھپائے باری اسٹوڈیوز کے گیٹ سے باہر نکلنے لگی تو چوکیدار نے شک پڑ جانے پر اسے روک لیا ، چوکیدار تلاشی لینا چاہتا تھا اور نور جہاں تلاشی سے بچنا چاہتی تھی ، چوکیدار نے شور مچا کر لوگ جمع کر لئے اور جب نور جہان کی چادر کی ۔ تلاشی لی گئی تو روٹی کے ڈیرھ سارے ٹکڑے زمین پر گر گئے‘‘ میں نے بی جی کو بارہ برس کی عمر میں پہلی بار دیکھا۔ وہ مجھ سے چھوٹی تھی ، میرے والد نعیم ہاشمی فیملی پلاننگ والوں کے لئے ایک گھنٹے کی ڈاکومنٹری بنا رہے تھے، فلم کا نام تھا ’’مقدس امانت ‘‘ ہاشمی صاحب اس کے رائٹر اور ڈائریکٹر تھے، اداکاروں میں رخسانہ ، ناصرہ اور رنگیلا بھی تھا ، اس ڈاکومنٹری فلم کا مرکزی کردار میں ادا کر رہا تھا ، ناصرہ اور رنگیلا میرے ماں باپ بنے تھے ، میں رنگیلا کے سات بچوں میں سب سے بڑا اور نجیبہ جو بےبی نجیبہ کے نام سے اس زمانے کی معروف چائلڈ سٹار تھی، میری سب سے چھوٹی بہن کا کردار ادا کر رہی تھی، اس رات جو سین فلمایا جا رہا تھا ، اس میں ہم سب کردار موجود تھے ، سین کچھ یوں تھا کہ میرے فلمی ابا رنگیلا کے بچپن کے ایک دوست نعیم ہاشمی اپنی بیوی رخسانہ کے ساتھ کئی سال بعد ہمارے گھر آتے ہیں ، ان کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ ہوتا ہے ، میں ندیدے بچوں کی طرح مٹھائی ان سے چھین کر گھر کے ایک پوشیدہ کونے میں چلا جاتا ہوں اور جلدی جلدی ڈبہ کھول کر اسے کھانا شروع کر دیتا ہوں، اسی دوران ایک ہاتھ میری طرف بڑھتا ہے ، یہ ہوتی ہے ، بےبی نجیبہ جو چاہتی ہے کہ مٹھائی کا ایک ٹکڑا میں اسے بھی دوں ، میں اسے مٹھائی دینے کی بجائے ایک زوردار چانٹا رسید کرتا ہوں، میں نے پوری قوت سے اسے تھپڑ مار دیا، نجیبہ فرش پر گر گئی، سین اوکے ہوا، گونج سنائی دی تالیوں کی ، ہاشمی صاحب کیمرہ مین سرور گل سے کہہ رہے تھے ’’ اوئے پتر اے میرا ‘ مجھے لگا جیسے ’ دلیپ کمار ‘‘ بن گیا ہوں، اگلا سین ٹیک ہونے میں کچھ وقفہ تھا، میں چہل قدمی کے لئے باری اسٹوڈیوز کے فلور فائیو سے باہر نکل آیا ، یہ سوچتے سوچتے اسٹوڈیو کے مین گیٹ تک پہنچ گیا کہ اب میں فلم نگر کابہت بڑا آرٹسٹ بن جاؤں گا، میں سوچوں میں گم تھا کہ مجھ پر حملہ ہو گیا ، آٹھ دس لڑکے تھے ، میری پٹائی ہی نہیں کر رہے تھے ، گھونسے مارتے ہوئےگالیاں بھی دے رہے تھے ، وہ ایک ہی بات کہہ رہےتھے’’’ تو نے تھپڑ مارا ؟ کیوں تھپڑ مارا ، تجھے ہم بتاتے ہیں کہ تھپڑ ہوتا کیا ہے‘‘ اچھی خاصی پھینٹی لگا کر وہ رفو چکر ہو گئے، میں واپس فلور فائیو پہنچا ابھی تک اگلے شاٹ کی تیاری ہو رہی تھی، میں ایک نکڑ میں پڑی کرسی پر جا بیٹھا ، باپ سمیت کسی کو واقعہ سے آگاہ نہ کیا ،کیونکہ یہ ایک ’’ہیرو کی توہین تھی‘‘ کئی سال بعد جب نجیبہ ، جو بی جی بن چکی تھی۔۔ مجھے ملی تو میں نے اسے اپنی پٹائی کا واقعہ سنانے کے بعد پوچھا ۔ ’’ جب تم دس سال کی تھی،تمہارے اتنے عاشق تھے ،اب پتہ نہیں تمہیں چاہنے والے کتنے ہوں گے ؟؟؟