Saturday 21 May 2016

مجھے تو نوٹ گِننا بھی نہیں آتے

کبھی کبھی کسی آدمی کے منہ سے ایسا جملہ نکلتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے اور کبھی پریشان رہ جاتا ہے۔ میرے سامنے جو جملے آئے ہیں وہ سیاستدانوں نے کہے ہیں مگر سب سے پہلے ایک بہادر بے نیاز اور حکمرانوں کی پروا نہ کرنے والے روشن چراغ جیسے شخص خاور نعیم ہاشمی کی بات سنئے
کہ اس نے ایسی زندگی گزاری ہے جو مثال بن گئی ہے۔ وہ واقعی بے مثال آدمی ہے۔ جس نے کچھ نہیں بنایا مگر زندگی اس پر فخر کرتی ہے۔ ہمیں بھی فخر ہے کہ ہم اس کے دوست ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ ہمیں دوست رکھتا ہے۔
13مئی 1978ء کو ایک نہ جھکنے والے بے باک صحافی کی حیثیت سے اسے کوڑے مارے گئے۔ یہ خاور نعیم ہاشمی ہے جس نے ہم سب صحافیوں کی نمائندگی کی۔ اس طرح وہ ایک نمائندہ صحافی بن گیا ہے۔ یہ کوڑے اس نے ایک صحافی کے طور پر کھائے۔ ہم صحافی اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ایک تقریب پریس کلب میں اس کے اعزاز میں کی گئی وہ اس طرح موجود تھا کہ صحافت کے سب لوگ معزز بن گئے۔ یہاں سب اخبارات کے لوگ تھے۔ جب اسے کوڑے مارے گئے تو وہ کس اخبار میں کام کرتا تھا۔ مجھے معلوم نہیں اور مجھے یہ معلوم کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
آج اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے میں نے اور سب دوستوں منو بھائی، جہانگیر بدر، علی ظفر، گوہر بٹ، راجہ ریاض، عامر سہیل نے اور سب حاضرین نے اطمینان محسوس کیا کہ ایک شخص نے کوڑے کھانے میں ہم سب کی نمائندگی کی ہے۔ میں نے بھی تقریر کی اور حسرت کی کہ مجھے کوڑے نہیں لگے تو منو بھائی نے کہا کہ تم کیسے کہتے ہو کہ تم نے کوڑے نہیں کھائے۔ کوڑے تو ہم سب پر مسلسل برس رہے ہیں۔ منو بھائی کی اس بات سے میں نے اپنی پیٹھ پر کوڑوں کی آواز سنی۔ میں خاور نعیم ہاشمی کا جملہ لکھنے والا تھا کہ پھر میں اور لوگوں کے جملے لکھوں گا۔ خاور نے کہا کہ ’’آج اعلان کر رہا ہوں کہ میری آئندہ زندگی بھی میرے ماضی کی طرح گزرے گی‘‘ یہاں بھی منو بھائی نے خاور نعیم ہاشمی کے لئے کوڑوں کی تقریب میں عورتوں کو یاد کیا۔ اور ایک دلچسپ بامعنی اور معنی خیز جملہ کہا ’’مرد مذکر ہے مگر مردانگی مونث ہے‘‘ اس طرح تو کئی جملے بنائے جا سکتے ہیں۔ اس تقریب میںحکومت کے زیر عتاب ایک چینل کے لئے مسلسل جدوجہد میں شرکت پر نعیمہ ذوالقرنین کو ایوارڈ دیا گیا تو میرے پاس بیٹھے ہوئے برادرم ذوالقرنین نے اپنے آپ کو بھی اس اعزاز میں برابر کا شریک پایا۔ پرویز رشید کا ایک جملہ مجھے پسند آیا۔ وہ اگرچہ مسلسل باتیں کرتے ہیں۔ اس طرح کوئی ایک بات باتوں میں کہیں گم ہو جاتی ہے۔ وزیراعظم کے سچ سے ناک آئوٹ ہونے والے واک آئوٹ کر گئے۔
مریم نواز نے کہا کہ ان کی تقریر سے اپوزیشن لاجواب ہو گئی ہے۔ وزیراعظم نے تمام سوالات کے جواب دئیے ہیں۔ شریف فیملی میں مریم نواز اب نواز شریف کا دفاع کرتی ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نواز شریف کا کام خراب ہی کرتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق دبنگ وزیر ہیں۔ حیرت ہے کہ خواجہ عمران نذیر کو وزیر کیوں نہیں بنایا گیا؟ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کہتے ہیں کہ میرے سات سوالوں کے جواب انہوں نے نہیں دئیے بلکہ اب سوالات 70ہو گئے ہیں۔ خورشید شاہ نے واک آئوٹ کیا۔ باہر آ کے پریس کانفرنس کی۔ یہی باتیں ایوان کے اندر بھی کی جا سکتی تھیں مگر ہمارے سیاستدانوں کو میدان لگانا اچھا لگتا ہے۔ واک آئوٹ کی بجائے اگر وہ عمران خان کو تقریر کرنے دیتے تو زیادہ اچھا رہتا۔ عمران خان کو شیخ رشید اور جہانگیر ترین نے بھڑکایا ہے کہ خورشید شاہ نے واک آئوٹ کیا بھی اس لئے تھا کہ عمران خان تقریر نہ کر سکے۔ اصل میں خورشید شاہ نے اندر کھاتے نواز شریف سے دوستی نبھائی ہے۔انہیںاپنی اپوزیشن لیڈری خطرے میں نظر آتی ہے۔ بات تو سچ ہے کہ اصل اپوزیشن لیڈر عمران خان ہے یہ بھی نواز شریف اور ’’صدر‘‘ زرداری کی ڈیل ہے۔
خورشید شاہ ممبر اسمبلی بن گئے۔ ٹھیک ہے کہ ایسے ہی لوگ ممبر اسمبلی بنتے ہیں۔ وہ وزیر شذیر بھی بن گئے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ ساتھیوں کو اصل اوقات یاد دلانا ہوتی ہے۔ مگر قائد حزب اختلاف تو ایک منصب ہے اور یہ خورشید شاہ کی حیثیت سے بہت بلند ہے۔
’’صدر‘‘ زرداری نے قائم علی شاہ کو وزیر اعلیٰ سندھ اور خورشید شاہ کو اپوزیشن لیڈر بنا کے سیاستدانوں کا وقار ہلکا کیا ہے۔ اس کی ابتدا یوسف رضا گیلانی کے وزیراعظم بنائے جانے سے ہوئی تھی۔ میں حیران ہوں کہ سینٹ میں اعتزاز احسن کو کیسے اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا اور رضا ربانی کو سینٹ کا چیئرمین کیسے بنایا گیا۔ برادرم ڈاکٹر بابر اعوان اس کے لئے اپنے آپ کو بڑا امیدوار سمجھتے ہیں۔
کیپٹن صفدر نے فخر سے بتایا ہے کہ میں نے مریم نواز کے اثاثے نہیں چھپائے۔ یہ بات ثابت کرکے دکھائوں گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مریم نواز کے اثاثے کیپٹن صفدر سے زیادہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کے اثاثے بھی زرداری صاحب سے زیادہ تھے۔ اب ’’صدر‘‘ زرداری کے اثاثے بلاول سے زیادہ ہیں۔
ایک بات حمزہ شہباز نے خوب کہی ہے۔ عمران خان کو سیاسی لوگ وزیراعظم بننے کی جلدی کے لئے طعنے دیتے رہتے ہیں۔ حمزہ شہباز نے بات ہی مکمل کر دی ہے۔ عمران خان شیروانی پہن لیں۔ ہم انہیں وزیراعظم کہہ دیں گے۔ شکر ہے کہ حمزہ شہباز وزیراعظم نہیں کہلوانا چاہتے۔ ابھی سے مریم نواز کو وزیراعظم تسلیم کر لیا ہے۔
> رپورٹ آ گئی ہے کہ نواز شریف اتنی تھوڑی پارلیمنٹ میں آئے ہیں جسے جوگیوں والا پھیرا کہتے ہیں دانشور شاعر مگر ممبر قومی اسمبلی نواز شریف کے غیر مشروط وفادار برادرم مشاہداللہ خان نے اس حوالے سے بہت بڑی بات کی ہے۔ نواز شریف ویہلے ہیں کہ پارلیمنٹ کے ہر اجلاس میں آیا کریں۔ مشاہداللہ خان ذرا غور کریں۔ وہ ویلہے ہیں تو وزیراعظم بنے ہیں۔ مشاہد صاحب وزیر بھی نہیں بنے کہ وہ بہت مصروف آدمی ہیں۔ ایک آدمی سے پوچھا گیا کہ تم کیا کرتے ہو۔ اس نے کہا کہ میں وزیر شذیر ہوں۔ دوبارہ پوچھا گیا کہ وہ تو ٹھیک ہے کہ تم وزیر وغیرہ ہو مگر کرتے کیا ہو۔ موصوف ناراض ہو گئے۔ کہنے لگے بے وقوف آدمی تمہیں بتایا بھی ہے کہ میں وزیر شذیر ہوں۔
شیخ رشید نے کہا ہے مجھے معلوم ہے اگلا وزیراعظم کون ہے مگر بتائوں گا نہیں۔ شیخ صاحب نے خبردار کیا کہ مسلم لیگ نے اگر جمہوریت اور حکومت بچانا ہے تو کسی اور کو وزیراعظم بنا دے۔ اس حوالے سے نظر صرف چودھری نثار پہ جا کے ٹھہرتی ہے۔ شیخ صاحب کی بھی نظر ان پر لگی ہوئی ہے۔ چودھری صاحب کی اپنی نظر بھی اپنے آپ پر لگی ہوئی ہے۔
سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے نواز شریف کو وزیراعظم کے منصب سے مستعفی ہونے کی ہدایت جاری کی ہے۔ معطل چیف جسٹس کی بحالی کے لئے نواز شریف نے جلوس نکالا تھا اور ابھی وہ گوجرانوالہ بھی نہ پہنچے تھے کہ چیف صاحب بحال ہو گئے۔ کہتے ہیں اگر نواز شریف اسلام آباد پہنچ جاتے تو افتخار چودھری کبھی بحال نہ ہوتے بلکہ بے حال ہو جاتے۔
آخر میں ’’صدر‘‘ زرداری کے پیر اعجاز شاہ کی ایک بات کہ میں بھی ان سے ملا ہوں۔ برادرم شاہد رشید سے ملنے کے لئے وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ تشریف لاتے تھے تو ملاقات ہو جاتی تھی۔ وہ عمران خاں کے پاس پارلیمنٹ پہنچے تو ان سے کہا گیا کہ نواز شریف کے لئے دعا کریں۔ پیر صاحب نے کہا کہ میں ان کے لئے کیا دعا کروں مجھے معلوم نہیں کرپشن کیا ہوتی ہے۔ اور مجھے تو نوٹ گننا بھی نہیں آتے۔ وہ ایوان صدر میں صدر زرداری کے ساتھ رہتے تھے نااہل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے کبھی نہ ملے۔ وہ اب بھی پارلیمنٹ میں عمران خان سے ملنے آتے ہیں۔ اس بات سے سیاسی نجومی کیا کیا اندازے لگائیں گے؟ ’’صدر‘‘ زرداری نے ایوان صدر میں پانچ سال بڑی شان سے گزارے مگر نواز شریف کا تین سال ہی میں کیا حال ہے؟