Sunday 8 December 2013

سبھی دیکھیں گے اس ماہ جواں کے گیسوئے پر خم

سبھی دیکھیں گے اس ماہ جواں کے گیسوئے پر خم مگر ،
 اے خاور ، ترا حال پریشاں کون دیکھے گا


1977

وہ دن جب پاکستان میں صحافیوں سمیت تمام اخباری کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائز کنفیڈریشن (ایپنک )معرض وجود میں آئی۔ ایپنک کے پہلے صدر حفیظ راقب خطاب کر رہے ہیں۔۔۔دائیں جانب منہاج برنا ،خالد چوہدری، شیر افگن، احفاظ الرحمان اور نثار عثمانی( کرسیوں پر) بائیں پہلے نمبر پر کھڑے خاور نعیممنٹگمری روڈ لاہور کا یہ آفس اب کوپر روڈ گرلز کالج کا حصہ ہے۔ دوسرے ساتھی اور کامریڈز زمین پر بیٹھے ہیں، کیونکہ اس زمانے میں زمین پر بیٹھنے سے لباس خراب نہیں ہوا کرتے تھے۔


Wednesday 4 December 2013

برے وقتوں کا اچھا دوست


وہ آزاد کوثری کی طرح پنجاب کے ایک پسماندہ گاؤں کے غریب گھرانے میں پیدا ہوا، 1970 میں پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ایم اے کرنے کے بعد روزنامہ آزاد سے بحثیت سب ایڈیٹر منسلک ہوا، میری اس سے پہلی ملاقات بھی آزاد میں ہی ہوئی، وہ خوبصورت شعر کہنے والا آزاد منش شخص تھا، عمومآ

جھوٹ بولتی ہے

60 سالہ رشیداں بی بی2009میں پہلی بار  میرے پاس آئی تھی، اس کے ساتھ اس کا بیٹا اور بہو تھے، رشیدہ بیگم ساہیوال کے قصبے یوسف والا کی رہنے والی تھی، اس کے بیٹے نے گاؤں کے بااثر گھرانے کی لڑکی سے لو میرج کر لی تھی

Friday 29 November 2013

100بچوں کا قاتل

 100 بچوں کےقاتل جاوید اقبال نے خود کو روزنامہ جنگ لاہور کے دفاتر میں سرینڈر کیا تھا۔ اس نے پولیس اور روزنامہ جنگ کو اپنے جرائم کا اعتراف نامہ بھجوایا تھا۔ اس خط کے ساتھ اس نے ان سو بچوں کی تصاویر بھی  تھیں، پولیس تک تو پتہ نہیں اس کا خط پہنچا یا نہیں،  اگر پہنچا بھی ہوگا تو اسے ردی کی ٹوکری میں  پھیک دیا گیا ہوگا ،،،ہمارے اپنے آفس میں یہ  کئی دن تک یہ  خط  مختلف  ہاتھوں سے ہوتا ہوا میرے پاس پہنچا تھا،،،میں نے خط ملتے ہی  جاوید اقبال کو جنگ کے دفتر میں بلوا لیا، کیونکہ وہ ہماری موجودگی میں رضاکارانہ طور پر گرفتاری دینا چاہتا تھا۔  میں نے اس کی آمد سے پہلے پولیس بھی بلوا لی تھی ،،،سوبچوں کے قاتل سے باتیں کرتے کرتے میری جاسوسی کی رگ پھڑکی کہ وہ یہاں بیٹھے بیٹھے

Tuesday 12 November 2013

BG

بی جی کی والدہ نور جہاں فلموں میں چھوٹے موٹے رول کیا کرتی تھیں ، میں نے انہیں پہلی بار1968 میں باری اسٹوڈیوز میں دیکھا , وہ  فلور فائیو میں نعیم ہاشمی صاحب  کی ڈاکومنٹری فلم ،، مقدس امانت ،، میں ایک  معمولی سے رول کے لئے بلوائی گئی تھی ، مگر اس کی  دس  بارہ سال کی بیٹی  بے بی نجیبہ  اس فلم میں  ایک اہم رول ادا کر رہی تھی،،نورجہاں نے مجھے بتایا کہ وہ نعیم ہاشمی صاحب کی 1957 میں ریلیز ہونے والی فلم ۔۔نگار۔۔ میں بھی کام کر چکی ہے،اب وہ ایکسٹرا سپلائر بھی ہے

Tuesday 22 October 2013

ایک ایکٹرس کی شاندار پرفارمنس

مبین ملک پستول کی آٹھ گولیاں کھانے کے بعد اپنے بھائی زرین ملک کے گھر k 1 ڈیفنس کے دروازے پر شدید ذخمی حالت میں بے یار و مددگار پڑا تھا، قاتلوں نے آخری دو گولیاں اس کی

Sunday 20 October 2013

انجمن فیم مبین ملک

وہ عید والے دن قتل ہو گیا۔ مبین ملک اپنی سابق اداکارہ بیوی انجمن کے گھر بچوں سےعیدی ملنے گیا،قربانی کا فرض ادا کرکے 22 سالہ بیٹی کو ساتھ لیکر اس گھر آرہاتھا جہاں وہ انجمن سے خلع کے بعد اپنے بھائی زریں خان کے ساتھ رہ رہا تھا، اسے اسی گھر کے دروازے پر آٹھ گولیاں ماردی گئیں، ہارن کی آواز سن کر دروازہ کھولنے والا

Thursday 10 October 2013

سہیل ظفر۔۔۔۔۔ایک ہیرا

سہیل ظفر بہت سینئیر تھا مجھ سے ، میں اگر کہیں اس سے جیت سکتا تھا تو وہ میدان تھا یاوا گوئی اور پنگے بازی کا، اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہر لمحے سجی رہتی اور مجھے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لئے کئی پاپڑ بیلنا پڑتے، یہ میری اداسیوں کے دن تھے،

Friday 27 September 2013

حسینی ( Hussaini)

آزادی صحافت کے لئے جہد مسلسل پر مجھے ,,,, اخباری صنعت کا ہیرو ،،، قرار دیا گیا تو میرے چاہنے والوں کی تعداد ان گنت ہوگئی، میں جہاں بھی ہوتا اتنے لوگ ملتے کہ میں ان کے نام بھی یاد نہیں رکھ سکتا تھا، سب سے زیادہ پذیرائی ملتی کراچی میں

ٹکی کمار

لکشمی چوک سے رائل پارک داخل ہوں تو دائیں ہاتھ آپ کو ایک قد آور بوسیدہ عمارت نظر آئے گی، یہ کبھی لاہور کا ایک شاندار ہوٹل تھا،، ہوٹل برسٹل،، اس ہوٹل کی شان و شوکت کا پاہر سے نہیں اندر جا کر پتہ چلتا تھا، ابا جی کے بیسٹ فرینڈ شیخ حمید اللہ اچ شریف سے نوکروں کی فوج

Saturday 31 August 2013

ایک تھی شہلا

وہ نیو ائر پارٹی میں آئی تھی، ہال میں داخل ہوتے ہی سب کی توجہ کا مرکز بن گئی، منی اسکرٹ میں گوریوں کو بھی مات دے رہی تھی،اس کےسڈول اعضاء اعلان کر رہے تھے کہ اس کی

قصہ کشتوں کی کمائی سے بننے والی ایک فلم کا

موصوف تھے تو حکیم لیکن کہلاتےڈاکٹر تھے،لائل پور کے جھنگ بازار میں بیٹھتے تھے، ،نام تھا ساحر قدوائی، شاعری کے میدان میں خود کو ساحر لدھیانوی کے ہم پلہ سمجھتے ،ساحر قدوائی کے بنائے ہوئے شربت، مربے اور کشتے بہت مقبول تھے،لاکھوں کی کمائی تھی صرف کشتوں اور شربتوں سے،ساحر قدوائی شادی شدہ اور بال بچےدار تھے،، ادھیڑ عمری میں ایک دراز قد،گوری چٹی تیکھے نینوں والی عورت ٹکرا گئی، جو خود بھی شادی شدہ اور جوانی کی دہلیز چڑھتی ہوئی بیٹی کی ماں تھی

ابراہیم جلیس

پہلی بار کراچی گیا تو ابا جی نے اپنے تین دوستوں کے نام خطوط دیے ، ایک تھے اداکار کمال، دوسرے حمید کاشمیری اور تیسرےابراہیم جلیس، کمال صاحب کے دروازے تک تو پہنچ گیا، لیکن دستک دیے بغیر واپس چلا آیا، ان دنوں کمال صاحب PECHS میں نرسری کے قریب اپنے آبائی مکان میں رہا کرتے تھے،گھر کی باہر سے شان و شوکت دیکھی تو دل نہ مانا کہ دستک یا بیل دوں، مجھے بڑے گھروں کے مکین

آغا مسعود کے ساتھ گزرا زمانہ

آغا مسعود حسین صاحب ایک ممتاز اور ہر دلعزیز صحافی ہیں، آج بھی بہت متحرک ، ایک بڑے اخبار میں ان کا کالم پڑھنے کو مل جاتا ہے ، کراچی کے ایک نجی ٹی وی پر ان کاحالات حاضرہ کا پروگرام بھی دیکھنے اور سننے کو مل جاتا ہے، یوں دوست دیرینہ سے آدھی ملاقات تو ہو ہی جاتی ہے، 40 سال پہلے مساوات کراچی میں ہم کولیگ تھے، آغا مسعود پولیٹیکل رپورٹنگ کیا کرتے، پیپلز پارٹی ان کی بیٹ تھی، خوش لباس بھی تھے ،خوش کلام بھی ، آغا صاحب اس دور میں بھی پی ٹی وی پر

جیدا حرامدہ

اب تو وہ کئی فلمیں ڈائریکٹ کر چکا ہے،آجکل بھی نئی فلم کی تیاریاں کر رہا ہے، ایک اردو فلم کی ہیروئن تو اس نےانڈیا سے لی ،دو فلمیں دوسرے ملک کے اشتراک سے بنائیں، پنتیس چالیس سال پہلےنیا نیا ملا تو ایک دن مجھےمزنگ چونگی سے کوئینز روڈ کی جانب جاتے ہوئے جو پہاڑی ہے وہاں لے گیا

(یہ پہاڑی اب ایک گرلز کالج

آسیہ

9 مارچ 2012کو اگر سہیل ظفر مرحوم کے فرزند خرم کو ٹورنٹو سے ایک خاتون فیملی فرینڈ کی کال نہ آتی تو کبھی کسی کو آسیہ کے مرنے کی خبر نہ ملتی، اس خاتون نے آسیہ کے ساتھ اپنی ایک تازہ تصویر بھی فیس بک کے ذریعے ھجوائی، جو بظاہر کسی شادی تقریب میں اتاری گئی، کبھی لاکھوں دلوں پر راج کرنے والی آسیہ

طارق وحید بٹ

کبھی کبھی لگتا ہے کہ وہ سیاسی ورکر ہی نہیں بلا کا کامیڈین بھی تھا، ایک ایسا کامیڈین جو طنز و مزاح اور جگت بازی میں الہامی باتیں بھی کر جاتا ،اس کے مذاق میں سیاسی شعور پنہاں ہوتا،اس نے اپنے گھر کے در و دیوار پر داتا صاحب کے اقوال آویزاں کر رکھے تھے، درود و سلام کی محفلیں بھی سجاتا اور دوستوں کے لئے ان کی مرضی کےدستر خوان بھی بچھاتا ۔ طارق وحید بٹ سے میری ملاقاتیں 1977 میں اس وقت شروع

کچھ سچ دفنانے کے لئے بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔

کیا انسانی تاریخ میں ایسے لوگ بھی ہوئے ہیں جن کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکے کہ انہوں نے ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر سب کچھ سچ سچ اگل ڈالا ، لکھ ڈالا ؟ میکسم گورکی کی کتاب ،،ماں ،، اس کا شاہکار ہے یا اس کی زندگی کی سچائیاں ؟ کیا جوش ملیح آبادی کی یادوں کی بارات ، جوش صاحب کی زندگی کے سارے حقائق ہیں ؟،کیا شکاگو والے افتخار نسیم افتی کا ایک سچ اس کی زندگی کے تمام سچ تھے؟ کیا کوئی آدمی سارے داغ دل نہاں کر سکتا ہے؟ کیا کوئی عورت اپنی مرضی کا اور اپنی پسند

ایک سوال۔۔۔۔۔میری جگہ آپ ہوتے تو کیا جواب دیتے؟

پوری دنیا میں ہوتا ہے یہ، لڑکیاں فلم ایکٹرس بننے کی آتش شوق سینوں میں چھپائے گھروں سے بھاگ جاتی ہیں ، اور تو اور میں نے امریکی مصنفوں کی کہانیاں بھی پڑھی ہیں اس موضوع پر، ہالی وڈ پہنچنے والی کئی لڑکیاں بھی انہی اندھے کنوؤں میں جا گرتی ہیں , جو لولی وڈ اور بولی وڈ میں شکاریوں نے کھود

صبیحہ آنٹی

بے شمار پاکستانی صحافی ایسے بھی ہیں جو پاکستان میں ہوں ، امریکہ میں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں ، ان کے اندر سے غیر ذمہ دارانہ روایتی پن نہیں جاتا، انتہائی غیر ذمے داری سے، غیر مصدقہ اور سنی سنائی خبریں بھی عوام تک پہنچا دی جاتی ہیں، ایک فرد، ایک خاندان، اور پورا معاشرہ ایسی صحافت سے کیسے اور کتنا متاثر ہوتا ہے ، یہ سوچا بھی نہیں جاتا، میدان صحافت میں میرے 43 سال ایسے کئی واقعات کے شاہد ہیں، کئی صحافی ہیں جو ایک چھوٹے سے لفافے

منی اب بھیک مانگتی ہے

نعیم ہاشمی صاحب ہمارے دادا دادی کی اکلوتی اولاد تھے، لیکن اس اکلاپن کا احساس نہ کبھی انہیں ہوا نہ کبھی ہمیں، وجہ تھے ہمارے وہ ڈھیر سارے چاچے جو روزانہ دن رات ہاشمی صاحب کے ارد گرد رہتے، ہاشمی صاحب گھر میں ہوں یا اپنے پروڈکشن آفس میں، وہ ہوٹل کنگ سرکل میں بیٹھے ہوں یا کسی فلم کی شوٹنگ میں مصروف ہوں، ہمارے دو، چار، چھ چاچے ضرور انکے ہمراہ رہتے، چاچوں کے اس سیلاب میں

محبوبہ پیتل کی ہونی چاہئیے۔۔۔

منیر نیازی کہا کرتے تھے ، محبت ایک بار نہیں بار بار ہوتی ہے، جو کہتے ہیں محبت صرف ایک بار ہوتی ہے، وہ کسی خطرناک عارضے میںمبتلا ہوتے ہیں، انہیں کسی اسپیشلسٹ کے پاس جانا چاہئیے، میں نیازی صاحب کی اس منطق سے کبھی متفق نہیں رہا، باوجودیکہ خود کئی محبتیں جوڑیں، کئی محبتیں توڑیں،میرا مشاہدہ ہے کہ ہر دل میں میں

عالم لوہار اور زمرد کا لہنگا

ستر کی دہائی شروع ہوئی تھی۔آوارہ گردی کے دن تھے، صبح کہیں شام کہیں بسر ہو رہی تھی، عنایت حسین بھٹی کے سابق ڈرائیور اور اسٹیج سنگر شوکت کشمیری نے میری پہلی ملاقات کرائی عالم لوہار سے۔۔چوک نواں کوٹ سے سمن آباد داخل ہوں تو بائیں ہاتھ ایک بوسیدہ سا بنگلہ موجود تھا۔

جہانگیر

تین افراد پر مشتمل یہ فیملی اچھرے میں پیر غازی روڈ کے دھوبی محلے میں آتے ہی مشہور ہو گئی تھی۔ ۔گھر کے سربراہ کو لوگ باؤ جی کہتے تھے، باؤ جی اس لئے کہ اس کی لڑاکا بیوی اور بیٹا بھی انہیں باؤ جی ہی کہتے تھے۔جہانگیر کو گھر کی باتیں دوسروں کو سنانے کا چسکا تھا۔وہ بڑے فخر سے بتاتاکہ وہ ایک امیر عورت کے بطن سے پیدا ہوا جو اپنے کسی عاشق سے

Friday 30 August 2013

ایم اسماعیل

ہمارے آخری آفس کا نام تھا ، خاور پروڈکشنز،جو عین لکشمی چوک ایکسپریس ڈرائی کلینز کے ساتھ والی عمارے کے دوسرے اور تیسرے فلورز میں آباد تھا، ان دنوں ہاشمی صاحب ،،چشم بد دور،، کے نام سے فلم پروڈیوس اور ڈائریکٹ کر رہے تھے، اس کی کاسٹ میں شمیم آراء ، یوسف خان ، طالش اور ایم اسماعیل شامل تھے، یہ فلم ایور نیو اسٹوڈیوز میں بارہ آنے بن جانے کے بعد ڈبوں میں بند ہو گئی ، اس وقت شمیم آراء اور یوسف خان کی جوڑی

میری ایک سالگرہ کا احوال

ہر سال چار مارچ کو اپنی سالگرہ پر مجھے ایک شخص ضرور یاد آتا ہے، نام تھا اس کا عاصم ، تخلص صحرائی، گورنمنٹ کالج لاہور میں نفسیات کا طالبعلم تھا، شاعری واعری کرتا تھا،بہت زبردست نظریات تھے اسکے، عاصم صحرائی کا تعلق کسی دوسرے شہر کےعام سےگھرانے سے تھا، وہ اپنے عزم کی بدولت گورنمنٹ کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوا تھا

ظہیر کاشمیری صاحب

دنیا اس بات پر متفق ہے کہ غالب اردو شاعری کے نمبر ون شاعر ہیں، دوسرا نمبر علامہ اقبال کو دیا جاتا ہے اور تیسرا فیض صاحب کو۔ دوسرا تیسرا تو بعد کی بات ہے، میں پہلے نمبر سے ہی متفق نہیں، میرا خیال یہ ہے کہ، مرزا اسد اللہ غالب کے زمانے میں اگر

حبیب جالب

آوارہ گرد فریب سود و زیاں سے گزرے ہوئے لوگ ہوتے ہیں ،ان کے مشاہدے اور تجربے کو کسی کتابی علم سے چیلنج نہیں کیا جا سکتا، بے شمار آوارہ گرد ہمیشہ میرے قریب رہے ، یہ آوارہ گردی کا اعجاز ہی تھا کہ حبیب جالب جیسے بڑے لوگ بھی

خدا کی بستی اور شوکت صدیقی

یاد نہیں کہ خدا کی بستی کے عنوان سے شوکت صدیقی صاحب کا ناول پہلے آیا تھا یا ٹی وی سیریل آن ائیر ہوئی تھی، ،،بس اتنا یاد ہے کہ اس ڈرامے کی ساری قسطیں بھی دیکھیں اور ناول بھی ایک سے زائد مرتبہ پڑھا ، اس ناول کے کئی کردار ہمارے ارد گرد کے زندہ کردار تھے

نور جہان سے انتقام

وہ مجھے نوے کی دہائی میں پہلی بار شاہنور اسٹوڈیوز میں سید شوکت حسین رضوی کے گھر ملا تھا ، ڈرائنگ روم میں نیو ائیر نائٹ پارٹی چل رہی تھی ، میرے ساتھ ، پینٹر مصطفی اور میجر رشید وڑائچ بھی تھے، وہاں پارٹی والے سب لوازمات تو موجود تھے ، لیکن سرور بھٹی کے ساتھ بیٹھا ہوا ایک شخص جس بے دردی سے نوٹ لٹا رہا تھا ، وہ میرے لئے ناقابل برداشت تھا

حفیظ قندھاری

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہوئی کہ اس نوزائیدہ مملکت کی تاریخ لکھنے کی ذمہ داری کسی نے نبھائی اور نہ کسی کو سونپی گئی، رائٹ ونگ کے دانشوروں نے نصابی اور غیر نصابی کتب کے ذریعے آنے والی ہر نسل کو وہی پڑھایا جو ان کے اپنے مفاد میں تھا، ہم نے نیا ملک تو بنا لیا ، لیکن نئے ملک کے تقاضوں کو نہ سمجھ سکے، کلچر مخالف قوتوں کی

نرگس۔

سنجے دت کی ماں مدر انڈیا فیم نرگس کی بات نہیں کر رہا، ،اس نرگس کے بعض واقعات لکھ رہا ہوں ، جس کے بولڈ ڈانسز نے پاکستان میں اسٹیج ڈرامے کو موت کی نیند سلا دیا، گو ڈرامے کی موت کی ذمے دار اکیلی نرگس پر نہیں ڈالی جا سکتی، لیکن اس نیک کام میں اسکا حصہ اس کے جثے کے مطابق ضرور رہا ، اس واردات میں اس کی بہن دیدار اور خوشبو جیسی کئی دوسریوں نے بھی خوب ہاتھ بٹایا، نرگس کو پہلی شہرت ملی سابق تھانیدار عابد باکسر کے اس پر

اور بالآخر وہ مسلمان ہو گیا۔

وارث روڈ لاہور میں واقع لال قلعہ میں اسیری کے دوران یوں تو ریاستی اداروں کے شہریوں پر تشدد کے کئی واقعات دیکھے بھی اور سہے بھی، ایک ایک واقعہ ایک ایک مکمل کہانی ہے، لیکن کچھ واقعات ایسے بھی ہیں، جنہیں سوچتا ہوں، یاد کرتا ہوں تو

ریاست اور حکومت کے خلاف بغاوت کا سب سے بڑا ملزم

1982 بھی پوری قوم کے لئے مشکل ترین سال تھا، مجھے روزنامہ جنگ میں نئی نئی نوکری ملی تھی، ساری توجہ اپنے پروفیشن پر تھی، دن رات محنت کر رہا تھا، کہ اچانک ریاست کے خلاف بغاوت کا سب سے بڑا ملزم قرار دیدیا گیا، مجھے رات کے وقت گھر سے گرفتار کیا گیا، گرفتاری کے لئے مختلف ایجنسیوں کے درجنوں اہلکار سفید کپڑوں اور پرائیویٹ گاڑیوں میں آئے

مہ ناز

 جنوری 2013
امریکہ اور کینڈا میں چھٹیاں گزارنے کے دوران زاہد عکاسی کے مرنے کی اطلاع سرور سکھیرا نے فیس بک پر دی، زاہد نے موت سے صرف ایک دن پہلے اپنے پروفائل پر نئی تصویر لگائی تھی، تصویر اتنی خوبصورت تھی کہ مجھے سوچنا ۔پڑا، کہ یہ کس فوٹو گرافر کا کمال ہے،۔ زاہد کے دوست اس تصویر پر کمنٹس کر رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ داد تصویر کو دوں، تصویر والے کو یا کیمرہ مین کو

ایک تھا زبیر رانا

بیویاں بہت دیکھی ہیں،شوہروں کے ظلم سہنے والیاں، شوہروں کو پھینٹی لگانے والیاں، شوہروں کے عیب گنوانے والیاں،شوہروں کا مشکل میں ساتھ دینے والیاں اورشوہروں سے والہانہ پیار کرنے والیاں ،، مگر نہیں دیکھی تو

ڈاکٹر مبشر حسن

 عید میلاد النبی کی چھٹی پر آزاد بٹ نے اپنی جوہر ٹاؤن والی بیگم کے گھر دیرینہ دوستوں کے لئے ناشتے کا اہتمام کیا، آزاد بٹ کا تعلق مصری شاہ کے علاقے سے ہے، وہ کبھی طارق وحید بٹ کے قریب ترین دوستوں میں شامل تھا، طارق وحید بٹ کے انتقال سے پہلے دونوں میں علحدگی ہو چکی تھی ، آج کے ناشتے میں طارق بٹ بہت یاد آیا، لاہور میں دوستوں کو ناشتے پر بلوانے کی روایت اسی نے ڈالی تھی

Thursday 29 August 2013

پاکستان اور کترینہ حسین

مجھے آج کی ڈاک میں ہفت روزہ ہم شہری ملا ہے، اس کے صفحات الٹے تو آکاش کے ایک مضمون پر نظر ٹک گئی, عنوان ہے ,,,پاکستان میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں کام کرنے والی لڑکیوں اور خواتین کو کن کن مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ اس مضمون میں جرنلسٹ اور اینکر پرسن کترینہ حسین کو ڈیوٹی کے دوران پیش آنے والا ایک واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ کترینہ حسین واہ کینٹ میں ایک انتخابی جلسے کی رپورٹنگ کرنے گئیں تو

نوٹ چھاپنے والی مشینیں

شو بز کے ایک فری لانس جرنلسٹ نے ایک دن بتایا کہ اس نے اپنے جریدے میں  اداکارہ لیلی کا انٹرویو چھاپا،وہ رسالے کی کاپیاں دینے اس کے گھر گیا تو اس کی خوب آؤ بھگت کی گئی، وہ واپسی کے لئے اٹھا تو لیلی نے پوچھا ,,, پیسے لو گے یا پورے کرو گے؟

ایک سیاستدان

کئی بار اقتدار کی مسند پر بہٹھنے والا ایک سیاستدان دوسروں سے تھوڑا مختلف ہے، مختلف اس لئے کہ حکمرانی کے دنوں میں وہ براہ راست دسترس میں رہتا تھا، اس کے ساتھ رابطے کے لئے کسی سورس کو استعمال نہیں کرنا پڑتا تھا،وہ میرے کہنے پر ضرورت مندوں کی حاجتیں بھی پوری کر دیتا ،اسےبھی شکایت رہی کہ میں اس سے ملنے نہیں آتا، وہ مجھے گھر پر کھانے کے لئے بلاتا اور میں جواب دیتا کہ کسی دن ضرور آؤں گا، اس کا اصرار اور میرے بہانے ایک طویل عرصے تک چلتے رہے، پھر ایک دن

چوہدری سرور

ہماری تھوڑی سی جمہوری زندگی میں صرف غلام مصطفی کھر پہلے اور آخری گورنر رہے ہیں جنہوں نے اپنا تقرر کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو سے آڈھا لگایا تھا، یہ وہ وقت تھا جب کھر پر الزام تھا کہ جوان لڑکیوں اور طالبات کو سڑکوں سے اٹھا کر گورنر ہاؤس میں غائب کر دیا جاتا ہے، ایک لڑکی کے والدین اس الزام کے ساتھ

فنون لطیفہ کے ٹھیکیدار سید کی کہانی

لوگ جن کے ساتھ راتیں بسر کرنے کے آرزو مند رہتے ہیں، سھیل وڑائچ انکے ساتھ دن گزارنے پر ہی اکتفا کر جاتا ہے، یہ سھیل وڑائچ کے انتہائی سادگی سے سوال کرنے کا کمال ہے یا زارا اکبر کا کھلا پن کہ وہ پروگرام ,,ایک دن جیو کے ساتھ،،میں کہہ رہی تھی،،ٹی وی ہو ، تھیٹر ہو یا فلم،عام طور پر نئ لڑکیوں سے کام دینے سے پہلے ہر ڈیمانڈز کی جاتی ہیں، لڑکیوں کو اپنے خوابوں کو تعبیر دینے اور کیرئیر بنانے کیلئے سب کرنا پڑتا ہے

خدا راہ مجھے صحافی مت کہو


ساٹھ کی دہائی میں لاہور کے فلمی مرکز رائل پارک میں بڑی رونقیں ہوا کرتی تھیں یہاں، سیکڑوں پروڈکشن اورڈسٹری بیوٹرز آفسز قائم تھے،بہت سے ایکٹروں، شاعروں ، ادیبوں اور صحافیوں کی راتیں بھی وہیں بسر ہوتی تھیں، رضیہ مینشن اور شیخ بلڈنگ کے قریب ایک دھوبی کی دکان تھی، فلمی لوگ عمومآ اس کے گاہک تھے، پتہ نہیں کیا ہوا ؟

منیر نیازی صاحب



زمانہ تھا نوعمری کا جب ہم لاہور کی گلیوں میں گھوما کرتے تھے،ہمارا ہیڈ کوارٹر تھا ریگل چوک ،دوپہر اور شام کے مخصوص گھنٹوں میں سارے یار دوست جمع ہوجاتے، ٹمپل روڈ کی جانب مڑنے والی سڑک کونے پر بک شاپ کے ساتھ سموسوں کی دکان تھی( جو ابھی تک اسی خستہ حالی اور اسی دیرینہ ویٹر کے ساتھ قائم دائم ہے)، یہاں سے ہمیں ادھار سموسے بھی مل جاتے

آزاد کوثری



آزاد کوثری ساٹھ کی دہائی کے آخری سالوں میں چکوال کے ایک انتہائی پسماندہ گاؤں سے لاہور آیا تھا، جیسا بھی تھا ، جو ، بھی تھا ، ، تھا پکا کمیونسٹ دانشور، وہ اپنے گاؤں کا پہلا گریجوءیٹ ، ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا جہاں ہانڈی بھی کئی کئی ہفتے نہیں پکتی ، اس نے بہت سے دکان دار ٹائپ لوگوں کو لیفٹ کادانشور بنایا، ایک تو آجکل الیکٹرانک میڈیا کا مقبول تجزیہ نگار بھی

ماموں

ہم اکثر سنتے ہیں’’فلاں نے فلاں کو ماموں بنا دیا‘‘ لیکن ہم یہ کبھی نہیں بتاتے کہ خود کتنی بار ’’ماموں ‘‘بنے ہیں ۔ ماموں بننے کے لئے صرف بہن کا بال بچوں والی ہونا ہی ضروری نہیں، آپ کی بچپن کی محبت، یا جوانی کی محبوبہ کسی دوسرے سے بیاہی جائے تو بھی آپ ماموں ہی بنتے ہیں،،شادی شدہ عورت کو کسی کی نیت میں خرابی نظر

عدالت سے’نغمہ کی کوٹھی‘‘تک



پندرہ سولہ سال کی بے بی سے  مجھے ملوایا تھا، میرے دوست اور کلاس فیلو شاہ نے،، شاہ کا کہنا تھا کہ یہ اس کی بہن ہے، سگی نہیں لیکن سگی سے زیادہ عزیز، یہ لڑکی بظاہر کسی اچھےخاندان کی لگتی تھی ، اس زمانے کے فیشن کا لباس ، اسٹائلش سینڈل ، بال سلیقے سے ترشے ہوئے ، چہرے پر مسکراہٹ اور بولنے کا سلیقہ بھی ۔

نجمہ رومانی


وہ واقعی بہت خوبصورت تھی ، شاعروں کو اکسانے والا سڈول بدن تھا اس کا ،.. مین مارکیٹ گلبرگ کے ہوٹل زنوبیز میں ڈانسر تھی، گھر تھا اس کا سمن آباد بسطامی روڈ کی ایک گلی میں ، شو بز کی دنیا میں رات کی ڈیوٹی کرنے والی عورتیں اور لڑکیاں عام طور پر سارا سارا دن

نعیم


نعیم میرا ہائی اسکول میں کلاس فیلو تھا،،اسے دوسروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا ہنر آتا تھا، وہ اپنے معمولات سے دوسرے کو آلودہ کرنے میں دیر نہیں لگاتا تھا، میں اس کی حرکتوں سے بہت محظوظ ہوتا یہاں تک کہ گھر میں اس کی کوئی بات یاد آجاتی تو بے ساختہ ہنس پڑتا، پھر مجھے اس کی سنگت کی عادت سی پڑ گئی

الو کا پٹھا

جنرل ضیاء نے اقتدار سنبھالتے ہی جو دو چار بڑے اقدامات کئے، ان میں سے اسکا ایک نمایاں کام صحافیوں اور اخباری کارکنوں میں نفاق ڈالنا تھا، اس کام کے لئے اسے سارے لوگ لاہور سے ہی مل گئے، لاہور کی مٹی نے جہاں بڑے بڑے قومی ہیروز کو جنم دیا ، وہیں اس شہر کی مٹی سودے بازوں، مفاد پرستوں، کاسہ لیسوں اور سازشیوں کے لئے بھی بہت نم بہت زرخیز رہی ہے

احمد فراز سے ہاتھ


نعیم ہاشمی صاحب کی پہلی برسی کی تقریب ہم نے ہلٹن (آواری) میں خدیجہ مستور کی زیر صدارت منعقد کی تھی، دوسری برسی کے لئے اہتمام کیا گیا انٹر کانٹی نینٹل (PC) میں، خرچے کے ذمےدار تھے کوکا کولا انٹر نیشنل کے کنٹری مینجر زمان خان صاحب، دوسری تقریب کی صدارت کون کرےگا؟ یہ بات مسلہ بنی ہوئی تھی، نعیم ہاشمی میموریل کونسل کے صدر پروفیسر اعجاز الحسن سمیت سب کا فیصلہ تھا کہ ہماری کسی تقریب میں کسی سرکاری یا حکومتی شخصیت کو مدعو نہیں کیا جائے گا، میرے دماغ میں

کشور ناہید اور یوسف خان

کشور ناہید کو ہر کریڈٹ دیا جا سکتا ہے، سوائےعورت ہونے کا طعنہ دینے کے، اردو ادب و شاعری کے لئے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اللہ انہیں صحت مند اور سلامت رکھے۔فیض صاحب سے احمد فراز تک اور قتیل شفائی سے منیر نیازی تک کشور ناہید نے سب سے نبھائی ۔

شاہی قلعہ کی سلاخوں کے پیچھے کھڑی ایک لڑکی

انٹیلی جنس بیورو کے انوسٹی گیٹر ملک مظفر کو نجانے کیا بیر تھا مجھ سے، لگتا تھا جیسے اس کی شاہی قلعے میں ڈیوٹی ہی مجھے ٹارچر کرنے کے لئے لگائی گئی ہے، وہ صبح نو بجے سے پہلے پہنچ جاتا، اس کا کمرہ اوپر والی منزل پر تھا، سیڑھیاں نیچے اوپر بھاری پتھر رکھ کر تراشی گئی تھیں، اس اذیت کدے کا سارا نقشہ مغلوں اور انگریزوں کے دور کا تھا، ان دونوں ادوار میں بھی شاہی قلعے کے اس حصے کو جہاں میرے ساتھ بہت سارے دوسرے ،،باغی،،

اور اصلی صحافی بھی وہاں پہنچ گئے۔۔۔

ملک بشیر کبھی بڑے ڈیرے دار ہوا کرتے تھے، اب تھوڑے سے نان فنکشنل ہوگئے ہیں مگر ڈیرے داری قائم ہے، کوئی نہ کوئی شرارت اب بھی سوجھتی رہتی ہے انہیں ، کئی سال پہلے کی بات ہے،فون پر بتانے لگے کہ آج وہ اپنے ہی بھائی کو تختہ مشق بنائیں گے، کیونکہ وہ سرکاری زمین پر قبضہ کر کے دکانیں تعمیر کرا رہا ہےاور ظاہر کر رہا ہے کہ دکانیں حکمران پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو مفت دے گا، ملک صاحب نے بھائی کو ڈرانے کیلئے

سلیم رضا

نگران حکومتیں اور نگران حکمران تو آپ دو تین بار دیکھ چکے، نگران بیویاں پتہ نہیں کبھی آپ کے مشاہدے میں آئی ہیں یا نہیں؟ نگران بیویاں دراصل ان مارشل لاؤں کی طرح ہوتی ہیں جن کے اقتدار کا عرصہ شوہر کی موت تک ہوتا ہے،نگران بیوی کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ کبھی کسی پر مسلط نہیں ہوتی، بلکہ مرد خود اپنی زندگی کی باقی سانسیں اس کے سپرد کرتا ہے

ایک ادھار جو میں چکانا نہیں چاہتا

پروین ملک ادبی حلقوں میں ایک معتبر نام ہے، کبھی کبھی کسی تقریب میں ملاقات ہو جاتی ہے، ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ وہ مجھ پر ایک خاکہ لکھیں گی ، اگر انہیں اس کے لئے وقت مل گیا تو یقینآ میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہوگا، پروین ملک جرنلزم میں ماسٹرز کرنے کے بعد روزنامہ آزاد سے منسلک ہوئی تھیں،میں اس اخبار میں ان کا کولیگ تھا،پروگریسو خیالات کی حامل پروین ملک عورتوں کے حقوق اور سماجی مسائل پر روزانہ کالم لکھا کرتی تھیں، تعلق تھا پنجاب کے ایک زمیندار سیاسی

عبدلستار ایدھی

کتنے ذلت آمیز تھے بچپن کےدن،اندھیرا ہی اندھیرا تھا ہر سو ،بھوک لگتی تو کوئی کھانا کھلانے والا نہ ہوتا، بھوک سےنڈھال ہو جاتے تو کسی گلی میں لگے نل سے پانی پی لیتے، یا فقیروں کی طرح کسی رشتے دار کے گھر چلے جاتے، ہمیں دیکھ کر کہا جاتا کہ بچی کھچی روٹی ہے تو دیدو ان یتیموں کو

ٹھیکہ مینار پاکستان کی سفیدی کا

آج تو پستول کی نوک پر لوٹا جاتا ہے،اخبارات اور چینلز میں لاکھوں کے اشتہارات چھپوا کر نام نہاد ہاؤسنگ سوسائٹیز میں سستے پلاٹس اور مکانات کا لالچ دیکر لوگوں کو عمر بھر کی کمائی سے محروم کیا جاتا ہے، کسی اسکیم میں اپلائی کئے بغیر ہی لاٹری لگ جانے کی نوید سنائی جاتی ہے، لوٹ مار کی جدید دنیا میں اور پتہ نہیں کیا کیا ہو رہا ہے، اگر پتہ بھی ہو تو کوئی کیا کر

ہماری ماتحت عدالتیں ۔۔۔



جونے اور بیبے نے ایک دن میری خوب خاطر مدارات کی،سمن آباد چوک میں چاٹ،سموسے کھلائےاور پھر اصرار کر نے لگے،اب پٹھورے کھائےجائیں،وہ مجھے مزنگ والے گول چکر پر بھی لے گئے جہاں پٹھان کی چائے بہت مشہور تھی، چائے پیتے پیتے وہ

Wednesday 28 August 2013

حمید اختر صاحب

سفید پوش کسے کہتے ہیں؟ اور سفید پوشی ہوتی کیا ہے؟ یہ میں نے سمجھا اور جانا پہلے اپنے باپ سے اور پھر حمید اختر صاحب سے،یہ ایک دن میں سمجھ آجانے والی بات نہیں، ایک عمر لگتی ہے عقل کےآتے آتے، میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ مجھے صحافت میں آنے کا مشورہ نہیں، حکم دیا تھا

کالا قریشی

 وہ کئی سال پہلے انتقال کر گیا تھا، زندہ ہوتا تو اس کا خاکہ لکھنے کا مزہ زیادہ آتا،وہ اپے خاکے کو خود پسند بھی کرتا اور دوستوں سے کہتا،میری حرامزدگیاں دیکھنی ہیں تو میرا خاکہ پڑھو فیس بک پر،، قریشی  چل پھر کے گٹا فروخت کیا کرتا تھا ، سعادت خیالی اس کے مقروض ہو گئے تو بدلے میں اسے صحافی بنا دیا، اس زمانے میں  سب سے آسان کام صحافی بننا ہی تھا

جنرل مشرف کا ایک رتن ، جو اب جمہوریت کا چمپئین ہے

بیس سال پہلے نیو یارک گیا تو میرے میزبان دو لیموزین ڈرائیور تھے، اس میزبانی کیلئےمیرے بھائی نے ان کی ڈیوٹی لگائی تھی، دونوں میری خوب سیوا کر رہے تھے، مجھےکبھی ایک کہیں لے جاتا اور کبھی دوسرا، جب میری واپسی کے دن قریب آنے لگے تو ان دونوں نے مجھے پیشکش کہ اگر آپ کہیں تو آپ کو

ایک شاعرانہ فارمولہ

وہ دو تین سال پہلے انتقال کر گیا تھا۔۔۔۔
 جب وہ ابھرتا ہوا نوجوان شاعر تھا، مشاعروں میں بلوایا جاتا تھا، ادبی رسائل و جرائد میں کلام چھپتا تھا، شاعری اور مشاعروں کے باعث اس کی کئی بڑے افسروں اور پیسے والوں سے علیک سلیک بھی ہو گئی تھی، وہ شاعروں ادیبوں کے ایک گروپ میں

گیسٹ ہاؤس کی ایک رات

پنڈی کچہری کے مین گیٹ کے عین سامنے ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس تھا، جو دو دہائیاں پہلے بیشمار واقعات اور داستانوں کا امین بنا، ہر روز رات گئے تک دوستوں کی محفلیں سجتی تھیں، روزانہ کوئی نہ کوئی نیا پنگا، کوئی نیا ھنگامہ، کوئی نئی کہانی، یوں تو بے شمار دوست یہاں آیا جایا کرتے تھے، لیکن بیرسٹر سلطان محمود

کہانی ایک چپڑاسی کی


خالد کا اب بھی کبھی کبھار فون آجاتا ہے،حال چال پوچھتا ہے اور کہتا ہے،، بھائی جان ، کام کوئی نہیں، بڑے دن ہوگئےتھے ،سوچا کال ہی کرلوں،، اس سے مجھےملوایا تھا حاجی مقصود بٹ کے پی اے شفیق نے جو بعد میں ایل ڈی اے(لاہور ڈویلپمنٹ اٹھارٹی) میں ملازم ہو گیا تھا،شفیق کا کہنا تھا کہ

انجمن اور وہ ۔۔۔


ایک دور ایسا بھی آیا جب لوگ مجھے اپنے خانگی معاملات اور جھگڑوں میں منصف بنا لیا کرتے تھے، کوئی بھی مقدمہ ،، میری عدلت ،، میں آتا، میں بلا سوچے سمجھے سماعت کے لئے منظور کرلیتا، بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان آجکل آنکھیں بند کرکے ہر معاملے پر از خود نوٹس لے لیتے ہیں، میرے نزدیک سب سے اچھا انصاف یہ ہوتا کہ

چاچا ایف ای چوہدری


آج 15 مارچ2013 کو 4بجے سہ پہر میں نے پاکتان ٹائمز والے ضیاء الحق کی بھر پور معاونت سے چاچا ایف ای چوہدری کی 104ویں سالگرہ کا اہتمام کر رکھا تھا، یہ تقریب جناح باغ کے کاسمو پولیٹن کلب کے لان میں رکھی گئی تھی ، تقریب سے چار گھنٹے پہلے دوپہر بارہ بجے ان کے انتقال کی خبر آگئی،

سو ڈالر کا نوٹ

نام تھا اس کا نوید بٹ ،، کوئی،، خوبی،، ایسی نہ تھی جو اس میں نہ ہو، تعلق تو اچھے خاندان دے تھا، مگر استاد مل گیا تھا اسے روزنامہ مشرق کا جانا مانا کرائمز رپورٹر افتخار مرزا، ایک ایسا رپورٹر جس نے پولیس کو صحافیوں کے جائز،ناجائز کام کرتے رہنے کا گر بتایا تھا، صحافی ہاتھ میں ہوں تو سمجھ لیں ہر شہری آپ کی رعیت ہے، یہ فلاسفی آجکل تو تقریبآ سو فیصد

عباس اطہر صاحب (3)

1974... جون،جولائی کےدن تھے، میں بعض نجی معاملات کے حوالے سے ذہنی دباؤ میں تھا،پریشان تھا، مگر ان معاملات کو کسی سے شئیر بھی نہیں کرنا چاہتا تھا، دماغ کی حدت سورج کی تپش سے بھی بڑھ گئی تھی ، تپتی سڑکوں پر چلتے چلتے پٹیالہ گراؤنڈ کے قریب پہنچ گیا تو خیال آیا کہ سامنے کاررواں ہوٹل ہے،جہاں ان دنوں شاہ جی عباس اطہر نے اپنا ہیڈ کوارٹر بنا رکھا تھ

عباس اطہر صاحب( 2)

شاہ جی اپنے ماتحتین کو کوئی نہ کوئی لقب دے دیا کرتےتھے ، اور وہ بندہ پورے شہر میں اسی لقب سے مشہور ہو جاتا،ہارون رشید کو خلیفہ کا خطاب ملا، علامہ صدیق اظہر کو،،الامہ،، زاہد عکاسی کو جاہل اکاسی، اسلم خان کو ،،چھرا ،، اوراعظم خلیل کو ،، جھوٹا پیغمبر،، بہت سے لوگوں کو ،، چیف۔۔۔۔۔۔۔۔ کہہ کر بھی پکارتے تھے،، انہیں اپنے عہدے اور اختیار کا آزادانہ استعمال خوب آتا تھا، میڈیا میں اور بھی کئی لوگوں کواختیار استعمال کرتے دیکھا ہے

ایک صحافی جو دشمنوں کی تلاش میں رہتا تھا

اپنے محسن عباس اطہر کی کچھ تلخ و شیریں یادیں، کچھ باتیں


یہ ہیں شاہ جی،کتنے

 ہیںCute

یہ جملہ نیر عباسی نے( جو اب نئیر محمود ہیں) ایک دن روزنامہ آزاد کی راہداری سے گزرتے عباس اطہر کو دیکھ کر کہا تھا، میں نے نئیر کے کمنٹس سن کر عباس اطہر کو غور سے دیکھا، چھریرے بدن کا تیس پنتیس سال کا آدمی، جس کے بالوں کی ایک لٹ سفید تھی، جو چہرے مہرے سے شاعر یا پینٹر لگتا تھا، وہ دوپہر اور شام کے درمیان آفس آتا، اس کی پہلی ملاقات

اسے بہت پہلے مر جانا چاہئیے تھا

اسے مرے سال سوا سال ہوگیاہے، مرنے سے چار پانچ برس پہلے مجھے اس کےفون آنا شروع ہوئے، اوئے مجھے مل لو، میں بیمار ہوں، تمہارا باپ میرا بھی باپ تھا، وہ ایسے مکالمے بولتا اور پھر رونا شروع کر دیتا،سمجھ نہیں آتا تھا کہ کون ہے وہ؟ ایک دن اس کے پاس جانے کا ارادہ کر ہی لیا ، وہ ماڈل ٹاؤن میں رہتا تھا، میں اس کے دروازے پر کھڑا تھا، اندر سے آواز تو آ رہی تھی لیکن دروازہ نہیں کھول رہا تھا کوئی

گیلانی صاحب

اللہ جانے گیلانی صاحب آئے کہاں سے تھے، تین بچے ،رنگوں کی چھوٹی چھوٹی درجنوں ڈبیان اور چھوٹے سائز کے کینوس، یہ تھا ان کا کل اثاثہ، دھوبن ماجھاں کے گھرایک کمرہ کرائے پر لیا تھا انہوں نے، ماجھاں کا نصف کچا گھر تین کمروں پر مشتمل تھا، ایک میں سیکڑوں دھلے ان دھلے کپڑے رکھے جاتے، اسی کمرے اور اس سے ملحقہ برآمدے میں گھر کے سارے چھ سات افراد سوتے، کپڑے استری کرنے کا اڈہ بھی اسی جگہ تھا، ساتھ والا کمرہ ایک

Tuesday 27 August 2013

دس روپے کا ادھار

دادا جی نورالدین جنہیں ہم باباجی کہتے تھے، سعدی پارک مزنگ کے ایک تکیہ میں بیٹھا کرتے تھے، یہ ان کا روزمرہ معمول تھا، مزنگ بازار اور چاہ پچھواڑا کے درمیانی راستے میں ایک چھوٹا سا لکڑی کادروازہ تھا، جو بظاہر کسی چھوٹے سے گھر کا داخلی راستہ معلوم ہوتا تھا، درحقیقت یہ دروازہ

بے نظیر بھٹو سے لڑائیاں،نظیر بھٹو سے محبتیں

اکتوبر کا مہینہ چل رہا تھا ،چیرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی سے بچانے کیلئے آخری حربے کے طور پر لاہور سمیت مختلف شہروں میں جیالوں نے خود سوزیاں شروع کر دی تھیں، بہت سارے لوگوں کی طرح میں بھی

لاہور سیکرٹریٹ کے اندر جنم لینے والی ایک کہانی

کہانی لکھنے سے پہلے تمہید باندھنا ہوتا تو بے وقوفی ہی ہے ،لیکن کچھ کہانیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو لکھنا واقعی  مشکل ہوتی ہیں ۔آج چھوٹی سی کہانی لمبی تمہید کے ساتھ ...
عورت ایک کہانی ہے،عورت ایک پہیلی ہے،ایک عورت

وڈیروں کی جاگیریں

خالقی سے دوستی ایک مشترکہ دوست کے حوالے سے ہوئی، وہ جب بھی لاہور آتا ، مجھے مل کر واپس جاتا، اس کے علاقے کا پٹواری اسکا جگری دوست تھا، خالقی کہیں جائے اور پٹواری ساتھ نہ ہو، یہ کبھی ہوتا نہیں تھا،پٹواری اس کی نجی زندگی اور دوسرے کرتوتوں میں بھی

خوابوں میں جینے والا

وہ روزنامہ جنگ لاہور میں میرے ساتھ کام کرتا تھا ، قلم میں روانی تھی، ترقی پسندانہ رحجانات تھے ، شاعری کرتا تھا، کئی ادبی، فلمی اور ثقافتی جرائد کا ایڈیٹر رہا، ادب کی دنیا میں اس کے دوستوں کا وسیع حلقہ تھا ، اپنے دوستوں کےحلقے میں وہ ہر دلعزیز بھی تھا، ادیبوں شاعروں سے ہی نہیں اس کا میل ملاپ فلم نگر کے لوگوں سے بھی تھا،ایک رات

مولوی بشیر گوتم سے گستاخی

70 کی دہائی میں مختلف اخبارات اور رسائل کے لئے لکھنا شروع کیا تو اس زمانے میں سب سے زیادہ شائع ہونے والا روزنامہ تھا،، مشرق،، اس کا آفس نسبت روڈ پر لیبر ہال کے قریب ہوا کرتا تھا، میں کبھی کبھی اپنے والد کے دوست اشرف طاہر صاحب کے پاس جا کر بیٹھ جاتا ، جو وہاں نیوز ایڈیٹر تھے، اشرف طاہر صاحب ٹی وی اداکارہ روبینہ اشرف کے

ایک مزدور کا جیل میں صحافی کو زناٹے دار تھپڑ

پاکستان میں صحافی کو سب سے ،طاقتور شخص ،،تصور کیا جاتا ہے،اس شعبے میں زیادہ تر آتے ہی ایسےلوگ ہیں، جن کا مطمع نظر،طاقت اور دولت کاحصول ہوتا ہے، چاہے اس کے لئے انہیں عزت اور ضمیر سمیت کچھ بھی بیچنا پڑے، ( کسی صحافی کو مکان کرائے پر لیناہو تو لینڈ لارڈ NO کہہ دیتے ہیں، مالک مکان سمجھتے ہیں کہ صحافی

جیل میں ،،ملاحظہ

آج آپ ملاحظہ فرمائیں، ملاحظہ ، یہ ہوتا کیا ہے؟جاننے کے لئے جانا پڑتا ہے جیل میں۔۔جیل کے اپنے قانون قاعدے، اپنی اصطلاحات، اپنی زبان اور اپنے ضابطے اور روایات ہوتی ہیں، جیسے رات کو بھیڑ بکریوں کی طرح گنتی کرکے کوٹھریوں میں بند کرنے سے پہلے قیدیوں کی 

Saturday 24 August 2013

جیل میں ایک لنچ

ضیاء الحقی دور میں عباس اطہر صاحب کے جنرل فیض علی چشتی اور جنرل مجیب الرحمان سے تعلقات کا کمال تھا کہ مجھے اچانک رات دو بجےساہیوال جیل کی کال کوٹھری سے نکالا اور پولیس وین میں لاہور کی کیمپ جیل منتقل کر دیا گیا، رات دو بجے خلاف قانون اور خلاف معمول میرے کال کوٹھری سے نکالے جانے پر جیل کےسب ساتھی خوفزدہ

ایک بوسیدہ کمرہ

نمی ایک سال پہلے مر چکی ہے، نمی کی ماں اور نجمہ رومانی کی ماں سگی بہنیں تھیں ،اور دونوں ایک جیسی قسمت لکھوا کر دنیا میں وارد ہوئی تھیں، آج کل جو ثنآ اور نور ہیں ، یہ دونوں بھی خالہ زاد ہیں ،لاہور میں واپڈا ہاؤ س نیا نیا بنا تھا ، اس کے تہہ خانے میں

مودودی اور بھٹی

یہ ساٹھ کی دہائی کے آخری سالوں کی بات ہے، مولانا مودودی کی رہائش ذیلدار پارک اچھرہ میں تھی، جماعت اسلامی کا ہیڈ آفس بھی اسی عمارت میں تھا، اب وہاں مودودی صاحب کی قبر ہے اور عمارت کا قبضہ جمعیت کے پاس ہے،ہمارا اسکول قریب ہی تھا،جب کوئی پیریڈ خالی ہوتا تو ہم اسکول سے باہر نکل آتے ،اس زمانے میں جماعت اسلامی

کرائے کا مکان

لوک فنکار عالم لوہار اپنی ڈھیر ساری ’’بیگمات‘‘ کے ہمراہ موڑ سمن آباد پر اپنی زیر تکمیل فلم ’’مٹی دا باوا‘‘ کے ڈائریکٹر زرتاش کے بوسیدہ سے گھر میں رہائش پذیر تھے ، زرتاش کے دماغ میں کوئی نہ کوئی آئیڈیا گھومتا رہتا تھا، وہ تھوڑی سی جمع پونجی کے ساتھ کوئی بڑا کارنامہ انجام دینا چاہتا تھا ، وہ بزعم خود دانشور تھا ، اگر اس زمانے میں آج کا الیکٹرانک میڈیا ہوتا تو

نانی غلام فاطمہ

نانی غلام فاطمہ فل ٹائم مقدمے باز تھیں،قیام پاکستان کے بعد انہیں دو مربعہ زرعی اراضی کلیم میں ملی ، ایک مربعہ قبولہ شریف میں اور دوسرا لاہور میں فیروز پور روڈ پر کاہنہ کے قریب، لاہور والی اراضی کے کچھ حصے پر نظام دین (ریڈیو والے) کے کسی بھائی نے قبضہ کرکے وہاں کچھ لوگوں کو بٹھا رکھا تھا، اور اس کامقدمہ لاہور کی ماتحت عدالتوں میں سالہا سال سے چل رہاتھا، نانی ہر ہفتے

علی بھائی

...... بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا تھا ایم اسماعیل فلم ایوارڈز کے اجراء کا،، فلم نگر کے تمام شعبوں کے بڑوں کی آشیرباد حاصل تھی، آواری ہوٹل جو ان دنوں ہلٹن تھا، اس کا سوئمنگ پول بغیر ایڈوانس کے بک کرا لیا گیا،مہمانوں کیلئے اچھی ریفرشمنٹ کا خیال رکھا گیا، میوزک بینڈ سے بات ہو گئی ، وینس کی بھاری مورتیاں

ایک کامیاب رائٹر کی عمر بھر کی کمائی (پارٹ2)

میں ہر کہانی ایک ہی نشست میں لکھتا ہوں، اتنے ہی وقت میں، جتنا آپ اسے پڑھنے میں صرف کرتے ہیں، بلا سوچ بچار لکھتا ہوں، کوئی یاد سوچ کا در کھولتی ہےتو لکھ دیتا ہوں، ہر کہانی کے آپ تک پہنچ جانے کے بعد یادوں کے بہت سارے اور دریچے کھلتے ہیں اور پھر سوچتا ہوں کہ

ایک فلم رائٹر کی عمر بھر کی کمائی

وہ لائل پور سے آیا تھا ،تعلق تھا لوئر مڈل کلاس گھرانے سے، کوئی ڈگری ہولڈر تو نہیں تھا لیکن بہت واضع سوچ تھی اسکی،کہتا تھا جاگیردارانہ،سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے،، آپ اسے ایک کمیونسٹ دانشور کہہ سکتے ہیں ، لاہور میں منزل ڈھونڈتا ڈھونڈتا فلم نگر پہنچ گیا، اور کیفی صاحب کا اسسٹنٹ بن گیا ، شاید یہ وہ دور تھا جب وارث شاہ کے بعد بھٹیوں کی

تھڑے باز دانشور

اس کے دو بڑے بھائی تو دنیا سے جا چکے ہیں، اللہ کرے وہ ابھی تک سلامت ہو، نام شجاعت اور نک نیم تھا شہتی، اپنے بھائیوں کی ایک فلم میں ہیرو بھی بنا تھا، سنا ہے ایک روٹیاں لگانے والی کے عشق میں قتل کر بیٹھا تھا، بڑے پیسے لگے تھے اس کو مقدمے سے نکلوانے کے لئے، ہم سے ایک بار ملا موسیقار ماسٹر عبدللہ کے چھوٹے بھائی کے ساتھ ، دونوں کن ٹٹے اور ،،کرو،، لگتے تھے، karپنجاب کے کئی علاقوں میں ،،وارداتیے،،یا کریمنل انٹلیکچوئل،، کو کہتے ہیں ایک دن ہم کچھ ساتھی بیٹھے ملکی حالات اور معاملات سیاست پر بات کر رہے تھے کہ وہ دونوں آن ٹپکے، دوچار منٹ تو

اے شاہ شکار پوری


SUNSET BOULEVARD
. یہ لاس اینجلس کی ایک معروف سڑک کا نام ہے جہاں بہت زیادہ معاوضہ لینے والے اداکاروں نے بنگلے بنا رکھے تھے . 1950 میں ہالی وڈ میں ایک فلم بنی تھی
GLORIA SWANSON
کہانی کچھ یوں تھی،، خاموش فلموں کے دور کی ایک پاپولر ہیروئن مقبولیت اس وقت ختم ہوجاتی ہے ،جب

Friday 23 August 2013

سیف الملوک مجسٹریٹ درجہ اول

کتنا لاعلم ہوں میں ، مجسٹریٹ درجہ اول کو بہت بااختیارجج سمجھتا رہا، وہ تو عدالتوں کی رپورٹنگ کرنے والے ریاض شاکر نے بتایا کہ اس کے اختیارات محدود ہوتے ہیں،وہ چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث ملزموں کا ریمانڈ دیتا ہےاور کسی کو سات سال سے زیادہ سزا بھی نہیں سنا سکتا۔ اچھا، تو پھر سزائےموت والےمقدمات میں ہمیں کیوںریمانڈ کے لئے مجسٹریٹ درجہ اول کے سامنے پیش کیا جاتا تھا؟

پیارے

وہ ملا تھاحیدر آباد جیل میں ، پیارے، رسول بخش پلیجو کی پارٹی کا کارکن تھا اور سیکڑوں سیاسی کارکنوں کی طرح ہمارے ساتھ پابند سلاسل تھا، ریاستی شدد نے اس کے حوصلوں کو مزید جلا بخش دی تھی،

Saturday 1 June 2013

MARCH 04 1984

تیس سال پہلے چار مارچ کو لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں خاور نعیم ہاشمی کی سالگرہ تقریب ۔۔۔۔ اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات جاوید جبار ، پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل حبیب خان غوری اور عقب میں اورنگزیب بھی تصویر میں نمایاں ہیں ، خاور نعیم ہاشمی اس وقت پی یو جے (پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے صدر تھے اور لاہور میں BDM کیلئے ملک بھر سے آنے والے جرنلسٹوں کی میزبانی کر رہے تھے   ...



Wednesday 13 March 2013

,,ایک ہمدرد عورت ,, جو خاندان سمیت قتل ہو گئی


واقعہ ہے 24ستمبر 2003 کی صبح کا، لاہور کے علامہ اقبال ٹاؤن میں ایک مشہورزمانہ 55 سالہ عورت کو اس کی بیٹی،دو نواسوں ،ایک مہمان اور تین ملازموں سمیت قتل کر دیا گیا تھا، قاتل پیشہ ور اور مشاق تھے، تمام آٹھ افراد کے سروں میں گولیاں ماری گئی تھیں، صرف اس عورت کا ایک

Wednesday 2 January 2013

دانے دانے پہ کھانے والے کی مہر

جب ہم نے شہر گردی شروع کی،لاہور اس وقت تک آلودہ نہیں ہوا تھا، سارا شہر گھر کی مانند تھا، ایک دوسرے پر اعتماد کا عالم یہ کہ اگر کوئی مہمان دروازے پر کھڑا ہو کر اندر آنے کی اجازت طلب کر لیتا تو گھر والے برا مناتے، اسے کہا جاتا کہ تم کوئی غیر تو نہیں ہو ، آ جاؤ ،