Wednesday 4 December 2013

برے وقتوں کا اچھا دوست


وہ آزاد کوثری کی طرح پنجاب کے ایک پسماندہ گاؤں کے غریب گھرانے میں پیدا ہوا، 1970 میں پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ایم اے کرنے کے بعد روزنامہ آزاد سے بحثیت سب ایڈیٹر منسلک ہوا، میری اس سے پہلی ملاقات بھی آزاد میں ہی ہوئی، وہ خوبصورت شعر کہنے والا آزاد منش شخص تھا، عمومآ
کرتا پاجامہ پہنتا، کبھی کبھی کہیں سے ٹائی سوٹ بھی نکال لیا کرتا، اس کی حس مزاح بہت تیز تھی، اتنی تیز کہ میرے جیسا آدمی بھی گرمی کھا جاتا، وہ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں میں بھی دکھائی دیتا، اشعار میں مشکل الفاظ تو استعمال کرتا تھا مگر شاعری سمجھ آسانی سے آجاتی،
وہ اپنی شاعری میں بار بار مرتا اور بار بار خود کشی کرتا دکھائی دیتا، عورت سے وہ بہت مرعوب رہتا، اس نے عورت کو مردوں کے قتل عام کا لائسنس بھی دیے رکھا تھا، ناصر بھنڈارا نے پنجابی فلم ،، شرابی،، بنائی، تو اس کے دو،تین گیت اس سے بھی لکھوائے گئے۔&nbsp 1978 میں مارشل لاء کے دنوں میں جنرل ضیاء کے ساتھی،، محب وطن،، ادیبوں شاعروں نےاسےملک دشمن قرار دیدیا تو وہ بیوی بچوں سمیت بھارت چلا گیا، وہاں اس نے کئی مہینے کسمپرسی میں گزارے اور پھر ناروے چلا گیا، تیس پنتیس برس میں وہ صرف ایک بار لاہور آیا، ناروے میں وہ ایک اسکول میں بچوں کو پڑھاتا رہا اور سرکاری سطح پر مترجم کے فرائض بھی ادا کرتا رہا، ایک بار اس نے مجھے بھی ناروے بلوایا، ناروے کے پرسکون علاقے درامن میں ایک جھیل سے متصل پہاڑی پر اس نے اپنا اسٹڈی ہاؤس بنا رکھا تھا، اگر کوئی میرے جیسا مہمان آجاتا تو یہ چھوٹا سا اسٹوڈیو گیسٹ ہاؤس بن جاتا، اس پہاڑی پر صرف دو گھر تھے اور دوسرے گھر میں ایک انیس بیس سال کی لڑکی اپنے گلوکار شوہر کے ساتھ رہتی تھی، جو کسی ہوٹل میں پرفارم کرتا تھا، یہ پہلی لڑکی دیکھی میں نے ناروے میں جو گرہستن تھی، حالانکہ وہاں عورتیں دفاتر میں اور مرد بچوں کے ساتھ گھروں میں ہوتے ہیں، پاکستان میں لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ ناروے سیکس فری ملک ہے، وہاں کی عورتیں کپڑے اتارے بیٹھی ہونگی، ناروے در حقیقت عورتوں اور بچوں کا معاشرہ ہے، وہاں عورت کی جو تعظیم ہے کسی اسلامی ملک میں بھی کیا ہوگی ، صبح جاگنے کے بعد میں اس اسٹوڈیو نما گھر سے باہر نکل کر پہاڑی کے اوپر لگے ہوئے سیب کے درختوں کے تلے بیٹھ جاتا، میری ہمسائی اس وقت پھل اور پھول چننے میں مصروف ہوتی، 1970میں جب میں نے روزنامہ آزاد جوائن کیا تو مذکور وہاں پہلے سے موجود تھا، میری نشست چونکہ خواتین کے روم میں تھی، اسی لئے شاید وہ میرے آتے جاتے فقرے کستا جو کچھ اس طرح ہوتے ۔ آگئے او، بھلے بھئی بھلے،  جا رے او ۔ بھلے بھلے۔&nbsp میں بہت ڈسٹرب ہوتا، اس کے ساتھ چونکہ فرینکنش نہ تھی، سمجھ نہ پاتا کہ اسے جواب کیا دوں، ایک دن ہلکی بارش شروع ہوئی تو ایک کولیگ خاتون نے کہا ،، ریگل چوک چلیں، چلغوزے کھاتے ہیں، میں نے جوابآ کہا، چلتے ہیں، ان دنوں بھی ریگل سے بیڈن روڈ داخل ہوتے ہی ڈرائی فروٹ کی چھوٹی چھوٹی دکانیں ہوا کرتی تھیں، میں اور ساتھی خاتون وہاں پہنچے، چلغوزوں کے دو چھوٹے پیکٹ لئے گئے، بوندا باندی جاری تھی، ساتھی خاتون نے کہا کہ تھوڑا بارش میں اور گھومتے ہیں، ہم لکشمی چوک کی طرف بڑھ گئے، بہت تھوڑی آبادی تھی اس زمانے میں اس علاقے کی، اچانک ایک نامعلوم آدمی تیزی سے ہمارے قریب آیا، اس خاتون کو چھوا اور بھاگ گیا، یہ کون تھا؟ میں نے ہراساں ساتھی خاتون کے سوال کا برجستہ جواب دیا ہمارا کولیگ وہ تھا ۔ ہم دونوں خاموش خاموش واپس آفس آئے، خاتون نے انتظامیہ کو اس کے خلاف تحریری درخواست دےدی، مجھے گواہ بنایا گیا، ہماری تین میں سے ایک ایڈیٹر عبدللہ ملک مرحوم انکوائری افسر بنے، عبدللہ ملک صاحب کو بھی یقین تھا کہ مذکور یہ حرکت کر ہی نہیں سکتا۔ مگر دوسری جانب مدعیہ گواہ سمیت موجود تھی۔ انکوائری کا نتیجہ تو کوئی نہ نکلا لیکن اس نے جو شرمندگی اٹھائی اس پر میں آج بھی نادم ہوں