Friday 1 January 2016

کتے دی پتر

لندن میں گزری کس کس شام کو یاد کیا جائے، ہر شام ایک کہانی ہے۔ ایک داستان ہے، گورے کہتے ہیں کہ انسان 41برس کے بعد میچئور ہوتا ہے ، شاید اسی لئے وہ اپنی اکتالیسویں سالگرہ BIG DAY کے طور پر مناتے ہیں۔ میں لندن میں تھا تو میرا بگ ڈے
ابھی دور تھا ، شاید اسی لئے کوئی بھی رسک، رسکی نہیں لگتا تھا۔ لندن کی سیکڑوں پرباش شاموں میں ایک شام ایسی بھی تھی جس نے چند لمحوں کے لئے تو لرزا ہی دیا تھا، بارش میں ڈوبی ہوئی یخ ٹھنڈی شام ،،جب ایک ساٹھ پینسٹھ سالہ حرامزادی بڑھیا نےہم سے مدد مانگی اور ہم کچھ سوچے سمجھے بغیر اسکی مدد کو تیار ہو گئے۔ اللہ مغفرت کرے بخش لائلپوری کی، اگر لندن میں ان سے ملاقات نہ ہوتی تو یہ واقعہ بھی رونما نہ ہوتا،بخش لائلپوری لدھیانوی لہجے میں گفتگو کرتے تو لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ اردو، پنجابی کےمنجھے ہوئے شاعر ہیں ،انہیں مل کر محسوس ہوتا جیسے وہ کسی بھینس کو چارہ ڈال کر آ رہے ہیں یا دودھ دھونے جا رہے ہیں، ایک دن بخش لائلپوری شام سات بجے کے بعد ایک نوجوان کو مجھ سےملوانےلائے، یہ یونس تنویر ہے، ادیب ہے نہ شاعر، لیکن ادب اور شاعری سے محبت کرتا ہے، بہت سالوں سے انگلینڈ میں رہ رہا ہے، شادی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑا، EARLS COURTجیسے پوش ایریا میں اس کا اپنا STUDIO APARTMENT ہے، جو دوستوں کی محفلوں کے لئے مشہور ہے، میں کل اسی اپارٹمنٹ میں دعوت کا اہتمام کر رہا ہوں، جس میں شرکت کے لئے ناروے سے مسعود منور کو بھی بلوایا ہے، بخش لائلپوری ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گئے، اگلے دن میں نے راستوں سے نا آشنائی کے باعث عابد خان کو ساتھ لیا اور ہم یونس تنویر کے اپارٹمنٹ پہنچ گئے، بخش لائل پوری ہم سے پہلے وہاں میلہ لگائے بیٹھے تھے، یورپ امریکہ جیسے ملکوں میں دعوتیں کرنے والے بڑے فائدے میں رہتے ہیں مثلآ اگر کسی نے ڈرنک پارٹی رکھی ہے تو سب مہمان ایک ایک بوتل ساتھ لے آتےہیں، کسی نے فیملیز کو ڈنر پر مدعو کیا ہے تو سب گھروں سے ایک ایک ڈش آجاتی ہے۔ یہ مجھے اس وقت پتہ چلا جب عابد خان نے راستے سے بلیک لیبل خرید کر گاڑی میں رکھی، اس دعوت میں عارف وقار،مشتاق لاشاری، مشتاق مشرقی،سعید شاہد، افتخار قیصر اور لیاقت دولتانہ بھی موجود تھے، سارے مہمان سمجھ دار تھے جو بخش لائل پوری کو شاعری سنانے سے روکے ہوئے تھے، اور مسعود منور کو بھی طبع آزمائی کا موقع نہیں دیا جا رہا تھا،، میں نے اس اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کا بہت غور سے جائزہ لیا، ایک ہی کمرے میں سب کچھ، بیڈ روم، ڈرائنگ روم ،کچن، باتھ روم،بک شیلف سمیت ضرورت کے سب کارنرز، اور سب کچھ سلیقے اور ترتیب سے۔ اس فلور پر صرف دو ہی اسٹوڈیو روم تھے، ایک لفٹ کے بائیں اور دوسرا دائیں جہاں ہم لوگ مجلس لگائے بیٹھے تھے، میں نے حتمی فیصلہ کر رکھا تھا وطن واپسی کا، اگر وہاں رہنے کا ارادہ ہوتا تو اسی طرح کا اپارٹمنٹ خرید لیتا۔ جب میں نے اپنی اس خیال آرائی کا تذکرہ میزبان یونس تنویر سے کیا تو اس نے اپنی جیب سے ایک چابی نکال کر میری جیب میں ڈال دی، آج کے بعد یہ اپارٹمنٹ صرف میرا نہیں آپ کا بھی ہے۔ جب جی چاہے آئیں، جب جی چاہے جائیں، اس دعوت کے دو تین ہفتوں بعد ایک دن میں اور عابد خانGLADSTONEمیں بیٹھے تھے کہ مجھے EARLS COURT اور یونس تنویر کا فلیٹ یاد آ گئے، کیوں نہ آج ویک اینڈ کی شام یونس تنویر کے فلیٹ میں گزاری جائے؟ وہ وہاں ہوا تو ٹھیک ورنہ دوسری چابی ہی میری جیب میں ۔۔ہم دونوں PUBسے باہر آئے،مسلسل ہلکی بارش نے موسم کو محبوبہ بنا رکھا تھا، ہم گاڑی ساتھ لے جانے کی بجائے BOROUGH STATION سے TUBEمیں بیٹھ گئے، گوروں کے اس دیش میں جب کوئی اکیلا لڑکا یا تنہا گوری دکھائی دے تو وہ بہت ٹھنڈے ٹھنڈے اور جذبات سے عاری لگتے ہیں،،،اور جب جوڑی ہو تو ایک دوسرے کی زبان کے ساتھ زبان جوڑ لیتے ہیں، اس حالت میں کوئی دونوں کی شکل بھی نہیں دیکھ سکتا،اس دن ٹیوب میں جوڑے ہی جوڑے تھے، کیونکہ ویک اینڈ تھا، ٹیوب ارلز کورٹ رکی تو ہمیں زیادہ نہیں چلنا پڑا،ہم تین منٹ بعد یونس تنویر کے اپارٹمنٹ کے سامنے تھے،لیکن یہ کیا؟ عمارت کی انٹرنس پر بارش سے بھیگتی ایک بڑھیا رو رہی تھی، ہم نے از راہ ہمدردی رونے کا سبب پوچھا تو اس کی آہیں اور تیز ہو گئیں،،،، وہ بتا رہی تھی کہ اسے ایک فون کال سے اطلاع ملی ہے کہ اس کے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے،اس کی حالت نازک ہے اور اسے کسی اسپتال پہنچایا گیا ہے۔ اس کے پاس گاڑی ہے اور نہ ہی ٹیکسی کا کرایہ۔۔ ہم نے اسپتال کا نام پوچھا تو وہ بولی،،، میں پریشانی میں اسپتال کا نام بھول گئی ہوں،،،، عابد بولا،،،، ہم اس عورت کو ٹیکسی میں لے جاتے ہیں، اس کا شوہر کس اسپتال میں ہوگا؟ یہ معلوم کرنا مشکل نہیں ،،،ٹریفک پولیس کے کنٹرول روم سے سب پتہ چل جائے گا،،،، عابد نے ایک ٹیکسی کو رکنے کا اشارہ کیا تو وہ بڑھیا روتے روتےبولی، میں کچھ بھول گئی ہوں پہلے اپارٹمنٹ میں جانا ہوگا، اوہ یہ بڑھیا تو یونس تنویر کی ہمسائی ہے۔اس نے دروازہ کھولا تو اندر داخل ہوتے ہی پتہ چل گیا کہ یہ گوری مسلمان ہے۔ اس کے ۔۔فلیٹ کی راہداری کے دونوں اطراف آیات پر مبنی کتبے ٹنگے ہوئے تھے، اس نے ہمیں بتا دیا کہ اس کے باپ دادا بہت پہلے عرب ملک سے یہاں آباد ہو گئے تھے،،اس سے آگے سٹنگ روم تھا جہاں ایک پرانا صوفہ سیٹ رکھا گیا تھا، بڑھیا ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نہ جانے کیوں عابد کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی BLACK LABLEاپنے قبضے میں لے لی ،اس کے بعد وہ غسل خانے میں جا گھسی،،، چار پانچ منٹ گزر گئے تو ہم دونوں کو پریشانی سی لاحق ہوئی، اس سے پہلے کہ ہم کچھ کرتے بڑھیا کی آوازیں آنے لگیں،، وہ بلا رہی تھی،، میں نے عابد سے کہا، میں دیکھتا ہوں،، باتھ روم کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا،  اندر جھانکا تو وہ مجھے برہنہ حالت میں پانی کے ایک بڑے ٹب میں لیٹی ہوئی دکھائی دی۔۔ میں فورآ وہاں سے ہٹ گیا اور عابد کو صورتحال سے آگاہ کیا، عابد میری بات سن کر حیرت زدہ رہ گیا،،اب اس نے باتھ روم میں جھانکا تو بڑھیا نے اسے اندر آجانے کی دعوت دی، عابد نے اسے گالیاں دیں تو بڑھیا نے زوردار آواز میں چیخنا شروع کر دیا، پھر وہ ننگے بدن باہر نکل آئی، عابد نے اسے تھپڑ رسید کیا اور باہر نکلنے کے لئے دروازے کی چٹخنی کھول دی۔
بڑھیا چیخ رہی تھی اور ہم سیڑھیاں پھلانگ رہے تھے۔ ہمارا رخ ٹیوب اسٹیشن کی جانب تھا،ٹرین کے آتے ہی ہم اندر گھس گئے ایک دوسرے کی جانب دیکھا تو ۔
عابد نے سرد موسم میں چہرے کا پسینہ پونچھتے ہوئے، آہستگی سے کہا ۔۔ کتے دی پتر۔۔ چار پانچ گھنٹوں بعد یونس تنویر کی کال آگئی، تم کسی دوست کے ساتھ یہاں آئے تھے؟ پہلے تو میں نے جھوٹ بولا ۔ نہیں ،، آج کا ویک اینڈ گھر پر ہی گزاروں گا ۔ تنویر نے بتایا کہاس کی ہمسائی نے پولیس بلا رکھی ہے، وہ الزام لگا رہی ہے کہ میرے دوست اس کے فلیٹ میں گھس آئے، اس پر تشدد کیا اور لوٹ مار کی۔ میں تھوڑا سا گھبرایا پھر اسے ساری کہانی سنا دی۔ تنویر نے کہا کہ اگر تم یہاں آ جاؤ تو پولیس اس بڑھیا سے سب اگلوا لے گی اس مائی پر پہلے بھی اس طرح کے الزامات لگ چکے ہیں۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا، عابد تمہارے لئے جو بلیک لیبل لایا تھا وہ اس بڑھیا کے قبضے میں ہے، تم کسی طرح وہ بوتل لے لو۔بس اتنا ہی کافی ہے .اس کے بعد میں جب تک لندن میں رہا کبھی تنویر کے فلیٹ میں نہ گیا-