Wednesday 2 January 2013

دانے دانے پہ کھانے والے کی مہر

جب ہم نے شہر گردی شروع کی،لاہور اس وقت تک آلودہ نہیں ہوا تھا، سارا شہر گھر کی مانند تھا، ایک دوسرے پر اعتماد کا عالم یہ کہ اگر کوئی مہمان دروازے پر کھڑا ہو کر اندر آنے کی اجازت طلب کر لیتا تو گھر والے برا مناتے، اسے کہا جاتا کہ تم کوئی غیر تو نہیں ہو ، آ جاؤ ،
دروازہ کھلا ہے ، کسی کو بھوک لگتی تو وہ کسی بھی جاننے والےکے گھر چلا جاتا ، کوئی دکھاوا نہیں ہوا کرتا تھا، جو بھی روکھی سوکھی ہوتی سب مل کر کھا لیا کرتے تھے، میکلوڈ روڈ پر نان چنے کی کئی دکانیں اور ریڑھیاں ہوا کرتی تھیں ، اس دور میں ہماری دوپہر عمومآ اسی ایریا میں ہوتی ، دو آنے کے دو نان یا گرما گرم روٹیاں اور دوآنے کے چنے، میں نے کئی بار سوچا کہ اگر کوئی کشمی چوک کے کسی ہوٹل میں پندرہ روپے جمع کرا دے تو مہینہ بھر دو وقت کی اچھی روٹی کھا سکتا ہے، اس زمانے میں کوئی گاہک کھانا کھا کر بل دیے بغیر نکل جاتا تو دکاندار اکثر اسے آواز نہ دیتا کہ شاید اس کی جیب خالی ہو اور وہ اس کے بلانے پر وہ شرمندہ نہ ہوجائے، ایسے کئی واقعات میرے مشاہدے میں آتے رہتے تھے، ایک بار ہم پانچ دوست ایک دوسرے کے بھروسے پر لنچ کرنے پاک ٹی ہاؤس میں جا گھسے ، ہمارے ساتھ بنگالی بھی تھا ،اس کی جیب میں ہمیشہ تھوڑے بہت پیسے ہوتے ،کھانا ختم ہوا تو ہم باری باری ہاتھ دھونے غسل خانہ جانے لگے ، پہلے ریاض گیا، دوسری باری میری تھی ، میں غسل خانے میں داخل اور ریاض باہر نکل رہاتھا کہ اس نے آہستگی سے کہا، ،،، کسی کی جیب میں بھی پیسے نہیں ،،،، وہ تیزی سے سڑک کی جانب بھاگا اور میں نے بھی اس کی تقلید کی ، ہم دونوں کو دیکھ کر اندر بیٹھے ہوئے تینوں نے بھی دوڑ لگا دی ، بنگالی عینک کے بغیر دیکھ نہیں سکتا تھا ، ٹی ہاؤس سےبھاگتے ہی اس کی عینک گر گئی، وہ ہوا میں ہاتھ چلانے لگا ، جاوید رضا کو اس پر ترس آیا تو وہ اس کی مدد کو واپس لوٹ آیا ، ٹی ہاؤس کے دو بیرے بھی آگئے ، بیرے ہم سے پوچھ رہے تھے ،، کیا ہوا ، کیا ہوا ،،اور ہم سب بھی ایک دوسرے سے یہی سوال کر رہے تھے ، بعد میں پتہ چلا کہ ریاض نے مذاق کیا تھا۔وقت گزرتا گیا اور لاہور شہر بدلتا گیا، دکانیں مہنگی ہونے لگیں اور لوگ سستے ،۔۔ 1985 نیوز روم میں نائٹ ڈیوٹی کر رہا تھا ، رات دو بجے کے بعد ہم سب کاپی پریس میں بھجوا کر پیدل چلتے چلتے لکشمی چوک پہنچ جاتے ، ہمارا اڈہ چوہدری ہوٹل ہوتا، یہ ہوٹل ماسٹر امام دین کے بیٹوں نے کھولا تھا، اسی جگہ بیٹھ کر ماسٹر امام دین نے درجنوں فلموں کے لئے ایکٹروں، ایکٹرسوں کے ملبوسات تیار کئے تھے، ماسٹر امام دین نے ایوب خان کے زمانے میں موری ممبری کا الیکشن بھی لڑا تھا، وہاں کوئی کھانا منگواتا اور کوئی چائے ، ان دنوں نان چنے کی دکانوں سمیت تقریبآ سبھی ہوٹل دن چڑھے تک کھلے رہتے تھے ، کئی لوگ کھانے کے دوران مالش کراتے بھی دکھائی دیتے، اسٹیج ڈراموں اور فلموں کے بہت سے ایکٹر بھی وہاں ہوتے،لکشمی چوک ہمارا ریسٹ ہاؤس تھا، تکان اترتی تو سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوجاتے، ایک رات ہم سب آفس کے ساتھی لکشمی چوک کی جانب رواں دواں تھے کہ نشاط سینما کے قریب شاہین قریشی نے فرمائش کر دی کہ وہ آج طوبی کے نان چنے کھانا چاہتا ہے، ہم وہیں رک گئے ، سینما ہاؤس کے باہر رکھی ہوئی کرسیوں پر براجماں ہوئے اور نان چنوں کا آرڈر دے دیا گیا، سب نے جی بھر کے کھایا ، اب بل ادا کرنا باقی تھا، جو کوئی بھی ایک ساتھی ادا کر دیتا ، بیرے کو بل کے لئے بلایا گیا تو اس نے کہا،،، جی رہنے دیں ، اسے کئی بار کہا گیا ، سب نے باری باری کہا مگر اس کا جواب ایک ہی رہا،، جی رہنے دیں، اب سب نے بیرے کی اس مہربانی پر تبصرہ کرنا شروع کر دیا ، زیادہ خیال یہی تھا کہ وہ ہمیں جانتا پہچانتا ہے کہ ہم صحافی ہیں ، اس لئے بل نہیں لے رہا ، میں اس بات سے متفق نہیں تھا، میرا کہنا تھا کہ بات کچھ اور لگتی ہے، میں کرسی سے اٹھا اور بیرے کو ایک جانب لے گیا،، ،یار، تم بل کیوں نہیں لے رہے؟ مالک نے کہا ہے کہ بل نہیں لینا، کیوں بھائی ، مالک نے یہ کیوں کہا؟ وہ کہتا ہے کہ یہ لوگ نہ آتے تو ہم نے اس وقت یہ بچے ہوئے نان چنے کتوں کو ہی ڈالنے تھے، اس لئے ان سے پیسے نہ لینا۔۔