Wednesday 13 March 2013

,,ایک ہمدرد عورت ,, جو خاندان سمیت قتل ہو گئی


واقعہ ہے 24ستمبر 2003 کی صبح کا، لاہور کے علامہ اقبال ٹاؤن میں ایک مشہورزمانہ 55 سالہ عورت کو اس کی بیٹی،دو نواسوں ،ایک مہمان اور تین ملازموں سمیت قتل کر دیا گیا تھا، قاتل پیشہ ور اور مشاق تھے، تمام آٹھ افراد کے سروں میں گولیاں ماری گئی تھیں، صرف اس عورت کا ایک
بیٹا زندہ بچا تھا جو گھر کی اوپر والی منزل میں اے سی لگا کر سو رہا تھا، اس کا کہنا تھا کہ اس نے فاعرنگ کی آواز ہی نہیں سنی تھی، اس سے پہلے اجتماعی قتل کا ایک بڑا واقعہ سنت نگر میں ہو چکا تھا، ان دونوں وارداتوں کا پولیس آج تک سراغ نہیں لگا سکی، اجتماعی قتل کی ان دونوں وارداتوں کے محرکات مختلف تھے ان میں کسی قسم کی مماثلت نہ تھی سوائے تعداد کے۔علامہ اقبال ٹاؤن میں سات دیگر افراد کے ساتھ قتل کی جانے والی عورت کا نام تھا،،نگینہ خانم،،وہ بیس سال کی عمر میں پشاور سے لاہور آئی تھی، فلم ایکٹریس اور گلوکارہ بننے، ایس ایم یوسف کی فلم،اولاد، میں اسے پہلی بار اچھا رول ملا تھا،پشتو فلموں میں اسے نہ صرف بہت کام ملا، بلکہ خود اس نے بے شمار پشتو فلمیں پروڈیوس اور ڈائریکٹ کیں، ایک اردو فلم ،،جینے دو ،، حسن عسکری سے بھی ڈائریکٹ کرائی، پشتو فلم ،، یوسف خان شیر بانو ،، میں اس کا کردار بہت اچھا تھا، بحثیت اداکارہ اس کی آخری فلم سید نور کی ،، مہندی والے ہتھ ،، تھی ، ممکن ہے کہ سید صاحب نے اسے اپنی فلم میں صائمہ کی سفارش پر کام دیا ہو، کیونکہ نگینہ خانم کا دعوی تھا کہ صائمہ نے اداکاری اس کی فلم اکیڈمی سے سیکھی جو اس نے ایک اسٹوڈیو میں قائم کر رکھی تھی,غالبآ یہ بات کافی حد تک درست تھی، نگینہ خانم نے باری اسٹوڈیوز میں اس اکیڈمی کے ساتھ موڑ سمن آباد کے قریب ایک ۔۔سیاسی اور سماجی۔۔دفتر بھی بنا رکھا تھا، جس پارٹی کی بھی حکومت ہوتی وہ اسی پارٹی کا بورڈ باہر آویزاں کر دیتی اور خود اس پارٹی کی علاقائی صدر بن جاتی، اس کا کہنا تھا کہ وہ لڑکیوں کو وہاں دست کاری سکھاتی ہے، اس دفتر میں جو دراصل کئی کمروں پر مشتمل دو منزلہ کوٹھی تھی، جس میں ایک وسیع تہہ خانہ بھی تھا، جہاں بہت ساری لڑکیاں رکھی جاتی تھیں ، اس ڈیرے پر ہر دوسرے تیسرے مہینے تھانہ نواں کوٹ پولیس چھاپہ مارتی، درجنوں لڑکیاں برآمد کی جاتیں۔ اخبارات میں نقاب اوڑھے ان کی تصاویر چھپتیں، اور پھر کسی کاررائی کےبغیر ہی مک مکا ہو جاتا، جب کسی خاص مہمان کو مدعو کیا جاتا تو ایک بڑے کمرے میں اس کے سامنے لڑکیوں کی لائن لگا دی جاتی، فیصلہ مہمان پر چھوڑ دیا جاتا کہ وہ کس کو یا کس کس کو پسند کرتا ہے، یہ ہمدرد عورت کبھی کبھی ایسا بھی کرتی کہ کسی اہم سماجی شخصیت کو بلوا کر انہی قیدی لڑکیوں کے ہاتھوں میں سلائی کڑھائی کے آلات یا کپڑے سینے والی مشینیں پکڑا دیتی،خانم کی قید میں یہ لڑکیاں وہ ہوتیں جو فلموں میں کام کرنے کے جنون میں گھروں سے بھاگ کر اسٹوڈیوز کے دروازوں تک پہنچتیں اور پھر خانم کے کارندوں کے ہتھے چڑھ جاتیں،ماں، خانم کا شاید تکیہ کلام تھا، وہ کسی کو بھی فون کرتی تو آغاز ہی اس طرح کرتی،، بیٹا، میں ماں بول رہی ہوں، اس کے لہجے میں بہت اپنائیت ہوتی، وہ اپنے زیر قبضہ لڑکیوں کو بھی دوسروں کے سامنے بیٹی ہی کہہ کر پکارتی، اس کی ایک ہی خواہش تھی، اپنے بیٹے کو ایکٹر یا ہیرو بنانا اور وہ مرنے اپنے قتل کے باوجود اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب رہی تھی۔آٹھ افراد کے اس اجتماعی قتل کی تفتیش میں ایک پہلو یہ سامنے آیا تھا کہ اس کے زیر قبضہ ایک لڑکی کے لواحقین اپنی بچی کی واپسی چاہتے تھے،خانم نے انکار کر دیا ، اور انہی لوگوں نے خانم کے پورے گھرانے کو قتل کیا۔ وہ ایک,, عظیم عورت،، تھی جو گھروں سے بھاگی ہوئی لڑکیوں کو بار بار بکنے سے بچا کر اپنی پناہ میں لے لیتی تھی، انہیں کھانا کھلاتی تھی، ان کے لباس کا دھیان رکھتی تھی، انہیں سونے کے لئے چھت فراہم کرتی تھی، اپنی پشتو فلموں میں ان لڑکیوں کو کیمرے کے سامنے لا کر ان کی آتش شوق بھی بجا دیا کرتی تھی، کچھ لڑکیاں مشہور بھی ہو گئی تھیں ، اتنا کچھ کرنے والی خانم اگر ان سے جسم کا تاوان وصول کرتی تھی تو کیا یہ جرم تھا؟ بہت سارے شرفاء بھی اسے ماں ہی کہتے تھے، اس کی دریا دلی کے معترف تھے، اسے بڑے لوگوں کی دعوتوں میں مدعو کیا جاتا تھا، وہ بہت سارے بڑے لوگوں کے نزدیک ایک بڑی عورت تھی، اس جیسی بڑی عورتوں کی تعداد آج ہزاروں میں ہے،جو معاشرے میں شاندار خدمات انجام دے رہی ہیں ،داد پا رہی ہیں