Friday 27 September 2013

ٹکی کمار

لکشمی چوک سے رائل پارک داخل ہوں تو دائیں ہاتھ آپ کو ایک قد آور بوسیدہ عمارت نظر آئے گی، یہ کبھی لاہور کا ایک شاندار ہوٹل تھا،، ہوٹل برسٹل،، اس ہوٹل کی شان و شوکت کا پاہر سے نہیں اندر جا کر پتہ چلتا تھا، ابا جی کے بیسٹ فرینڈ شیخ حمید اللہ اچ شریف سے نوکروں کی فوج

ظفر موج کے ساتھ لاہور آتے تو اکثر اسی ہوٹل میں ٹھہرتے، آدھے نوکر چاچا جی کی چاکری اور آدھے بڑے بڑے پنجروں میں بند ان بٹیروں کی خدمت پر مامور رہتے جو ہمیشہ چاچاجی کے ساتھ آیا کرتےتھے ہوٹل برسٹل کے داخلی دروازے سے چند گز کی دوری پر ایک نوجوان زمین پر بیٹھ کر دال کی ٹکیاں بیچا کرتا تھا، ہم ابا جی کے ساتھ جب بھی اس نوجوان کے سامنے سے گزرتے وہ بڑی زوردار آواز میں سلام کرتا، ابا جی جواب میں کہتے، کہہ حال اے تیرا ٹکی کمار،( نام اس کا جاوید تھا) ،، ٹکی کمار بر وزن دلیپ کمار تھا، ہمیں ٹکی کمار کا مطلب جاننے کی ضرورت نہ پڑتی کیوں کہ ہم دلیپ کمار کی کئفلمیں پانچ چھ سال کی عمر میں فیملی کے ساتھ دیکھ چکےتھے، فلمی دفاتر کے ملازمین اس ٹکی کمار کے گاہک تھے جو زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے، رنگیلا اور سلطان راہی جیسے کئی ایکسٹراز بھی ہوٹل برسٹل کے تھڑے پر براجمان ہوتے، ٹکی کمار کا سلطان راہی سے گہرا یارانہ تھے، سلطان راہی نہ صرف مفت کھانا کھاتا بلکہ پانچ دس ہاتھ سے بھی لے جاتا، سلطان راہی کو تو ایکسٹرا رولز ملنے لگے تھے لیکن رنگیلا اس وقت تک اشتہاری بورڈ لکھ کر ہی گزارہ کررہا تھا، یہ لوگ راتیں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر سو کر بسر کیا کرتے، ایک اور بھی تھا، ٹکی کمار کے ٹھییے پر مستقل آنے والا، علاؤالدین کی کاپی کرتا تھا، فلم پھنے خان لگی تو وہ بھی پھنے خان بن گیا، پھنے خان والی ٹوپی۔ پھنے خان جیسی شلوار قمیض، پھنے خان کی چال ڈھال، اور پھنے خان والا ہی انداز گفتگو۔

یہ پھنے خان لائل پور سے آیا تھا، جہانگیر مرغ پلاؤ والوں کا بچہ تھا، نام تھا اس کا طارق جاوید۔ یہ لڑکا بعد میں اسٹیج ڈراموں کا نمبر ون ایکٹر بھی کہلایا،شیبا بٹ سے شادی کی، سال دو سال پہلے ہنستے ہنستے، روتے روتے مر گیا، بڑوں کا بہت آحترام کرتا تھا وہ۔ سلطان راہی پتھروں پر چلتے چلتے، فلم انڈسٹری کا سلطان بنا تو وہ اپنے برے وقتوں کے دوستوں کو نہیں بھولا تھا، وہ ٹکی کمار کو اپنی شوٹنگز پر بھی لے جاتا، ایک جانب سلطان راہی کا فلم نگر میں طوطی بول رہا تھا اور دوسری طرف پھنے خان طارق جاوید نے اسٹیج پر جھنڈے گاڑھ دیے تھے، ،ٹکی کمار نے جو بعد میں جاویدحسن کے نام سے مشہور ہوا، ٹکیاں بیچنا چھوڑ دیا اورسلطان راہی والا فلمی اسٹائل بنا کر لکشمی چوک میں کھڑا ہونا شروع کردیا، فل ان پڑھ تھا اور ہر بات میں گالی گلوچ کیا کرتا، اسٹیج ڈراموں میں فحش اور ذومعنی مکالمے ہٹ ہونے لگے تو ٹکی کمار بھی ہٹ ہو گیا، وہ سخی سرور کے کئی ڈراموں کی ریہرسلز کرتے ہوئے ملا، اسے جب بھی دیکھا گندی زبان بولتے ہوئے ہی دیکھا، اس کا طارق جاوید کے ساتھ ایک ڈرامہ۔ بشیرا ان ٹربل۔ بہت چلا، پھر ٹکی کمار نے،، اک دن شیر دا،، کے نام سے ذاتی فلم شروع کردی۔ شیر وہ خود بنا، سلطان راہی نے خود ہی نہیں انجمن اور کئی دوسرے آرٹسٹوں کو بھی اس فلم میں مفت کام کرنے پر رضامند کیا، فلم کتنی بنی؟ لگی یا نہیں لگی اس کا تو پتہ نہیں، ٹکی کمار نے اس کے پوسٹر بہت لگائے۔ اس فلم کا رائٹر ڈائریکٹر بھی وہ خود تھا، حیرت مجھے اس وقت ہوئی جب بہت سارے دوسرے ہدایت کاروں نے جن میں سنگیتا نمایاں تھی، ٹکی کمار سے اپنی فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھوانا شروع کر دیا۔ اس نے واقعی درجنوں فلمیں لکھیں۔ اور بچی کھچی انڈسٹری کے تابوت میں کیل ٹھونکے، جیدے حرامدے سے بھی آگے نکل گیا تھا وہ۔ پتہ نہیں اس کی پشت پر کوئی نگینہ خانم تھی یا نہیں. پھر ایک دن سلطان راہی قتل ہو گیا، اس کی زیر تکمیل فلموں کو مکمل کرایا ٹکی کمار اور سلطان راہی کے ایک اور شاگرد لاڈلا نے۔ دونوں کو راہی کی موت نے بہت چانس دیے۔ مگر وہ راہی کے خلا کو پر نہ کر سکے۔ ڈپلکیٹ، ڈپلی کیٹ ہی رہے۔ ٹکی کمار مر چکا ہے، لاڈلہ گھر سے دیس نکالا ملنے کے بعد سڑکوں پر در بدر ہے۔ وہ مرے گا تو اس کے بچے اسے دفنانے بھی نہیں آئیں گے۔ شاید اسی بات کے خوف میں وہ اب تک جی رہا ہے۔ خوف کبھی کبھی انسان کی عمر لمبی بھی کر دیتا ہے.