Friday 27 September 2013

حسینی ( Hussaini)

آزادی صحافت کے لئے جہد مسلسل پر مجھے ,,,, اخباری صنعت کا ہیرو ،،، قرار دیا گیا تو میرے چاہنے والوں کی تعداد ان گنت ہوگئی، میں جہاں بھی ہوتا اتنے لوگ ملتے کہ میں ان کے نام بھی یاد نہیں رکھ سکتا تھا، سب سے زیادہ پذیرائی ملتی کراچی میں
پریس کلب پہنچتے ہی پتہ نہیں کہاں کہاں سے لوگ ملنے آجاتے ، انہی پرستاروں میں ایک تھا حسینی۔۔۔۔ وہ تو میرے کراچی پہنچنے کے پانچ منٹ بعد ہی میرے سامنے ہوتا، میں سوچتا رہ جاتا کہ کیا یہ کوئی جادوگر ہے؟ اسے خواب آتا ہے کہ میں کب کہاں ہوں گا، اس کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ ہوتی ، اس کے ہاتھوں میں گولڈ لیف کی ڈبیا اور پان کا لفافہ ہوتا ، جب میرا ہاتھ پان کے لفافے کی جانب بڑھتا تو وہ مجھے ایک پان نکال دیتا اور کہتا کہ باقی میرے پاس ہیں ، میں انہیں اپنے پاس رکھوں گا، وہ مجھے احساس دلاتا کہ پان اور اسگریٹ میں نے پکڑ لئے تو میرے ہاتھ تھک جائیں گے، یہ اس کے مجھ سے لگاؤ کی انتہا لگتی تھی، وہ مجھے تاکید کرتا کہ میں کراچی میں قیام کے دوران ناشتہ ، لنچ اور ڈنر اس کے ساتھ کروں گا، وہ کھانے کے لئے مجھے مہنگے ہوٹلوں میں لے جاتا، خوش مزاج اور باتونی تھا، اس کے ساتھ میں بھی خود کو ریلکس محسوس کرتا،میں اسے صحافیوں اور اخباری کارکنوں کی میٹنگز میں بھی ساتھ لے جاتا، یہ سلسلہ کئی سال چلتا رہا، ایک بار میں کراچی پہنچا تو وہ نہ آیا، مجھے اس کی سنگت کی عادت پڑ چکی تھی، وہ بار بار یاد آیا تو میں نے اسے ڈھونڈھنے کی ٹھان لی، شدید گرم دن تھا، میں صدر کے علاقے میں ان تمام جگہوں پر گیا جہاں جہاں وہ مجھے لے کر جاتا رہا،، کوئی سرا نہ مل رہا تھا اس کا، بڑی تگ و دو کے بعد مجھے اس ایریا کا نام مل گیا جہاں وہ رہتا تھا، میں بس میں بیٹھ کر وہاں پہنچا تو انتہائی غریب لوگوں کی بستی تھی، بہت ساری عورتوں اور بچوں کو ہاتھ والے نل سے پانی بھرنے کے لئے ایک لمبی قطار میں کھڑے دیکھا، پوچھتے پوچھتے بالآخر میں ایک دروازے تک پہنچ ہی گیا، دروازہ تھوڑا سا کھلا ہواتھا، میں بار بار کھٹکھٹاتا رہا، کوئی باہر آیا نہ اندر سے کوئی آہٹ سنائی دی، میں نے اندر داخل ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے دروازہ کھول لیا، ایک چھوٹا سا کچا صحن اور اس سے آگے ایک چھوٹا سا گارے سے بنا ہوا کمرہ ، کمرے میں انتہائی گرمی کے باوجود وہ زمین پر دری بچھائے اور اوپر رضائی اوڑھے سو رہا تھا، کمرے میں مٹی کی ایک صراحی، گلاس، پلیٹ اور اسگریٹ کے ٹوٹوں کے سوا کوئی اور کوئی شے نہ تھی، میں نے اسے جگایا،، پسینے سے شرابور، جسم بھی اس کا تپ رہا تھا، مجھے دیکھ کر وہ پریشان نہ ہوا، اسے بخار تھا، دوا دارو تو دور وہ دو دن سے بھوکا بھی تھا،،،
حسینی نے بلا کسی لگی لپٹی کے بتایا کہ وہ ایک انٹیلی جنس افسر کے لئے آؤٹ سورس کے طور پر کام کرتا تھا، اسے میرے بارے میں اطلاعات وہی افسر دیتا تھا اور مجھ پر جو خرچہ ہوتا تھا اس کی ادائیگی بھی انٹیلی جنس ایجنسی ہی کرتی تھی، وہ کراچی میں میری ساری مصروفیات کی رپورٹ دیا کرتا تھا، اس اعلی افسر کا تبادلہ یا ترقی ہوئی تو اس نے حسینی سے رابطہ ختم کر دیا،اب حسینی بے روزگار تھا،باتوں کے دوران حسینی شرمندہ تھا نہ میں حیران۔۔۔میں نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا، چلو آج میں تمہارا میزبان بنوں گا۔