Sunday 26 January 2014

کاکا بدمعاش

لاہوری کلچر کی بہت ساری چیزیں ادھر ادھر ہوگئی ہیں۔ کچھ نشانیاں معدوم اورکئی روایات دفن ہو چکی ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی تک ہر گلی محلے میں ایک بدمعاش ہوا کرتا تھا، کسی کے نام کے ساتھ چھری مار اور کسی کے ساتھ چاقو مار کا خطاب ہوتا، ہم لوگ 1960 میں سعدی پارک سے پیر غازی روڈ کی دھوبی اسٹریٹ میں
شفٹ ہوئے تو اس گلی کا ایک کردار بشیرا غنڈہ تھا، گلی کی عورتیں کہا کرتی تھیں کہ بشیرا کبھی محلے کی بیٹی، بہن کی طرف نہیں دیکھتا، وہ اپنے محلے میں سر جھکا کر چلتا ہے، میں نے بھی اس بات کو نوٹ کیا کہ یہ عورتیں ٹھیک ہی کہتی ہیں، بشیرا کبھی کبھی گلی کی ایک نکڑ پر بنے ہوئے تھڑے پر بیٹھا نظر آتا، اس کا گھر دھوبی اسٹریٹ کی ایک تنگ سی بغلی گلی میں تھا، جہاں اس کی بیوہ بھابی اپنے بچوں کے ساتھ رہتی تھی اور گزر بسر کے لئے سلائی کیا کرتی تھی، اس گلی کا ایک دوسرا اہم کردار مائی پھاتاں تھی، جو ہر وقت اپنے مکان کے باہر کھڑی رہتی، اسے ہم گلی کی وزیر اطلاعات کہہ سکتے ہیں، ایک دن مائی پھاتاں نے گھر گھر جا کر خبر دی کہ بشیرے غنڈے نے اپنی بیوہ بھابی سے شادی کر لی ہے، اس اطلاع نے محلے بھر میں بشیرے کی توقیر اور بڑھا دی
چھ سات سال بعد ہم نے دھوبی اسٹریٹ سے ایک فرلانگ پر سمن آباد، مزنگ اور اچھرے کے سنگم پر اپنا نیا گھر بنا لیا اور وہاں شفٹ ہو گئے، یہ جگہ ابھی آباد نہیں ہوئی تھی چاروں اور کھیت ہی کھیت تھے، کئی سال بعد ہمارے گھر کے ساتھ ساڑھے تین مرلے کا ایک دومنزلہ مکان بنا، پتہ چلا کہ مکان بنانے والا کاکا بدمعاش ہے اور اس کی بدمعاشی مزنگ کے ایک علاقے میں چلتی ہے، وہ پولیس کی سرپرستی میں جواء خانہ بھی چلاتا ہے، یہ بھی پتہ چلا کہ پہلی بیوی سے کاکے بدمعاش کی جوان بیٹیاں اور بیٹے ہیں جو نواں مزنگ رہتے ہیں اور ساڑھے تین مرلے کا نیاگھر اس نے اپنی دوسری بیوی کے لئے بنوایا ہے، پانچ سال پہلے ہیپا ٹائٹس تھری کے ہاتھوں مارے جانے ولے پولیس انسپکٹر وحید نے ایک بار کاکے بدمعاش کو ہماری گلی میں دیکھ کر بتایا تھا کہ اس نے بھتے کے پیسے بر وقت نہ پہنچانے پر تھانہ لٹن روڈ میں کاکے کی کئی بار چھترول کی ہے، کاکے بدمعاش کا مکان بن گیا تو اس نئے گھر میں اس کی نئی بیوی بھی آ گئی، پوپی نام تھا اس عورت کا، بلا کی حسین اور خوبصورت، بڑی بڑی آنکھیں، اور ایسا سڈول بدن جو دیکھنے والوں کو متوجہ کرتا، اسے کاکے کے بغیر بازار یا کہیں اور آنے جانے کی اجازت نہ تھی، وہی اسے کالے برقعے میں ڈھانپ کر موٹر سائیکل کے پیچھے بٹھائے کہیں لجاتا ہوا دکھائی دیتا تھا، پوپی کاکے کی عدم موجودگی میں کھی کبھی دروازے پر کھڑی دکھائی دیتی، کچھ عرصے بعد پوپی نے ایک بیٹی کو جنم دیا، نام رکھا گیا خدیجہ۔ پیشہ ورانہ مصروفیات بڑھ گئیں تو ہمسایہ ہونے کے باوجود میرا کاکے اور اس کی بیوی سے ایک طویل عرصے کوئی ٹاکرا نہ ہو سکا، چار پانچ سال بعد میری بیوی نے مجھے بتایا کہ کاکے نے اپنی بیٹی خدیجہ کو کسی دوسرے شہر کے دینی مدرسے میں داخل کرا دیا ہے، میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ اپنے جرائم سے خوفزدہ بدمعاش نے بیٹی دین کے نام پر قید کرا دی ہے، پھر ایک دو سال اور گزر گئے، ایک دن میں گھر پہنچا تو چھ سات برس کی ایک بیمار اور لاغر بچی میری بیوی کے پاس بیٹھی تھی، میری حیرت کو بھانپتے ہوئے بیگم نے بتایا کہ یہ پوپی کی بیٹی خدیجہ ہے، اس کا سارا سر جوؤں سے اٹا ہوا ہے اور پورے بدن پر پھوڑے ہی پھوڑے ہیں۔ یہ دو سال بعد چند دنوں کے لئے مدرسے سے چھٹی پر آئی ہے اپنی ماں سے ملنے۔ میں کانپ گیا یہ سب سن کر، پھر کبھی اپنی بیوی سے خدیجہ کے بارے میں کچھ نہ پوچھا۔ اب جبکہ اس واقعہ کو بھی پندرہ سال بیت چکے ہیں، میں نے ایک دن اپنی بیوی سے پوپی اور خدیجہ کی خیر خبر پوچھی تو میرے ایک سوال پر اس نے انکشاف کیا کہ پوپی کاکے بدمعاش کی بیوی نہیں تھی، کاکا تو اسے جوئے میں جیت کر لایا تھا۔