Thursday 13 February 2014

ویلنٹائن ڈے

میں 1991/1992 میں ڈیلی جنگ لندن میں چیف نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہا تھا، ایڈیٹر تھے ظہور نیازی صاحب ، ان کا چھوٹا بھائی سعید جنگ لندن میں سب ایڈیٹر تھا،جبکہ سعید کی منگیتر The News International میں کام کرتی تھی، دی نیوز کے دفاتر سینچری روڈ پر جنگ بلڈنگ میں ہی ہیں، فروری کا مہینہ آیا تو ویلنٹائن ڈے کی آمد کا شور مچا،، میرے لئے یہ

ایک نیا تہوار تھا، لیکن گنگا گئے تو گنگا رام کے مصداق میں نے بھی ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے خبریں اور تصویریں شائع کرنا شروع کر دیں، مجھے بتایا گیا کہ میری لندن آمد سے قبل جنگ میں اس اہتمام سے اس تہوار کو ڈسپلے نہیں ملا کرتا تھا، ہماری آفس ٹائمنگ تھی صبح گیارہ سے شام سات بجے تک۔ سات بجے اخبار فائنل کرکے کاپی پریس بھجوا دی جاتی تھی۔ بالآخر 14فروری آ گیا،، یعنی ویلنٹائنز ڈے۔ اس دن میں حسب معمول ٹھیک گیارہ بجے نیوز روم میں داخل ہوا تو میری نشست کے پیچھے تازہ سرخ گلاب کا ایک گلدستہ موجود تھا، پتہ چکا کہ سب ایڈیٹر سعید لایا ہے اپنی منگیتر کے لئے، اور منگیتر ابھی تک آفس نہیں پہنچی، لنچ کا وقت ہو گیا مگر گلدستہ وہیں پڑا تھا، دوسرے لوگ لنچ کے لئے چلے گئے، نیوز روم میں میرے ساتھ صرف جہاں زیب رہ گیا، جہاں زیب بھی سب ایڈیٹر تھا، ایک مکمل شریف مگر شرارتی آدمی، میں نے اس سے کہا'' یہ گلدستہ کہیں کسی کے ہاتھ میں جانے سے محروم ہی نہ رہ جائے؟'' وہ زور سے ہنسا تو میں نے اپنی نشست سے اٹھ کر وہ گلدستہ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس سے کہا''،سعید نے لنچ کے بعد اس گلدستے کو ڈھونڈا تو کہہ دینا وہ بازار سے اور لے آئے''میں آفس کی سیڑھیاں اتر کر اس PUBمیں پہنچا جہاں نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والی اٹھارہ سالہSTACEY FROST ساقی گری کرتی تھی، وہ میرے اچانگ گلاب لے کر پہنچنے پر حیرت زدہ رہ گئی۔ اور میری تسکین ہوگئی کہ چلو کسی خوبصورت لڑکی کو لندن میں ویلنٹئنز ڈے پر سرخ گلاب دینا ایک یاد رہے گا۔

لندن سے دل اکتا گیا تو معذرت کرکے واپس لاہور آ گیا، میرے دل و دماغ میں تھا کہ تجدید محبت کا یہ عالمی دن پاکستان میں بھی متعارف کراؤں گا، پھر یہی ہوا، 14فروری آیا تو میں نے اپنے اخبار کے فرنٹ پیج کے لوئر ہاف میں اسے نمایاں جگہ دی بہت ساری معلوماتی اور دلچسپ خبریں اور تصویریں چھاپیں، اس سے اگلے سال تو سارے پرنٹ میڈیا میں ویلنٹائن، ویلنٹائن ہوگئی، پھر آہستہ آہستہ یہ تہوار اخبارات کی کمائی کا ذریعہ بھی بن گیا، پیغامات محبت پر خصوصی ایڈیشن چھپنے لگے، ویلنٹائن گفٹس کی دکانیں کھلنے لگیں، فائیو اسٹار ہوٹلز میں اس دن کی مارکیٹنگ شروع ہو ئی، ویلنٹائن کیک بننے لگے، اور یوں فروغ محبت ہی نہیں، یہ دن حصول روزگار کا بھی ایک ذریعہ بنا، پھر مولویوں کے مخالفانہ فتووں کا سلسلہ چلا، اس دن کو منانا حرام قرار دیا گیا، پولیس کو بھی کمائی کا ایک اور دن مل گیا، ویلنٹائنز ڈے پر ایک ساتھ گھومنے والے لڑکے لڑکیاں گرفتار ہونے لگے۔ ہمارے دانشور صحافی مجیب الرحمان شامی کو بھی کالم لکھنا پڑا، '' لاہور کا ایک نوجوان صحافی لندن سے پلٹا تو یہ برائی ساتھ لے کر آیا ''   اس کالم سے مجھے میری کاوش کی سند مل گئی، یہ اور بات ہے کہ اگر آج شامی صاحب کو ویلنٹائن ڈے کی مخالفت میں کالم لکھنے کی فرمائش کی جائے تو وہ شاید نہ لکھیں گے۔۔