Saturday 15 March 2014

آدھے ننگے

میں نے آج اپنے دیرینہ دوست ماما چوہدری کو فون کرکے پوچھا کہ ضلع ساہیوال کا ہمارا وہ دوست کہاں ہے جو تیس پنتیس سال پہلے ہمیں بازار حسن دکھانے لے گیا تھا، چوہدری نے بہت اداس لہجے میں بتایا۔ وہ تو ایک سال ہوا مر گیا۔ مرتے وقت وہ

معزز جج کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔ وہ تھا تو کمیونسٹ مگر کہلاتا علامہ تھا، ہر وقت شرارت ، ہر وقت مسکراہٹ ، گریجویشن کے بعد اس نے لاء پڑھنے کیلئےپنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا- ایک دو گھنٹے کی کلاسز ہوتی تھیں باقی دن وہ عام طور پر ہمارے ساتھ گزارتا- علامہ زندگی کے ہر لمحے کو انجوائے کرنے والا اشتراکی نوجوان تھا. یہ الگ بات کہ وہ عین جوانی میں ہی مذہب کی جانب لوٹ گیا تھا، مکمل ڈاڑھی اور شلوار گھٹنوں تک مجھ جیسوں کو دعوت اسلام. ایک دن اس نے مجھے اور چوہدری کو دعوت دی کہ کہ لاء کےطلبہ نے پروگرام بنایا ہے کہ وہ سب گروپ کی شکل میں بازار حسن جائیں گے، آپ دونوں بھی ہمارے ساتھ چلیں.  میں تو اس دعوت پر تھوڑا سا ہچکچایا لیکن چوہدری نے میری جانب سے بھی ہاں کہہ دی. پھر وہ دن آیا جب میں اور چوہدری اس دعوت میں شریک ہونے کیلئے یونیورسٹی پہنچے،وہاں سفید رنگ کی 20نششتوں والی کرائے کی وین کھڑی تھی، علامے اور ڈرائیور سمیت 18لوگ موجود تھے، میرے اور چوہدری کے پہنچ جانے سے 20 کی20نشستیں پر ہو گئیں۔ اور ہم سب منزل کی سمت رواں ہوئے. وین بازار حسن کے مین چوک میں رکی، سب لوگ نیچے اترآئے، ماما چوہدری قریب ہی زمین پر بیٹھے ایک آدمی کے پاس جا کھڑا ہوا، میں اس کے قریب گیا تو پتہ چلا کہ وہ سو روپے کی چینج لے رہا ہے، ایک ایک روپے والے کڑکڑے نوٹ، اس کے لئے اسے پانچ روپے اضافی دینا پڑے، دس روپے اس نے مجھے دیے اور باقی دوسروں میں بانٹ دیے ۔ علامے کی قیادت میں سارے لوگ اس بیٹھک میں پہنچے ، جہاں بقول علامہ اوکاڑے کی ایک لڑکی مجرا کرتی تھی، کمرے میں ایک آدمی ڈھولک اور دوسرا باجے پر بیٹھا تھا، سب 20تماش بین فرشی دری پر بیٹھ گئے تو سازندوں نے ساز چھیڑ دیے. دو چار منٹ بعد ایک سانولی سی ، دبلی سی لڑکی چلمن سے برآمد ہوئی ۔ لکھنوی انداز میں سب سے آداب کہا اور پھر اپنے فن کا مظاہرہ شروع کردیا، اس زمانے میں رقص کرنے والیاں گایا بھی خود کرتی تھیں. یعنی لائیو مجرا، سب نے نئے نوٹ اپنے اپنے سامنے سجا لئے، میں نے بھی اپنے حصے میں آنے والے ایک ایک روپے کے دس نوٹ اپنے سامنے رکھے۔ جی نہیں چاہ رہا تھا کہ ایک روپیہ بھی ضائع کروں لیکن جب رقاصہ نے ہیم لتا کا گایا ہوا یہ گیت گانا شروع کیا۔ “اکھیوں کے جھروکوں سے، میں نے دیکھا جو سانورے تم دور نظر آئے بڑی دور نظر آئے”  میں نے ایک ایک کرکے تین روپے اس کی نظر کر دیے اور سات روپے بچا لئے۔ سات روپے بچا لینے پر میں بہت خوش تھا۔ یہ نشست برخاست ہوئی تو باہر نکل کر طے ہوا کہ سب لوگ ایک گھنٹہ اس بازار کی سیاحت کر لیں اور پھر واپسی کے لئے مقررہ وقت پر ویگن کے پاس آ جائیں ۔ سب لوگ ادھر ادھر غائب ہو گئے اور اس ننگے اور گندے چوک میں اکیلا میں رہ گیا،، وقت تھا شام کے پانچ یا چھ کا .. اس بازار میں بزنس شروع ہونے میں اور دکانیں اور دفاتر کھلنے میں ابھی کئی گھنٹے باقی تھے، میں نے اس جانب چلنا شروع کیا جس راستے سے ہم آئے تھے، ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ احساس ہوا کہ ارد گرد کچھ خلاف معمول ہو رہا ہے۔ میں جہاں تھا وہیں رک گیا،میرے دائیں بائیں بوسیدہ مکان تھے، ہر گھر کے دروازے کے ساتھ خاک آلود ، سیڑھیاں تھیں.... گڑ بڑ انہی سیڑھیوں میں تھی ، عجیب و غریب لوگ چڑھ رہے تھے، عجیب و غریب لوگ اتر رہے تھے ،چڑھنے والے بھی شرمندہ شرمندہ آنکھیں جھکائے ہوئے اور سیڑھیاں اترنے والے بھی نادم ، نادم ۔ کچھ تو ضرور ہے، اس اسرار سے پردہ اٹھانے میں بھی ایک گھر کی گندی اور ننگی سیڑھیاں عبور کر ہی گیا- یہ دس فٹ چوڑی اور تیس فٹ لمبی کچی چھت تھی ،چھت پر چھڑھتے ہی بائیں طرف بغیر چھت کے واش روم تھا،چھت کے درمیان تین برہنہ پارپائیاں تھیں، جن پر دس سے زیادہ لوگ ایسے بیٹھے تھے کہ ایک دوسرے کا چہرہ بھی نہ دیکھ سکیں… چھت کے آخر میں ایک کمرہ بنا ہوا تھا، جس کی اندرونی حالت بھی یقینآ باقی چیزوں جیسی ہی ہوگی شاید فلم ” دلہن ایک رات کی”…کی ہیروئن نمی(قمر جہان) کے شاہدرہ والے گھر کے اس کمرے جیسی، جہاں ہر رات ایک نئی فلم بنا کرتی تھی..
میں چھت پر بچھی چارپائیوں کے قریب خاموشی سے کھڑا ہو گیا. ان چار پائیوں پر بیٹھا ایک ایک شخص باری باری اس کمرے میں جاتا جہاں ایک بھدی سی،موٹی سی لڑکی موجود تھی، جب ایک آدمی اپنی خباست دور کرکے اس کمرے سے باہر نکلتا تو اس کے پیچھے کمرے والی لڑکی بھی باہر آتی اور واش روم چلی جاتی. بات سمجھ میں آ رہی تھی  . ا ب میں نے اپنے سامنے اس کمرے کا مہمان بننے والوں کی گنتی شروع کر دی ایک،دو،تین،چار تعداد دس سے بڑھ گئی، میرے دیکھنے سے پہلے نجانے کتنے اور آ چکے تھے؟ یہ بیمار لوگ اگرچہ فارغ ہو کر واپس جا رہے تھے، لیکن نئے آنے والوں کے باعث چارپائیوں پر بیٹھے ہوؤں کی گنتی کم نہیں ہو رہی تھے۔ اب گیارھواں آدمی کمرے سے باہر نکلا، اس کے پیچھے وہ لڑکی بھی آئی اور واش روم چلی گئی،میں لرز گیا ، میں چکرا گیا ،میرا دماغ ماؤف ہو چکا تھا۔ یہ ہوتا ہے میرے اس شہر میں؟ یہ کیسی مزدوری ہے،کیا یہ کھلے عام ظلم نہیں ؟ یہ سب کسی کی بیٹی کے ساتھ ہو رہا ہے۔۔ دنیا کی بد ترین مشقت برداشت کرنے والی اس لڑکی کو کوئی اس جہنم سے نہیں نکال سکتا ۔ وہ واش روم سے باہر نکلی تو میں تیزی سے آگے بڑھا اس کا بازو پکڑ کر اس سے کچھ کہنا چاہا، مگر اس نے پوری قوت سے بازو میرے پنجے سے چھڑایا، غصے سے دیکھا اور یہ کہتی ہوئی رزق گاہ کی طرف بھاگی…
 “چھوڑو، چھوڑو، مسخری نہیں، یہ دھندے کا ٹائم ہے”