Thursday 10 October 2013

سہیل ظفر۔۔۔۔۔ایک ہیرا

سہیل ظفر بہت سینئیر تھا مجھ سے ، میں اگر کہیں اس سے جیت سکتا تھا تو وہ میدان تھا یاوا گوئی اور پنگے بازی کا، اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہر لمحے سجی رہتی اور مجھے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لئے کئی پاپڑ بیلنا پڑتے، یہ میری اداسیوں کے دن تھے،

لیکن جب ہنسی مزاح کا موڈ بن جاتا تو کس کی مجال کہ وہ بد تمیزیوں سے روک سکے، ستر کی دہائی کے وسط میں سہیل ظفر سے روزنامہ مساوات کے آفس میں پہلی ملاقات ہوئی، وہ سید عباس اطہر کے یاران خاص میں شامل تھا ، اس گروپ میں خالد چوہدری، انور شاہد، شیخ مظفر، نوید بٹ،بابا چشتی اور مولوی سعید اظہر ہوا کرتے تھے، میں کم عمری کے باعث اس گروپ کے شب و روز میں شامل نہ تھا، میں اور سہیل ظفر پہلی ہی ملاقات میں بے تکلف ہو گئے، دوسری ملاقات میں سہیل ظفر نے مجھے وزنی گالی سے مخاطب کیا تو اچھا لگا، اس کے اس طرز تخاطب کا مطلب تھا کہ وہ میرا دوست بن چکا ہے، اندھا کیا مانگے کے مصداق مجھے ایک اور ایسا دوست مل گیا جس کے ساتھ بے تکی گفتگو ہو سکتی ہو، ، سہیل ظفر تھا بہت وجیہہ ،لباس بھی اسٹائلش پہنتا، وہ مساوات کے ادارتی عملے کا سینئیر رکن تو تھا لیکن اس کا زیادہ وقت گزرتا تھا PTV میں اس دور میں ٹیلی وژن سیلف سنسرڈ، رجعت پسند اور مولوی ٹائپ پروڈوسرز سے پاک صاف ہوا کرتا تھا، سب وژنری لوگ تھے،حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے اور لٹریچر پڑھنے والے بھی ۔۔۔ سھیل ظفر پی ٹی وی پر کرنٹ افئیرز کا پروگرام کرتا تو ایک بدلا ہوا شخص نظر آتا، مکمل سنجیدہ دانشور لگتا جسے ملکی اور عالمی حالات پر پورا کنٹرول حاصل ہو،1977 میں مارشل لاء کی ضیاء الحقی ہوئی تو سب اتھل پتھل ہو گیا، حالات کی سنگینیوں سے باہر نکلنے کے لئے ہم نے کبھی کبھار دوستوں کی گٹ ٹو گیدر شروع کر دی، ایسی محفلوں کی رونق ہو کرتا ہمیشہ سہیل ظفر،، ، ایک بار شاہد محمود ندیم اپنی اہلیہ مدیحہ گوہر کے ساتھ ہماری ایک دعوت میں آئے تو بہت حیران تھے کہ ہم لوگ مارشل لاء کی سختیاں بھی جھیل رہے ہیں اور معمول کی زندگی بھی گزار رہے ہیں ، میں نے کہا کہ ہم تو جیلوں اور عقوبت خانوں میں بھی میلے لگا لیتے ہیں، جیسے شاہی قلعہ اور لال قلعہ میں رات کو جب فوج اور ایجنسیوں کے لوگ اپنے گھروں میں چلے جاتے اور نگرانی کے لئے صرف پولیس والے باقی رہ جاتے تو ہم سب ضمیر کے قیدی اپنی اپنی کوٹھریوں سے محفل موسیقی شروع کر دیتے، جب میری باری آتی تو مجھے یہ گیت گانا بہت اچھا لگتا، رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا، کس کے روکے رکا ہے سویرا۔۔۔۔۔
ایک بار میں حیدر آباد جیل کی یاترا سے واپس لاہور پہنچا تو کامریڈز نے ایک محفل موسیقی رکھ لی، سہیل ظفر بھی مدعو تھا، وہ مکمل موڈ میں تھا، کسی کو بات نہیں کرنے دے رہاتھا، سب تنگ آ گئے اس سے، سارے حربے آزمائے گئے، مگر بے سود، قریب ہی جواد نظیر کا گھر تھا، ہم لوگ اسے بہانے سےاس گھر میں لے گئے , ایک کمرے میں بٹھایا اور باہر سے تالہ لگا دیا، جب ہم واپس پارٹی میں لوٹے تو وہ وہاں ہم سے پہلے پھر موجود تھا، یہ معمہ آج تک نہیں حل ہو سکا کہ وہ بند گھر سے نکلا کیسے ؟ اس پارٹی کے شرکاء آج بھی جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے یہ سوال ضرور کرتے ہیں۔۔۔
ایک بار وہ گھر واپسی کے لئے اپنی گاڑی کو ریورس کر رہا تھا، آگے پیچھے بھی گاڑیاں تھیں، جب کافی دیر تک وہ کامیاب نہ ہوا تو قریب ہی کھڑے تین چار لڑکوں سے کہنے لگا,, کیا تم میری ہیلپ کرو گے؟ ایک لڑکے نے کہا ،،، ہم گاڑی ریورس ہی نہیں کرینگے آپ کو آپ کے گھر بھی چھوڑ آئیں گے، اگر آپ واپسی کے لئے ہمیں ٹیکسی کا کرایہ دیں توسھیل ظفر مان گیا، ایک لڑکا ڈرائیو کرنے لگا، اس کے ساتھ سھیل ظفر بیٹھا اور عقبی نشست پر دوسرے دو لڑکے ، سہیل ظفر پورے راستے ان بچوں کی تعریفیں کرتا رہا، ہیلپ کرنے پر انہیں شاباش دتا رہا، کئی اور تحائف دیے کے وعدے وعید بھی کئے جب گاڑی سھیل ظفر کے گھر کے دروازے پر رکی، پہلے وہ اور پھر لڑکے گاڑی سے نیچے اترے، اب سھیل ظفر نے انہیں واپسی کا کرایہ اور انعام و اکرام دینا تھا مگر یہ کیا ؟ سہیل ظفر نے شور مچا دیا، ڈاکو، ڈاکو، ڈاکو، بچاؤ ؤ بچاؤ۔ اور لڑکوں نے خوفزدہ ہو کر وہاں سے دوڑ لگا دی۔