Wednesday 26 February 2014

پتلی گلی کی بھدی لڑکی

شیخ صاحب سے کوئی بات کریں ،ان کی تان مینا چوہدری پر ہی ٹوٹتی ہے، میں نے کہا شیخ صاحب،حکومت، طالبان مذاکرات تیجہ خیز ثابت کیوں نہ ہوئے؟ جواب ملا، چھڈو،جی،وہ زمانہ ہی نہیں رہا،یہ جو مینا چوہدری تھی ناں، ،کیا بات تھی اس کی،اس دور کی ناچنے والیاں بھی

اصول والی ہوتی تھیں اب تو ساری پیسے کی گیم باقی رہ گئی ہے، مینا چوہدری کے گھر ہم ایک ہی لحاف میں پاؤں پسارے تاش اور لڈو کھیلا کرتے تھے، سردیوں کی ایک رات تھی، ہم رضائی میں بیٹھ کر گیم کھیل رہے تھے۔ مینا کی ماں اسے کئی بار بلانے آئی، مگر وہ نہ گئی، ماں نے بہت سمجھایا ،، باہر ڈرائنگ روم میں ایک لکھ پتی سیٹھ مینا کا منتظر تھا، ہیرے کا قیمتی ہار لے کرآیا تھا ، مگر مینا دولت کی لالچی نہ تھی، وہ رات گئے خود گاڑی ڈرائیو کرکے مجھے گھر ڈراپ بھی کردیتی تھی، شیخ صاحب وہ آپ کی محبوبہ رہی ہے کیا؟ نہیں جی ، میرے ایک دوست کی معشوق تھی، میں تو بس اس دوست کے ساتھ ہوتا تھا۔ یہ جو ممتاز ہے، فلمی ہیروئن ، وہی ممتاز جس نے پنجابی فلم بنارسی ٹھگ میں آئٹم سانگ کیا تھا، لوگوں کو اس کی شکل سے زیادہ اسکی،،تنی،، اچھی لگی تھی، وہ گانا تھا ناں،اکھ لڑی بدو بدی، اس میں اس کاپیٹ ننگا تھا، لوگ تو وہ گانا دیکھنے ہی جاتے تھے فلم کا ، اس کے بعد شیخ صاحب مینا چوہدری کا ممتاز سے موازنہ شروع کر دیتے ہیں ،،متاز کا گھر مینا چوہدری کے گھر کے ساتھ ہی تھا، ممتاز بہت کالی کلوٹی اور گندی تھی، اس کے تو گھر سے اتنی بو آتی کہ باہر گلی تک پتہ چلتا تھا،لوگ ناک پر رومال رکھ لیا کرتے تھے اس کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے، پھر شیخ صاحب اس محلے کی ایک اور ،، فنکارہ،، کا ذکر لے بیٹھتے ہیں، یہ فنکارہ آجکل بھی پاپولر اور جوان ہے، چالیس پنتالیس کی لگتی ہے مگر شیخ صاحب مصر ہیں کہ وہ ان کی ہم عصر ہے، جب کوئی شیخ صاحب سے خود ان کی عمر پوچھ لے تو وہ جواب بھی مشروب کی طرح پی جاتے ہیں،کوئی ساٹھ پنسیٹھ کا قریبی دوست یہ سوال کر دے تو فرماتے ہیں ،، آپ تھوڑے سے چھوٹے ہیں مجھ سے، شیخ صاحب جب 1960 کی باتیں بتاتے ہیں اور اپنی وہ تصویریں دکھاتے ہیں جب لندن میں رہا کرتے تھے تو سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں اور جاننے والے جان جاتے ہیں کہ وہ کس دہلیز پر کھڑے ہیں،عمر ،ان کی جتنی بھی ہو، ماشا اللہ شیخ صاحب جوانوں کے ساتھ بیٹھے جوانوں سے زیادہ جوان لگتے ہیں، شیخ صاحب جب بھی ممتاز کا ذکر کرتے ہیں تو مجھے بہت ساری باتیں یاد آ جاتی ہیں،

 (آئیں ہم ممتا کی طرف چلتے ہیں۔)
بات ہے سن96 -1995 کی ۔۔ آفس میں فون کی گھنٹی بجی،رسیور اٹھایا تو دوسری جانب ایک نسوانی آواز تھی۔اس عورت نے سوال ہی ایسا کیا کہ میرے پسینے چھوٹ گئے، جواب دینا تو کجا اس وقت خود کو نارمل رکھنا مشکل ہو گیا،، میں نے شکر کیا کہ روم میں کوئی اور نہ تھا۔ فون پر بے باکی دکھانے والی یہ تھی ایکٹرس ممتاز جو اس وقت باری ملک کے بیٹے راحیل کی بیوی اور اس کے تین چھوٹے چھوٹے بچوں کی مبینہ ماں تھی ،پھر ممتاز کے تواتر سے فون آنے لگے،ایک دن میں نے اس سے کہا ،، تم اب ایک شریف آدمی کی بیوی ہو، اس کے اعتماد کو کیوں مجروح کر رہی ہو؟ اس نے جھٹ جواب دیا،، وہ شریف آدمی میرے ساتھ ہی بیٹھا ہے، میں اس سے طلاق لے چکی ہوں۔ممتاز کی یہ بات سن کر کہ اس کا شوہر اس کے پاس ہی بیٹھا ہوا ہے،،میرے ایک بار پھر پسینے چھوٹے،، سوچا جھوٹ بول رہی ہوگی،،، کیا تم راحیل سے میری بات کرا سکتی ہو؟،،اس نے رسیور اس کے ہاتھ میں دیدیا،،، راحیل نے ہیلو کہا تو میں شرم سے پانی پانی ہو گیا ،۔۔۔ ممتاز آہستہ آہستہ ملاقات کی فرمائشیں کرنے لگی۔اس سے جان چھڑانا دشوار ہو رہا تھا ،ایک دن اپنے دوست اعجاز کو اعتماد میں لیا تو اس نے مشکل حل کر دی۔ تم اسے میرے آفس بلوا لو، پھر ممتاز سے طے ہوا کہ ہم اعجاز کے آفس میں لنچ کریں گے، وہ کسی ممتاز اکیلے میں ملنا چاہتی تھی ۔میں نے اسے بمشکل اعجاز کے آفس آنے پر آمادہ کیا۔ پھر وہ دن آ گیا جب پتلی گلی کی بھدی لڑکی سے پہلی ملاقات ہوئی۔اس بھدی لڑکی سے ملاقات جس کے دیوانوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں لاکھوں تک جا پہنچی تھی۔میں بارہ بجے اعجاز کے آفس بیٹھا تھا،،لنچ کا اہتمام اسی کمرے میں تھا، ساڑھے بارہ کے قریب دروازہ کھا اور ممتاز اندر داخل ہوئی، اس کے ہاتھوں میں گلدستہ تھا،، اس سے پہلے کہ وہ صوفے پر بیٹھتی،،، اعجاز زور سے چلایا، اچھا، یہ تو وہی ممتاز ہے،جس کی فلمیں میں نے بچپن میں دیکھی تھیں،، ممتاز نےاپنا چہرہ اعجاز کی طرف موڑا،اس کا چہرہ انگارہ بن چکا تھا، وہ شدید غصے میں آگئی، اس کے چہرے پر نفرت کے آثار بھی تھے، ممتاز نے پھول ایک نکڑ میں پھینکے اور ایڑھی زمین مارتی ہوئی کمرےسے باہر نکل گئی۔۔    (کہانی ابھی باقی ہے)