Saturday, 31 August 2013
ایک تھی شہلا
قصہ کشتوں کی کمائی سے بننے والی ایک فلم کا
ابراہیم جلیس
پہلی بار کراچی گیا تو ابا جی نے اپنے تین دوستوں کے نام خطوط دیے ، ایک تھے اداکار کمال، دوسرے حمید کاشمیری اور تیسرےابراہیم جلیس، کمال صاحب کے دروازے تک تو پہنچ گیا، لیکن دستک دیے بغیر واپس چلا آیا، ان دنوں کمال صاحب PECHS میں نرسری کے قریب اپنے آبائی مکان میں رہا کرتے تھے،گھر کی باہر سے شان و شوکت دیکھی تو دل نہ مانا کہ دستک یا بیل دوں، مجھے بڑے گھروں کے مکین
آغا مسعود کے ساتھ گزرا زمانہ
جیدا حرامدہ
اب تو وہ کئی فلمیں ڈائریکٹ کر چکا ہے،آجکل بھی نئی فلم کی تیاریاں کر رہا ہے، ایک اردو فلم کی ہیروئن تو اس نےانڈیا سے لی ،دو فلمیں دوسرے ملک کے اشتراک سے بنائیں، پنتیس چالیس سال پہلےنیا نیا ملا تو ایک دن مجھےمزنگ چونگی سے کوئینز روڈ کی جانب جاتے ہوئے جو پہاڑی ہے وہاں لے گیا
(یہ پہاڑی اب ایک گرلز کالج
آسیہ
طارق وحید بٹ
کچھ سچ دفنانے کے لئے بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔
ایک سوال۔۔۔۔۔میری جگہ آپ ہوتے تو کیا جواب دیتے؟
پوری دنیا میں ہوتا ہے یہ، لڑکیاں فلم ایکٹرس بننے کی آتش شوق سینوں میں چھپائے گھروں سے بھاگ جاتی ہیں ، اور تو اور میں نے امریکی مصنفوں کی کہانیاں بھی پڑھی ہیں اس موضوع پر، ہالی وڈ پہنچنے والی کئی لڑکیاں بھی انہی اندھے کنوؤں میں جا گرتی ہیں , جو لولی وڈ اور بولی وڈ میں شکاریوں نے کھود
صبیحہ آنٹی
بے شمار پاکستانی صحافی ایسے بھی ہیں جو پاکستان میں ہوں ، امریکہ میں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں ، ان کے اندر سے غیر ذمہ دارانہ روایتی پن نہیں جاتا، انتہائی غیر ذمے داری سے، غیر مصدقہ اور سنی سنائی خبریں بھی عوام تک پہنچا دی جاتی ہیں، ایک فرد، ایک خاندان، اور پورا معاشرہ ایسی صحافت سے کیسے اور کتنا متاثر ہوتا ہے ، یہ سوچا بھی نہیں جاتا، میدان صحافت میں میرے 43 سال ایسے کئی واقعات کے شاہد ہیں، کئی صحافی ہیں جو ایک چھوٹے سے لفافے
منی اب بھیک مانگتی ہے
نعیم ہاشمی صاحب ہمارے دادا دادی کی اکلوتی اولاد تھے، لیکن اس اکلاپن کا احساس نہ کبھی انہیں ہوا نہ کبھی ہمیں، وجہ تھے ہمارے وہ ڈھیر سارے چاچے جو روزانہ دن رات ہاشمی صاحب کے ارد گرد رہتے، ہاشمی صاحب گھر میں ہوں یا اپنے پروڈکشن آفس میں، وہ ہوٹل کنگ سرکل میں بیٹھے ہوں یا کسی فلم کی شوٹنگ میں مصروف ہوں، ہمارے دو، چار، چھ چاچے ضرور انکے ہمراہ رہتے، چاچوں کے اس سیلاب میں
محبوبہ پیتل کی ہونی چاہئیے۔۔۔
عالم لوہار اور زمرد کا لہنگا
ستر کی دہائی شروع ہوئی تھی۔آوارہ گردی کے دن تھے، صبح کہیں شام کہیں بسر ہو رہی تھی، عنایت حسین بھٹی کے سابق ڈرائیور اور اسٹیج سنگر شوکت کشمیری نے میری پہلی ملاقات کرائی عالم لوہار سے۔۔چوک نواں کوٹ سے سمن آباد داخل ہوں تو بائیں ہاتھ ایک بوسیدہ سا بنگلہ موجود تھا۔
جہانگیر
تین افراد پر مشتمل یہ فیملی اچھرے میں پیر غازی روڈ کے دھوبی محلے میں آتے ہی مشہور ہو گئی تھی۔ ۔گھر کے سربراہ کو لوگ باؤ جی کہتے تھے، باؤ جی اس لئے کہ اس کی لڑاکا بیوی اور بیٹا بھی انہیں باؤ جی ہی کہتے تھے۔جہانگیر کو گھر کی باتیں دوسروں کو سنانے کا چسکا تھا۔وہ بڑے فخر سے بتاتاکہ وہ ایک امیر عورت کے بطن سے پیدا ہوا جو اپنے کسی عاشق سے
Friday, 30 August 2013
ایم اسماعیل
میری ایک سالگرہ کا احوال
ہر سال چار مارچ کو اپنی سالگرہ پر مجھے ایک شخص ضرور یاد آتا ہے، نام تھا اس کا عاصم ، تخلص صحرائی، گورنمنٹ کالج لاہور میں نفسیات کا طالبعلم تھا، شاعری واعری کرتا تھا،بہت زبردست نظریات تھے اسکے، عاصم صحرائی کا تعلق کسی دوسرے شہر کےعام سےگھرانے سے تھا، وہ اپنے عزم کی بدولت گورنمنٹ کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوا تھا
ظہیر کاشمیری صاحب
دنیا اس بات پر متفق ہے کہ غالب اردو شاعری کے نمبر ون شاعر ہیں، دوسرا نمبر علامہ اقبال کو دیا جاتا ہے اور تیسرا فیض صاحب کو۔ دوسرا تیسرا تو بعد کی بات ہے، میں پہلے نمبر سے ہی متفق نہیں، میرا خیال یہ ہے کہ، مرزا اسد اللہ غالب کے زمانے میں اگر
حبیب جالب
آوارہ گرد فریب سود و زیاں سے گزرے ہوئے لوگ ہوتے ہیں ،ان کے مشاہدے اور تجربے کو کسی کتابی علم سے چیلنج نہیں کیا جا سکتا، بے شمار آوارہ گرد ہمیشہ میرے قریب رہے ، یہ آوارہ گردی کا اعجاز ہی تھا کہ حبیب جالب جیسے بڑے لوگ بھی
خدا کی بستی اور شوکت صدیقی
نور جہان سے انتقام
حفیظ قندھاری
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہوئی کہ اس نوزائیدہ مملکت کی تاریخ لکھنے کی ذمہ داری کسی نے نبھائی اور نہ کسی کو سونپی گئی، رائٹ ونگ کے دانشوروں نے نصابی اور غیر نصابی کتب کے ذریعے آنے والی ہر نسل کو وہی پڑھایا جو ان کے اپنے مفاد میں تھا، ہم نے نیا ملک تو بنا لیا ، لیکن نئے ملک کے تقاضوں کو نہ سمجھ سکے، کلچر مخالف قوتوں کی
نرگس۔
سنجے دت کی ماں مدر انڈیا فیم نرگس کی بات نہیں کر رہا، ،اس نرگس کے بعض واقعات لکھ رہا ہوں ، جس کے بولڈ ڈانسز نے پاکستان میں اسٹیج ڈرامے کو موت کی نیند سلا دیا، گو ڈرامے کی موت کی ذمے دار اکیلی نرگس پر نہیں ڈالی جا سکتی، لیکن اس نیک کام میں اسکا حصہ اس کے جثے کے مطابق ضرور رہا ، اس واردات میں اس کی بہن دیدار اور خوشبو جیسی کئی دوسریوں نے بھی خوب ہاتھ بٹایا، نرگس کو پہلی شہرت ملی سابق تھانیدار عابد باکسر کے اس پر
اور بالآخر وہ مسلمان ہو گیا۔
ریاست اور حکومت کے خلاف بغاوت کا سب سے بڑا ملزم
مہ ناز
ایک تھا زبیر رانا
ڈاکٹر مبشر حسن
Thursday, 29 August 2013
پاکستان اور کترینہ حسین
نوٹ چھاپنے والی مشینیں
ایک سیاستدان
چوہدری سرور
فنون لطیفہ کے ٹھیکیدار سید کی کہانی
خدا راہ مجھے صحافی مت کہو
منیر نیازی صاحب
آزاد کوثری
ماموں
عدالت سے’نغمہ کی کوٹھی‘‘تک
نجمہ رومانی
نعیم
الو کا پٹھا
احمد فراز سے ہاتھ
کشور ناہید اور یوسف خان
شاہی قلعہ کی سلاخوں کے پیچھے کھڑی ایک لڑکی
اور اصلی صحافی بھی وہاں پہنچ گئے۔۔۔
سلیم رضا
ایک ادھار جو میں چکانا نہیں چاہتا
عبدلستار ایدھی
ٹھیکہ مینار پاکستان کی سفیدی کا
ہماری ماتحت عدالتیں ۔۔۔
Wednesday, 28 August 2013
حمید اختر صاحب
کالا قریشی
جنرل مشرف کا ایک رتن ، جو اب جمہوریت کا چمپئین ہے
ایک شاعرانہ فارمولہ
گیسٹ ہاؤس کی ایک رات
کہانی ایک چپڑاسی کی
انجمن اور وہ ۔۔۔
چاچا ایف ای چوہدری
سو ڈالر کا نوٹ
نام تھا اس کا نوید بٹ ،، کوئی،، خوبی،، ایسی نہ تھی جو اس میں نہ ہو، تعلق تو اچھے خاندان دے تھا، مگر استاد مل گیا تھا اسے روزنامہ مشرق کا جانا مانا کرائمز رپورٹر افتخار مرزا، ایک ایسا رپورٹر جس نے پولیس کو صحافیوں کے جائز،ناجائز کام کرتے رہنے کا گر بتایا تھا، صحافی ہاتھ میں ہوں تو سمجھ لیں ہر شہری آپ کی رعیت ہے، یہ فلاسفی آجکل تو تقریبآ سو فیصد
عباس اطہر صاحب (3)
1974... جون،جولائی کےدن تھے، میں بعض نجی معاملات کے حوالے سے ذہنی دباؤ میں تھا،پریشان تھا، مگر ان معاملات کو کسی سے شئیر بھی نہیں کرنا چاہتا تھا، دماغ کی حدت سورج کی تپش سے بھی بڑھ گئی تھی ، تپتی سڑکوں پر چلتے چلتے پٹیالہ گراؤنڈ کے قریب پہنچ گیا تو خیال آیا کہ سامنے کاررواں ہوٹل ہے،جہاں ان دنوں شاہ جی عباس اطہر نے اپنا ہیڈ کوارٹر بنا رکھا تھ
عباس اطہر صاحب( 2)
شاہ جی اپنے ماتحتین کو کوئی نہ کوئی لقب دے دیا کرتےتھے ، اور وہ بندہ پورے شہر میں اسی لقب سے مشہور ہو جاتا،ہارون رشید کو خلیفہ کا خطاب ملا، علامہ صدیق اظہر کو،،الامہ،، زاہد عکاسی کو جاہل اکاسی، اسلم خان کو ،،چھرا ،، اوراعظم خلیل کو ،، جھوٹا پیغمبر،، بہت سے لوگوں کو ،، چیف۔۔۔۔۔۔۔۔ کہہ کر بھی پکارتے تھے،، انہیں اپنے عہدے اور اختیار کا آزادانہ استعمال خوب آتا تھا، میڈیا میں اور بھی کئی لوگوں کواختیار استعمال کرتے دیکھا ہے
ایک صحافی جو دشمنوں کی تلاش میں رہتا تھا
یہ ہیں شاہ جی،کتنے
ہیںCute
اسے بہت پہلے مر جانا چاہئیے تھا
اسے مرے سال سوا سال ہوگیاہے، مرنے سے چار پانچ برس پہلے مجھے اس کےفون آنا شروع ہوئے، اوئے مجھے مل لو، میں بیمار ہوں، تمہارا باپ میرا بھی باپ تھا، وہ ایسے مکالمے بولتا اور پھر رونا شروع کر دیتا،سمجھ نہیں آتا تھا کہ کون ہے وہ؟ ایک دن اس کے پاس جانے کا ارادہ کر ہی لیا ، وہ ماڈل ٹاؤن میں رہتا تھا، میں اس کے دروازے پر کھڑا تھا، اندر سے آواز تو آ رہی تھی لیکن دروازہ نہیں کھول رہا تھا کوئی
گیلانی صاحب
Tuesday, 27 August 2013
دس روپے کا ادھار
بے نظیر بھٹو سے لڑائیاں،نظیر بھٹو سے محبتیں
اکتوبر کا مہینہ چل رہا تھا ،چیرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی سے بچانے کیلئے آخری حربے کے طور پر لاہور سمیت مختلف شہروں میں جیالوں نے خود سوزیاں شروع کر دی تھیں، بہت سارے لوگوں کی طرح میں بھی
لاہور سیکرٹریٹ کے اندر جنم لینے والی ایک کہانی
وڈیروں کی جاگیریں
خالقی سے دوستی ایک مشترکہ دوست کے حوالے سے ہوئی، وہ جب بھی لاہور آتا ، مجھے مل کر واپس جاتا، اس کے علاقے کا پٹواری اسکا جگری دوست تھا، خالقی کہیں جائے اور پٹواری ساتھ نہ ہو، یہ کبھی ہوتا نہیں تھا،پٹواری اس کی نجی زندگی اور دوسرے کرتوتوں میں بھی
خوابوں میں جینے والا
مولوی بشیر گوتم سے گستاخی
ایک مزدور کا جیل میں صحافی کو زناٹے دار تھپڑ
جیل میں ،،ملاحظہ
Saturday, 24 August 2013
جیل میں ایک لنچ
ایک بوسیدہ کمرہ
مودودی اور بھٹی
کرائے کا مکان
لوک فنکار عالم لوہار اپنی ڈھیر ساری ’’بیگمات‘‘ کے ہمراہ موڑ سمن آباد پر اپنی زیر تکمیل فلم ’’مٹی دا باوا‘‘ کے ڈائریکٹر زرتاش کے بوسیدہ سے گھر میں رہائش پذیر تھے ، زرتاش کے دماغ میں کوئی نہ کوئی آئیڈیا گھومتا رہتا تھا، وہ تھوڑی سی جمع پونجی کے ساتھ کوئی بڑا کارنامہ انجام دینا چاہتا تھا ، وہ بزعم خود دانشور تھا ، اگر اس زمانے میں آج کا الیکٹرانک میڈیا ہوتا تو
نانی غلام فاطمہ
علی بھائی
...... بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا تھا ایم اسماعیل فلم ایوارڈز کے اجراء کا،، فلم نگر کے تمام شعبوں کے بڑوں کی آشیرباد حاصل تھی، آواری ہوٹل جو ان دنوں ہلٹن تھا، اس کا سوئمنگ پول بغیر ایڈوانس کے بک کرا لیا گیا،مہمانوں کیلئے اچھی ریفرشمنٹ کا خیال رکھا گیا، میوزک بینڈ سے بات ہو گئی ، وینس کی بھاری مورتیاں
ایک کامیاب رائٹر کی عمر بھر کی کمائی (پارٹ2)
میں ہر کہانی ایک ہی نشست میں لکھتا ہوں، اتنے ہی وقت میں، جتنا آپ اسے پڑھنے میں صرف کرتے ہیں، بلا سوچ بچار لکھتا ہوں، کوئی یاد سوچ کا در کھولتی ہےتو لکھ دیتا ہوں، ہر کہانی کے آپ تک پہنچ جانے کے بعد یادوں کے بہت سارے اور دریچے کھلتے ہیں اور پھر سوچتا ہوں کہ
ایک فلم رائٹر کی عمر بھر کی کمائی
تھڑے باز دانشور
اے شاہ شکار پوری
Friday, 23 August 2013
سیف الملوک مجسٹریٹ درجہ اول
پیارے
وہ ملا تھاحیدر آباد جیل میں ، پیارے، رسول بخش پلیجو کی پارٹی کا کارکن تھا اور سیکڑوں سیاسی کارکنوں کی طرح ہمارے ساتھ پابند سلاسل تھا، ریاستی شدد نے اس کے حوصلوں کو مزید جلا بخش دی تھی،