Friday 30 August 2013

ایم اسماعیل

ہمارے آخری آفس کا نام تھا ، خاور پروڈکشنز،جو عین لکشمی چوک ایکسپریس ڈرائی کلینز کے ساتھ والی عمارے کے دوسرے اور تیسرے فلورز میں آباد تھا، ان دنوں ہاشمی صاحب ،،چشم بد دور،، کے نام سے فلم پروڈیوس اور ڈائریکٹ کر رہے تھے، اس کی کاسٹ میں شمیم آراء ، یوسف خان ، طالش اور ایم اسماعیل شامل تھے، یہ فلم ایور نیو اسٹوڈیوز میں بارہ آنے بن جانے کے بعد ڈبوں میں بند ہو گئی ، اس وقت شمیم آراء اور یوسف خان کی جوڑی

کو کوئی قبول کرنے کو تیار نہ تھا ، جبکہ چند سال بعد ہی یہ دونوں آرٹسٹ اپنی اپنی جگہ بہت مقبول ہو گئے تھے،بڑی رونق ہوا کرتی تھی ہمارے اس دفتر میں ، چند قدم آگے دیال سنگھ کالج تھا ، جہاں ابا جی بلئیرڈ کھیلنے جایا کرتے تھے ، اس کالج کے جن جن لڑکوں کو فلمیریا کی بیماری لاحق ہوتی وہ ہمارے آفس آ جایا کرتے ، حبیب صاحب اور اعجاز درانی بھی اسی کالج میں پڑھتے تھے اور ہاشمی صاحب کی سفارش سے ہی ان دونوں کو پہلا پہلا چانس ملا تھا، ہمارے آفس کی دوپہر بہت شاندار ہوتی، ایک ملک رحیم تھے جو شاید جاگتے ہی ہمارے دفتر میں آنے کے لئے تھے، ان کی آمد کا معمول ایسا تھا جیسے کوئی بر وقت ڈیوٹی پر جاتا ہو، اسٹیفن ،صفدر جنگ، ایم جے ٹھاکر ، لڈن، اور بہت سارے لوگ اس آفس میں ایک ساتھ لنچ کیا کرتے تھے کھانا عام طور پر گھر ، اور ان سب میں نمایاں ترین ہستی ہوتی بھاء جی ایم اسماعیل کی جو سب کے لئے قابل احترام تھے،اس وقت مجھے کیا معلوم کہ یہ وہ عظیم آرٹسٹ ہیں جو خاموش فلموں کے زمانے کے بھی سب سے بڑے ایکٹر تھے اور جب فلم نے بولنا شروع کیا اس وقت بھی وہ نمایاں ترین تھے، 1924 میں لاہور میں بننے والی پہلی خاموش فلم DAUGHTER,S OF TODAY ہو یا پہلی بولتی فلم ہیر رانجھا، 1941 کی خزانچی ہو یا قیام پاکستان کے بعد کی ،قسمت، ان تک کوئی دوسرا ایکٹر نہ پہنچ سکا، انہوں نے،، قصہ ہیر رانجھا ،،پر بننے والی تمام خاموش اور بولتی فلموں میں ،، کیدو،، کے کریکٹر کو دوام بخشا، فردوس اور اعجاز والی ہیر رانجھا کیونکہ گلیمر کے زمانے میں بنی ، اس لئے اس فلم کے کیدو اجمل خان زیادہ پاپولر ہوئے، اجمل خان خود بھی ایم اسماعیل کی فنی برتری کے معترف تھے،، ایم اسماعیل بھاٹی چوک سے لکشمی چوک اکیلے تانگے پر آیا کرتے تھے، اس زمانے میں لکشمی چوک میں گول چکر ہوا کرتا تھا ، ایک دکان گڈیوں ، پتنگوں کی بھی تھی ، ہمارے آفس کی چھت پر پتنگ بازی ہوتی تو ابا جی بھی اس میں شریک ہو تے ، لکشمی چوک کے کئی ہوٹلوں میں رات کو بیلے ڈانس ہوتے ، سب سے پاپولر ہوٹل ، کنگ سرکل تھا ، جہاں فلم انڈسٹری کے بہت سارے مقبول ایکٹرز ، ڈائریکٹرز اور سیف الدین سیف جیسے لکھاری بھی باقاعدگی سے بیٹھا کرتے تھے، اباجی ،اور بھاء جی ایم اسماعیل کے لئے ٹیبلز ریزرو ہوتی تھیں، حسن طارق ،رتن کمار، حامد گنجا،خیام، جگی، چنگیزی، اکمل مظہر شاہ، اور کئی ایسے نام اور تھے،جو ہوٹل یا اس کے دروازے سے ملحقہ مشتاق پان شاپ پر کھڑے نظر آتے تھے،22نومبر1975 کو ایم اسماعیل کا انتقال ہوا تو میں بھی اباجی کے ساتھ ان کے جنازے میں شریک ہوا تھا، ہاشمی صاحب سڑک پر بچھی ہوئی تعزیتی دری پر بیٹھے کہہ رہے تھے کہ، موت سے کس کو رستگاری ہے،، آج وہ کل ہماری باری ہے، ( پانچ ماہ بعد ہی ان کا بھی انتقال ہو گیا تھا) ہاشمی صا حب نے ایم اسماعیل کی وفات پر ایک تعزیتی کالم لکھا جو روزنامہ مشرق کے فلم ایڈیشن میں شائع ہوا ، اس کالم میں ہاشمی صاحب نے ایم اسماعیل کو برصغیر کا لان چینی قرار دیا ، میں تیس سال سے زیادہ عرصے تک لان چینی کی تلاش میں رہا کہ وہ کون تھا ؟، بالآخر میری تلاش رنگ لائی اور مجھے پتہ چل گیا کہ لان چینی ہالی وڈ کا بانی ایک ایسا ایکٹر تھا، جس کے ذکر کے بغیر امریکی فلم کی تاریخ کبھی مکمل نہیں ہو سکے گی، ابا جی کے انتقال کے سات ماہ بعد ایم اسماعیل صاحب کی پہلی برسی آئی تو میں نے لاہور کے سستے ترین پرنٹنگ پریس پتنگا سے دو روپے میں ہزار ہینڈ بل چھپوائے، خوشنود قریشی مرحوم کی مدد سے بلا معاوضہ ٹاؤن ہال بک کرایا، اور ایم اسماعیل کی برسی منانے کا اعلان کر دیا، مہمان خصوصی کے لئے اعتزاز احسن کے پاس اسمبلی میں ان کے آفس گیا وہ پہپلز پارٹی کی پنجاب حکومت کے وزیر اطلاعات تھے، اعتزاز نے معذرت کی کہ جس دن اور جس وقت ہماری تقریب ہے، وہی وقت بھٹو صاحب کے لاہور انے کا ہے، اور انہیں وزیراعظم بھٹو کو رسیو کرنا ہے، اعتزاز صاحب سے گرمی سردی بھی ہو گئی ، اسی دوران کسی نے بتایا کہ ایم اسماعیل فلم کے میدان میں آنے سے پہلے خطاطی اور مصوری کیا کرتے تھے اور احمد ندیم قاسمی کی پہلی تین کتابوں کے ٹائٹل انہوں نے ہی بنائے تھے، میں انارکلی بازار میں ماہنامہ فنون کے آفس پہنچا ، کمرے کے باہر خالد احمد اور قاسمی صاحب کے گروپ میں شامل اور کئی نوجوان ادیب، شاعر گفٹ پیکینگ میں مصروف تھے، سمجھ نہ سکا کہ کس کو بھجوائے جائیں گے یہ تحائف، اس سوال کا جواب مجھے خود قاسمی صاحب سےمل گیا، انہوں نے ایم اسماعیل کی برسی کی تقریب کی صدارت سے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ اس دن میرے اپنے اعزاز میں تقریب ہو رہی ہے، میں نے صدارت اور مہمان خصوصی والا صفحہ ہی پھاڑ دیا، تمام سینئیر ایکٹروں کو اس تقریب میں بلا لیا، جن میں اجمل خان، اے شاہ شکار پوری ، شیخ اقبال اور مظہر شاہ بھی شامل تھے ، برسی کے دن ٹاؤن ہال کھچا کھچ بھر گیا, میلے کا سماں تھا ، بڑے بڑے مقرر خود ہی پہنچ گئے، یہ ایک کامیاب تقریب تھی، اختتام پر جب لوگ واپس چلے گئے، ٹاؤن ہال کے ملازمین جو مہمانوں کو پانی پلانے اور خوش آمدید کہتے رہے تھے، مجھ سے انعام و اکرام کے طلبگار ہوئے، میری جیب خالی تھی، اگر اس وقت دس روپے بھی ہوتے تو بہت تھے، مجھے وہاں سے غائب ہونا پڑا، ایم اسماعیل صاحب کی ایک فون کال میری یادوں کے سرمایہ میں ہمیشہ نمایاں رہے گی ہوا کچھ یوں کہ 1971 میں ،میرا کراچی جانے کا پروگرام بن گیا، میں نے اس حوالے سے اباجی کو تفصیل سے بتایا تو وہ رضامند ہوگئے، مجھے اداکار کمال، ابراہیم جلیس اور حمید کاشمیری کے نام خطوط بھی دیے، ریلوے اسٹیشن پر خود الوداع کہنے ائے ، میرے کراچی پہنچنے کے چند ماہ بعد ہی پاک بھارت جنگ چھڑ گئی ، بھارت کا فوکس کراچی تھا، زیادہ بمباری بھی وہیں ہو رہی تھی، عام طور پر کرفیو رہتا ، جنگ کے دنوں میں اخبار خواتین کے آفس میں ولایت علی اصلاحی صاحب کے کمرے میں بیٹھا تھا، کہ فون کی گھنٹی بجی، اصلاحی صاحب نے رسیور اٹھایا اور پھر میری جانب کر دیا،، تمہارا فون ہے دوسری جانب ایم اسماعیل صاحب تھے جی سلام بھاء جی کاکا تو واپس لاہور آجا، تیرا ابا بڑا اداس اے میں نے کہا ، اچھا جی، اور اگلی صبح واپسی کی ٹرین پکڑ لی۔