Wednesday 28 August 2013

اسے بہت پہلے مر جانا چاہئیے تھا

اسے مرے سال سوا سال ہوگیاہے، مرنے سے چار پانچ برس پہلے مجھے اس کےفون آنا شروع ہوئے، اوئے مجھے مل لو، میں بیمار ہوں، تمہارا باپ میرا بھی باپ تھا، وہ ایسے مکالمے بولتا اور پھر رونا شروع کر دیتا،سمجھ نہیں آتا تھا کہ کون ہے وہ؟ ایک دن اس کے پاس جانے کا ارادہ کر ہی لیا ، وہ ماڈل ٹاؤن میں رہتا تھا، میں اس کے دروازے پر کھڑا تھا، اندر سے آواز تو آ رہی تھی لیکن دروازہ نہیں کھول رہا تھا کوئی، دس منٹ بعد دروازہ کھلا تو بیساکھیوں کے سہارے ایک فالج زدہ شخص سامنے تھا، میں نے اسے پہچاننے میں دیر نہ لگائی،پنتالیس برس پہلے وہ ڈائریکٹرمنور رشید کی فلم،، انجان،، میں ہاشمی صاحب کا بیٹا بناتھا، 1976میں جب ہاشمی صاحب کا انتقال ہوا تو اگلی صبح دو آدمی ہمارے گھر آئے زاہد خان کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے، کہہ رہے تھے، زاہد خان ایک دن پہلے ہاشمی صاحب کے جنازے میں شرکت کا کہہ کر گھر سے نکلا ،ابھی تک واپس گھر نہیں پہنچا،جبکہ زاہد خان جنازے میں شریک ہی نہیں ہوا تھا ، درجنوں اردو پنجابی فلموں کا یہ ہیرو یا سیکنڈ ہیرو کبھی پاپولر ایکٹرنہ بن سکا، اگر میں بتاؤں کہ اس کا نام تھا زاہد خان تو آپ کہیں گے کون زاہد خان؟وہ 1968 میں فلم نگر میں داخل ہوا، اس کی چند فلموں کے نام بھی یاد آرہےہیں مجھے،میری دوستی، میرا پیار(ہیروئن روزی) پنجابی فلم ،پیار دا ویری میں فردوس اس کی ہیروئن تھی، دیا اور طوفان،آنسو،، انہونی اور راجہ رانی. ماڈل ٹاؤن کی بڑی بڑی کوٹھیوں کے درمیان یہ تین چار مرلے کا مکان کچھ عجیب سا لگا، بجلی کٹی ہوئی تھی گھر کی ، چھوٹے سےصحن کے پیچھے تکون نما ایک بڑا کمرہ،روشن دان نے کمرے کو مکمل تاریکی سے بچایا ہوا تھا، شدید گرمی کا دن تھا، کمرے کے بائیں جانب ایک بی بی کرسی پر بیٹھی قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے مسلسل روئے جا رہی تھی، کمرے کے دائیں طرف زاہد خان کی چارہائی تھی اور ایک بوسیدہ ریک پر اس کی ادویات رکھی تھیں، میں نے بچوں کے بارے میں پوچھا تو جواب تھا،، چھوڑو انہیں، تلاوت کرتی ہوئی خاتون کا تعارف اس نے اشاروں سے کرایا، بیوی ہے، مگر بول چال نہیں، قرآن خوانی کرتے ہوئے مسلسل آنسو بہاتی اس خاتون نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا،باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ بجلی ایک عرصے سے کٹی ہوئی ہے، واجبات بہت زیادہ ہیں، زاہد خان میری خاطر مدارت کے لئے بیساکھیوں کے سہارے پھر کھڑا ہوا اور قریب ہی پڑے فرج کا دروازہ کھولا، میں نے سوچا کہ بجلی ہی نہیں تو فرج میں کیا رکھا ہوگا، مگر مجھے اس میں پڑے ہوئے دو کیلے نظر آ گئے جو سیاہ ہو چکے تھے، زاہد خان نے اپنی ادویات کا روزانہ خرچہ بتایا، دوستوں کے بارے میں باتیں کرتا رہا،اپنی اہلیہ کے امیر کبیر خاندان کا بتایا، اپنی ہیروئنز کے قصے سناتا رہا، کس کس ہیروئن کو فتح کیا، کس کس کو سرنگوں ، یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا کہ وہ موبائل پر کال کرکے رکشہ دروازے پر بلوا لیتا ہے اور اس میں بیٹھ کر پینے پلانے والے دوستوں کی محفل میں چلا جاتا ہے، اس نے مختار اعوان اور سردار مظہر علی خان کا ذکر شروع کیا تو مجھے یاد آ گیا کہ زاہدخان تو ایک امیر گھرانے کا فرد تھا، اب اس کی یہ حالت کیسے ہوگئی؟ پتہ چلا کہ ہم جس چھوٹے سے گھر میں بیٹھے ہیں اس سے ملحقہ بڑی کوٹھی کبھی اسی کی تھی جسے وہ بیچ کر پیسے اڑا چکا ہے۔، مجھے اس پر غصہ بھی آ رہا تھا اور ترس بھی،،، میں اس کی بکواس سنتا رہا ، مگر دھیان قرآن پڑھتی اور ہچکیاں لیتی اس کی بیوی کی جانب ہی رہا، واپس جاتے ہوئے اس کی اہلیہ کو کچھ پیسے دینا چاہا تو وہ رقم اس نے خود پکڑ لی، میں نے جاتے جاتے ہمت کر کے اس خاتون کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ،، باجی اللہ سب ٹھیک کر دے گا، میں آپ کے پاس آتا جاتا رہوں گا، اگلی اتوار کو میں نے اپنے دوست خالد مفتی کو ساتھ لیا ، اور ایک بڑے اسٹور کا رخ کیا، جہاں سے گھر کی ضرورت کی تمام اشیاء مل جائیں، ہم زاہد خان کے گھر جاتے ہوئے بھی کئی دکانوں پر رکے تاکہ کوئی چیز رہ نہ جائے، ماڈل ٹاؤن میں اس کے دروازے پر پہنچے، تو وہاں ایک موٹر سائیکل کھڑی تھی، دروازہ ایک صحت مند جوان لڑکے نے کھولا،، اس نے ہمیں گھر کے چھوٹے سے صحن میں بٹھایا جہاں ایک پرانی کرسی اور چارپائی پڑی تھی، زاہدخان بیساکھیوں کے سہارے کمرے سے باہر آکر کرسی پر بیٹھ گیا اور میں اور مفتی چارپائی پر،، پتہ چلا کہ دروازہ کھولنے والا زاہد خان کا بیٹا تھا جو کسی کمپنی میں سیلز مین تھا ، ایک پانچ چھ سال کی بچی بھی ہمارے پاس آ گئی جو زاہد خان کی پوتی تھی اور کسی اچھے اسکول میں پڑھ رہی تھی، زاہد خان کی بہو بھی آئی ہوئی تھی،اس کا بیٹا، میں اس کے بیٹے اور بہو کی موجودگی میں گاڑی سے سامان نکال کر لاتا ہوں تو کوئی گڑ بڑ نہ ہوجائے، اس کا بیٹا سوال نہ کر بیٹھے، زاہد خان کا بیٹابار بار پوچھ رہا تھا کہ آپ کی کیا خدمت کی جائے ،زاہد خان بلا وجہ اپنے بیٹے کو گالیاں نکال رہا تھا، میں نے منع کیا تو اس نے اشارے سے بتایا کہ وہ لاڈ کر رہا ہے۔۔ اس کا بیٹا ہمارے لئےمشروب لانے باہر مارکیٹ تک جانا چاہتا تھا میرے دماغ میں ایک ترکیب آئی،، یہاں کی ایک کباب شاپ بہت مشہور ہے کیا وہ قریب ہی ہے؟ زاہد خان کا بیٹا بولا،ہاں بالکل قریب، اسے میں نے کباب لانے باہر بھجوا دیا، اس کے نکلتے ہی مفتی کی مدد سے سامان گاڑی سے نکال کر چارپائی کے نیچے رکھنا شروع کر دیا، مجھے موبائل پر کوئی کال آئی تو میں نے زاہد کان سے جھوٹ بولا کہ آفس میں ایمر جنسی ہو گئی ہے،کباب اب خود کھا لینا،میں وہاں سے نکل گیا۔پھر کئی ہفتوں، کئی مہینوں بعد رات ایک بجے کے قریب اس کی کال آئی، وہ گڑ گڑا رہا تھا، اس کی ہچکی بندھی ہوئی تھی، میں دو دن سے بھوکا ہوں، سب چھوڑ گئے ہیں، میں اکیلا ہوں،مجھے کھانا بھجواؤ۔ ورنہ مر جاؤں گامجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ رات کے دو بجے کس طرح کھانا بھجواؤں اسے، مفتی خالد کو جگایا، اس کا گھر ریڈیو اسٹیشن کے قریب ہے، وہ رضامند ہوگیا اور کھانا لے کر زاہدخان کے گھر ماڈل ٹاؤن پہنچ گیا ۔۔پھر زاہد خان نے وطیرہ ہی بنا لیا، رات گئے کال کرکے کھانا اپنا بھوکا ہونے کی اطلاع کرنے کا، میرے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ ہر بار مفتی یا کسی اور کو ڈھونڈنا۔ زاہد خان کی آخری کال آئی، جب اس نے بتایا کہ اس کی بیوی انتقال کر گئی ہے، میں بہت دن اداس رہا، ایک معزز خاندان کی بیٹی کس کسمپرسی میں مر گئی، دو چار مہینے گزرے تو زاہد خان کے بیٹے کی کال آگئی، ابو بھی مر گئے ،میں نے سوچا، بہت پہلے مر گیا ہوتا تو اچھا تھا۔