Thursday 29 August 2013

منیر نیازی صاحب



زمانہ تھا نوعمری کا جب ہم لاہور کی گلیوں میں گھوما کرتے تھے،ہمارا ہیڈ کوارٹر تھا ریگل چوک ،دوپہر اور شام کے مخصوص گھنٹوں میں سارے یار دوست جمع ہوجاتے، ٹمپل روڈ کی جانب مڑنے والی سڑک کونے پر بک شاپ کے ساتھ سموسوں کی دکان تھی( جو ابھی تک اسی خستہ حالی اور اسی دیرینہ ویٹر کے ساتھ قائم دائم ہے)، یہاں سے ہمیں ادھار سموسے بھی مل جاتے
،ریگل چوک ہماری بےشمار یادوں کا امین ہے، وہاں گزرا ہوا ہر ہر دن ایک ایک کہانی ہے، اس زمانے میں جو لوگ اس چوک میں روزانہ ملا کرتےوہ سب تاریخی کردار ہیں ، ریگل چوک کا بس اسٹاپ بہت اہم تھا ، دکھاوے کا زمانہ نہیں تھا، بڑےنام اور بڑے قد کے لوگ بھی بس یا ویگن میں سفر کیا کرتے تھے، قتیل شفائی اور بہت ساری دیگر ہستیوں کے ساتھ منیر نیازی بھی اسی بس اسٹاپ سے گھر واپس لوٹتے،رات سات اور آٹھ بجے کے درمیان منیر نیازی پاک ٹی ہاؤس سے تیز قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے یہاں پہنچتے، میرے سلام کے جواب میں وہ روزانہ ایک ہی فقرہ دوہراتےِِ،،،کاکا، اپنے پیو نوں کویں چنگا ویلہ آون والا اے،، میں جواب میں ،، اچھا چاچا جی،، کہتا اور منیر نیازی کسی بس یا ویگن میں بیٹھ جاتے، کئی بار ان سے پی ٹی وی میں کسی پروڈیوسر کے ساتھ یا اسٹوڈیو فلور پر بھی ملاقات ہوجاتی، منیر نیازی بہت خوبصورت اور وجییہ تھے، گرمیوں کے موسم میں شلوار قمیض میں خوب جچتے ، میں ان دنوں آصف شاہکار کے پنجابی پروگرام ،،، نویں رت ،، کے لئے اسکرپٹ اور گیت لکھا کرتا تھا، اس پروگرام کی میزبان ستنام محمود تھیں، یہ خاتون تھوڑی سی ایجڈ ہونے کے باوجود مجھے مسرت نذیر کی طرح خوبصورت لگتی تھی، بے لگام وقت تیزی سے دوڑتا رہا، اچھا زمانہ آنے کی منیر نیازی کی پیش تو پوری نہ ہوئی، البتہ ہاشمی صاحب کی عمر کی نقدی ضرور ختم ہو۔ گئ اور یادیں ہی باقی رہ گئیں ہاشمی صاحب کی برسی کا سلسلہ شروع ہوا تومصطفی قریشی،رشید ساجد، کرنل سفیر، اعجاز وکی ۔غلام محی الدین، پرویز مہدی ،عالی شاہ، شمیم احمد خان،علامہ صدیق اظہر،طارق وحید بٹ،اجمل نیازی،مسعود باری، اسلم گورداسپوری ،ناصر بھنڈارہ، شیخ اقبال،حفیظ احمد،زاہد عکاسی، قتیل شفائی،غلام مصطفی آرٹسٹ، میجر رشید وڑائچ، عطاءاللہ شاہ ہاشمی، خورشید محمود قصوری اور حبیب صاحب کی طرح منیر نیازی نے بھی باقاعدگی سے آنا شروع کر دیا برسی کی یہ تقریب آہستہ آہستہ فیسٹئول کی شکل اختیار کر گئی ، کئی لوگ تو سال بعد آپس میں یہیں ملا کرتے (یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، بہت سارے لوگ پچھلے38سالوں کے دوران ایک ایک کرکے بچھڑتے رہےاور ان کی جگہ نئے لوگ لیتے رہے)برسی والے دن کھانے کے بعد نیازی صاحب اور بعض دوسرے احباب اچھرے والے گھر کی اوپری منزل پر بیٹھ جاتے اور یادیں دہرانے کا پیریڈ شروع ہو جاتا، منیر نیازی سے کلام سنانے کی فرمائش ہوتی تو وہ چند شعر سنا کر احمد ندیم قاسمی اور ان کے چیلوں کے خلاف تقریر شروع کر دیتے، یا سندر بن میں نظر آنے والی اس لڑکی کو یاد کرتے جو ہمیشہ کے لئے ان کے اعصاب پر سوار ہوگئی تھی ، وہ لڑکی جس کی آنکھیں جھیل سے زیادہ گہری تھیں، منیر نیازی خود پر حیرت طاری کرکے ٹھڈا سانس لیتے اور پھر کہتے ،،کیا آنکھیں تھیں وہ،،، ،اگر کوئی بیچ میں بول پڑتا تو منیر نیازی صاحب سخت برہم ہوتے، موت سے پہلے آخری بار جب منیر نیازی برسی کی تقریب میں شریک ہوئے تو علامہ صدیق اظہر نے دانستہ انہیں ناراض کیا، وہ کوئی بھی بات کرتے تو علامہ ٹوک دیتا، ،، خاں صاحب ایسے نہیں ایسےِِ ہوا تھا،،، بالآخر نیازی صاحب ناراضی کے عالم میں میرے گھر کی سیڑھیاں اتر گئے ، دروازے سے باہر نکلے تو یاور حیات کو آتے دیکھ لیا، نیازی صاحب نے یاور صاحب سے پوچھا،، خاور کے گھر جا رہے ہو؟ ،، جی،، منیر نیازی نے مشورہ دیا،نہ جاؤ تو اچھا ہے، وہاں خاور نے بہت سارے بد تمیز بٹھا رکھے ہیں ۔منیر نیازی صاحب میرے بیٹے کی پہلی سالگرہ میں شریک ہوئے تو ٹرپل ایس سسٹرز کے بھائی خلیل احمد نے پہلی بار ان کی اجازت سے کسی محفل میں اپنی اواز کا جادو دکھایا ، اس کے چند مہینوں بعد اس کی غزل بہت پاپولر ہوئی،، کپڑے بدل کے جاؤں کہاں،،نیازی صاحب نے خلیل کو داد اس کی ایک ایس(سسٹر) کو گلے لگا کر دی۔۔۔ 
میں نے 2004میں نیازی صاحب کی شاعری اور شخصیت پر ڈاکو منٹری بنانے کی ٹھانی تو انہوں نے اس شرط پر حامی بھری کہ میں انہیں پیسے دوں گا، وہ پیسے لئے بغیر کسی مہ لقا کے ساتھ ڈیٹ پر بھی نہیں جاتے تھے، اس ڈاکومنٹری کی تیاری کے دوران ایک دن امجد اسلام امجد کے تاثرات لینے گیا تو اس نے (گالی دے کر) کہا ،، اگر وہ (منیر نیازی)تھوڑا پڑھا لکھا ، ہوتا تو بہت بڑا شاعر ، امجد اسلام امجد کے پاس منیر نیازی کے لئے تاثرات لینے جانا میری غلطی تھی، جس کا احساس مجھے ڈاکٹر انور سجاد نے دلایا۔ ڈاکٹر اجمل نیازی نے فیض پر میری رپورٹ کو اپنے کالم میں سراہا تو ضرور، لیکن یہ بھی لکھا کہ غالب اور اقبال کے بعد اردو زبان کا تیسرا بڑا شاعر فیض نہیں منیر ہے۔ ایک دن میں فریدہ خانم کے گھر گیا اور ان سے فرمائش کی کہ وہ منیر نیازی کی کوئی غزل گنگنائیں۔۔۔ فریدہ خانم نے غزل شروع کی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ ایک مصرعہ غلط بول رہی ہیں، میں نے فورآ نیازی صاحب کو فون کر دیا، نیازی صاحب ، فریدہ خانم آپ کی غزل سنا رہی ہیں ،میرے خیال میں وہ کوئی لفظ غلط کہہ رہی ہیں، نیازی صاحب نے جواب دیا کہ میری اس سے بات کرادو، میں اسے سمجھا تو دوں گا، مگر یاد رکھنا وہ تصیح نہیں کرے گی،، پھر ایسا ہی ہوا نیازی صاحب کےسمجھانے کے باوجودخانم نے درسگی نہ کی۔۔ ۔ترقی پسند ادیبوں اورشاعروں نے ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی حکومت بننے کے بعد ان سے ملاقات کاپروگرام بنایا تو منیر نیازی نے یہ کہہ کر ساتھ جانے سے انکار کیا کہ ،، وہسکی پینے کے لئے شاعر کو بادشاہ کے دربار میں نہیں جانا چاہئیے،، میرے خیال میں یہ فلاسفی منیر نیازی کے دماغ کی عارضی کیفیت ہو سکتی ہے، کیونکہ اس حوالے سے وہ ہرگز ہر گز حبیب جالب نہیں تھے،منیر نیازی میدان شاعری کے چی گویرا تھے، انہوں نے خود تو گروپ بازی نہ کی، لیکن احمد ندیم قاسمی کی وفات تک ان کے گروپ سے آڈا لگائے رکھا، وہ مخالفین اور نا پسندیدہ لوگوں کی ان کے سامنے توہین کر دیا کرتے ۔۔ڈاکٹروں نے ان کے پینے پر پابندی لگائی تو میرے لئے وہ اسی دن مر گئے تھے منیر نیازی ڈاکٹر کے ہتھے نہ چڑھتے تو شاید کچھ دن اور جی لیتے۔۔ ان کی یہ نظم ان کی شناخت تو بنی۔۔ کج شہر دے لوک وی ظالم سن کج سانوں مرن دا شوق وی سی لیکن سچ یہ ہے کہ منیر کو مرنے کا کوئی شوق نہ تھا ۔