Friday 30 August 2013

ظہیر کاشمیری صاحب

دنیا اس بات پر متفق ہے کہ غالب اردو شاعری کے نمبر ون شاعر ہیں، دوسرا نمبر علامہ اقبال کو دیا جاتا ہے اور تیسرا فیض صاحب کو۔ دوسرا تیسرا تو بعد کی بات ہے، میں پہلے نمبر سے ہی متفق نہیں، میرا خیال یہ ہے کہ، مرزا اسد اللہ غالب کے زمانے میں اگر ظہیر کاشمیری ہوتے تو غالب شراب پیتے، آم کھاتے اور کوٹھوں پر ظہیر کاشمیری کی غزلیں سننے تو جاتے، مگر شاعری نہ کرتے اور اگر شاعری کرنے کی جسارت کر بھی لیتے تو ظہیر کاشمیری کی پنجابی اور انگریزی میں ننگی اور گندی گالیاں سن سن کر دلی ضرور چھوڑ جاتے۔ بہادر شاہ ظفر کو در بدر کرنے کے لئے انگریزوں کو تگ و دو نہ کرنا پڑتی، باباجی اکیلے ہی کافی ہوتے۔پہلے بابا جی کے چند اشعار اور پھر باقی باتیں۔۔۔ 


لوح مزار دیکھ کے میں دنگ رہ گیا 
ہر ایک سر کے ساتھ فقظ سنگ رہ گیا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخو شب 
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ربط اتنا نہ بڑھا سایہ دیوار کے ساتھ 
ابھی کچھ اور کڑی دھوپ میں چلنا ہوگا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ہمارے عزم مسلسل کی تاب و تب دیکھو 
یہ حکم ہے کہ محبت کی آرزو نہ کرو 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
موسم بدلا رت گدرائی ، اہل جنوں بے باک ہوئے 
فصل بہار کے آتے آتے، کتنے گریباں چاک ہوئے 

امرتسر سے نقل مکانی کرکے لاہور میں بس جانے والے باباجی(ظہیر کاشمیری) بیڈن روڈ کی ایک گلی میں اپنے خاندان سمیت رہا کرتے تھے، نیلی اور ڈھیلی پتلون، لال قمیض، خاکی سویٹر، کالی ٹائی، سبز رنگ کا کوٹ، عجیب و غریب کمبی نیشن ہوتا ان کے لباس کا، ستر اسی سال کی عمر تک تین یا چار بار جوتے خریدے ہونگے وہ بھی لنڈے سے، پتلون میں اگر کبھی بیلٹ نہ ہوتی تو آپ ناڑا ضرور دیکھ سکتے تھے، رنگ برنگے بابا جی نے تین فلمیں بھی بنائی تھیں ، ایک فلم تو سینیما اسکرین کی زینت بھی بنی تھی، نام تھا،،تین پھول،، نئیر سلطانہ، اسلم پرویز اور علاؤالدین نے مرکزی کردار ادا کئے تھے، وہ فلم کے رائٹر، ڈائریکٹر اور شاعر خود ہوتے تھے، بس ایک فنانسر ڈھونڈنا پڑتا تھا انہیں ، لوگ ان کا بہت احترام اور لحاظ کرتے تھے، اس لئے فنانسر آسانی سے دستیاب ہوجاتا ہوگا، ایک فلم میں انہوں نے سنتوش کمار کو ہیرو لے لیا، فلم کی شوٹنگ ہو رہی تھی، سنتوش نے اپنی ہیروئن سے سامنے یہ مکالمہ بولنا تھا۔۔۔۔ 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔جان جاں تم اتنی رقیق القلب کیوں ہوئی جاتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

سنتوش صاحب سے یہ مکالمہ بولا نہیں جا ریا تھا، وہ بار بار رقیق القلب پر اٹک جاتے تھے، بابا جی چاہتے تو رقیق القلب کو آسان کرکے سخت دل یا کچھ اور کر سکتے تھے، مگر کون تھا جو بابا جی سے یہ مشکل مکالمہ تبدیل کرا لیتا، ٹیک پہ ٹیک ہوتی رہی، بالآخر سنتوش کمار پھٹ پڑے، او بابا، (پنجابی میں گالی) توں مینوں لقوہ کرانا ایں،، 

میں نے بابا جی کو جب پہلی بار دیکھا اس وقت میں آٹھ نو سال کا تھا، میں اپنے آفس کے ایک ملازم کے ساتھ بیڈن روڈ سے گزر رہاتھا , اچانک میری نظر ایک سرخ و سپید فرنچ کٹ ڈاڑھی والے شخص پر پڑی، جو فل انگریز دکھائی دے رہا تھا، مگر اس کا لباس اور ٹوپ تھا بہت بوسیدہ، اس زمانے میں بیڈن روڈ کمرشل نہیں رہائشی علاقہ تھا، اور جگہوں کی طرح یہاں بھی سامان ضرورت کی چھوٹی چھوٹی دکانیں ہواکرتی تھیں ، بعد میں پتہ چلا کہ یہ ظہیر کاشمیری صاحب ہیں اور ان کا روزانہ کا معمول ہے کہ ہر دکان پر جا کر کھڑے ہوتے ہیں، سر سے ٹوپ اتار کے دکاندار کے سامنے کورنش بجا لاتے ہیں، ہر دکاندار ٹوپ میں چونی ڈالتاہے جب مخصوص رقم پوری ہو جاتی ہے تو ریگل چوک کے قریب وائن شاپ پر پہنچ جاتے ہیں، یہ میرا پہلا تعارف تھا جسے ہم خوش گوار نہیں کہہ سکتے۔ بیڈن روڈ اس زمانے میں دانش وروں اور بد معاشوں سے مالا مال ایریا تھا ، اس زمانے میں اگر کوئی بدمعاش شریفوں کے محلے میں رہتا تو یہ اس محلے کا اعزاز ہوتا تھا، کیونکہ بدمعاش شریفوں سے زیادہ شریف ہوا کرتے تھے، اس کی بیک سائیڈ پر وکٹوریہ پارک تھا، جہاں ان دنوں صبیحہ رہا کرتی تھیں، نامور بد معاش یاسین بمبے والا بیڈن روڈ کے وسط میں رہتے تھے، منیر نیازی کا ٹھکانہ رضیہ بلڈنگ میں تھا، اسی عمارت میں سردار پروڈکشنز کے نام سے ہمارا آفس بھی تھا، بھارت میں کا کر بہت شہرت پانے والے موسیقار خیام، سلیم رضا، جی اے چشتی، مشیر کاظمی، اور سیف الدین سیف بھی قریب قریب ہی رہائش پذیر تھے، سب اوٹ پٹانگ کے باوجود لوگ بابا ظہیر کاشمیری کا بہت احترام کرتے تھے، ان کا رعب دبدبہ بھی تھا، اس وقت لاہور تانگوں کا شہر تھا، اور یہ شہریوں کی واحد باعزت سواری تھی، مگر کوئی تانگے والا بابا جی کو نہیں بٹھاتا تھا، بلکہ وہ تو بابا جی کو دیکھ کر بھاگ جایا کرتے تھے، وجہ یہ تھی کہ باباجی صبح سویرے تانگہ لیتے سارا دن شہر کی سیر کرتے اور شام کو تانگہ بیڈن روڈ پر کھڑا کرکے اپنے گھر چلے جاتے، تانگے والا گھنٹوں انتظار کرتا رہتا اور پھر اسے پتہ چلتا کہ بابا جی تو گھر آتے ہی سو گئے تھے۔ 

ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو بابا جی کو ان کے اخبار مساوات میں ملازمت مل گئی، اور یہ ملازمت جس طرح باباجی نے کی ، کبھی کسی اور ادیب یا شاعر نے نہ کی ہوگی، انہیں ادارتی صفحے کا انچارج بنایا گیا تھا، وہ صبح آفس آنے والے سب سے پہلے ملازم ہوا کرتے تھے، اداریہ اور کالم لکھنا اور پھر کاپی تیار کرکے پریس بھجوانا ان کی ذمے داری تھی، شام کو تھوڑی سی پینے اور تھوڑی سی تاش کھیلنے وہ پریس کلب چلے جایا کرتے تھے، بابا جی نے اپنی بہت سی عادتوں پر قابو پالیا تھا، سوائے گالیاں نکالنے کے، ادارتی صفحے والوں کے پاس الگ کمرہ تھا، بابا جی کے ساتھ بہت سے لوگوں نے کام کیا، مجھے صرف احمد بشیر، ایم طفیل، چاچا رفیق اور عبدالقدیر رشک کے نام یاد ہیں، ایک بار تو باباجی کے ساتھ انہی کی عمر کے ایک دانشور کو بٹھا دیا گیا جو باباجی سے زیادہ بھاری گالیاں نکالتا تھا، وہ آتے ہی آواز لگاتا، اوئے بابا، توں وڈا ہوکے۔۔۔۔۔۔۔ بنیں گا۔ 

جب میں نیوز روم میں صبح کی ڈیوٹی کیا کرتا تھا، بابا جی کو مساوات لاہور کا ایڈیٹر بنا دیا گیا، ایک دن مجھے ان کی طرف سے ایک شوکاز ملا، جو آج بھی میرے پاس موجود ہے، ہوا کچھ یوں کہ فیصل آباد کی ایک ٹیکسٹائل ملز میں مزدوروں کا احتجاج چل رہا تھا، وہ اپنی مانگیں منوانے کے لئے ہڑتال پر تھے، میں نے ان کے حق میں خبر چھاپ دی، میرے علم میں نہ تھا کہ اس ملز کی مالک پاکستان پیپلز پارٹی کی ایم این اے ہیں۔ پارٹی یا اس ملز آنر کی جانب سے شکایت آئی تو باباجی نے اپنے دستخطوں سے مجھے نوٹس جھجوا دیا( بابا جی کے اعزازات میں ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ وہ ایک ترقی پسند مزدور لیڈر بھی رہ چکے تھے، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کتنی شدت سے اپنی ادارتی ذمے داریاں نبھا رہے تھے، میں نے غلط نہیں کہا کہ وہ مرزا اسد اللہ غالب سے بہت آگے تھے، 

ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو ایس جی ایم بدر الدین کے ساتھ بابا جی کو بھی گرفتار کرکےملٹری کورٹ سے سزا سنائی گئی، جس رات مجھے کوڑے مارے گئے، وہ پوری رات بدر الدین صاحب اور باباجی نے میری بے ہوشی کے دوران میرے پاس جاگ کر گزاری تھی، مساوات کی حتمی بندش کے بعد میری بابا جی سے ملاقات پریس کلب میں ہی ہوتی رہی ، انہیں ان کے انتقال کے ایک سال بعد 1995 میں صدارتی ایوارڈ ملا تھا، بابا جی کے دو مشہور ترین واقعات وہ ہیں جو بوجوء لکھے نہیں جا سکتے، جو ان واقعات سے واقف ہیں ان کے اشارے کے لئے اتنا ہی کافی ہے 

۔۔۔میں تو تمہارے خدا کو نہیں مانتا اور تم کہتے ہو کہ۔۔۔ 


۔۔۔۔۔آسمانوں سے اترتی ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ۔۔۔