Saturday 31 August 2013

طارق وحید بٹ

کبھی کبھی لگتا ہے کہ وہ سیاسی ورکر ہی نہیں بلا کا کامیڈین بھی تھا، ایک ایسا کامیڈین جو طنز و مزاح اور جگت بازی میں الہامی باتیں بھی کر جاتا ،اس کے مذاق میں سیاسی شعور پنہاں ہوتا،اس نے اپنے گھر کے در و دیوار پر داتا صاحب کے اقوال آویزاں کر رکھے تھے، درود و سلام کی محفلیں بھی سجاتا اور دوستوں کے لئے ان کی مرضی کےدستر خوان بھی بچھاتا ۔ طارق وحید بٹ سے میری ملاقاتیں 1977 میں اس وقت شروع
ہوئیں، جب چیرمین ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفی چل رہی تھی، مولویوں کی اس تحریک کو بائیں بازو کے ان کئی سیاستدانون اور دانشوروں کی حمایت بھی حاصل تھی جو کبھی نماز پڑھتے تھے نہ حلوہ کھاتے تھے، ایک وقت وہ بھی آیا کہ طارق وحید بٹ نے بھٹو مخالف قوتوں کو کچھ اس طرح للکارا کہ لاہور کی مسجد شہدا کے باہر موجود ہزاروں افراد کا مشتعل مجمع جس میں مسلح لوگ بھی تھے اس کے گھر (مصری شاہ) کی جانب چل پڑا ، طارق ان دنوں بھٹو صاحب کا چیف گارڈ تھا،وہ مسلح جلوس کے اپنے گھر کی جانب آنے پر ڈرا نہیں تھا۔ کہیں چھپا بھی نہیں تھا۔ غلام مصطفی کھر اور غلام مصطفی جتوئی سے بھی اس کی دوستی رہی، جتوئی نے پیپلز پارٹی سے بغاوت کرکے اپنی پیپلز پارٹی بنالی تو وہ پنجاب میں اس کا کرتا دھرتا بن گیا، وہ عقلمندوں سے خار کھاتا تھا ، یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے پسندیدہ دانشور ڈاکٹر مبشر کی بجائے جہانگیر بدر کو ناشتے پر مدعو کرنا زیادہ مناسب تصور کرتا،وہ کسی بھی ایسے دوست کی دعوت نہ کرتا جو اس کی لمبی چوڑی گفتگو میں ٹانگ اڑائے،طرح طرح کے کشمیری کھانے روایتی قدیمی برتنوں میں پیش کئے جاتے، وہ جب میرے گھر آتا جتنا مرضی زور لگا لیں کھانے پر رضامند نہ ہوتا ، مجھے وجہ معلوم ہوئی پندرہ بیس سال بعد،ایک شام ہم دونوں مزنگ چونگی کے قریب تھے کہ اس نے پوچھا، مچھلی کھائی جائے؟ میرے ہاں کہنے پر اس نے گاڑی روکی ، اور ہم سڑک کنارے لگی کرسیوں پر بیٹھ گئے، اس نے پانچ کلو مچھلی کا آرڈر دیا تو میں حیران تو ہوا لیکن بولا نہیں، مچھلی آئی میں نے پاؤ بھر کا اپک ٹکڑا پلیٹ میں ڈال لیا ، کھانے کے دوران بات چیت بھی ہوتی رہی، حیرت اس وقت ہوئی جب طارق وحید بٹ نے دو کلو مچھلی اور منگوالی۔ میں نے اپنی پلیٹ کو غور سے دیکھا، آدھ پاؤ مچھلی ابھی باقی پڑی تھی۔ کئی مجمعے باز بھی طارق وحید بٹ کے ارد گرد رہتے، ایک دوست امان اللہ بٹ تو ایسا تھا جو ایک ہی لمحے میں سیکڑوں لوگوں کو ہپناٹائز کر لیتا ، ایک بار میں بھی اس کے،جادو ،کا شکار ہو ا، منٹگمری روڈ پر مساوات کے آفس کے قریب اچانک میں زمین پر لیٹ گیا، پھر دیکھا کہ اس روڈ پر دائیں بائیں تمام راہ گیر زمین پر لیٹے ہوئے ہیں، تھوڑی دیر بعد سب کھڑے ہو کر اپنے اپنے کپڑے جھاڑنے لگے، سوائے میرے کسی کو علم نہ تھا کہ ہوا کیا تھا؟ طارق وحید بٹ کا یہ دوست چند ہفتے پہلےآزاد بٹ کے گھر مجھے ملا بھی، لیکن اس کے فن پر کوئی بات نہ ہوسکی، لیکن وہ آج بھی ہپناٹزم جانتا ہے۔ سواچھ فٹ کے طارق وحید بٹ کو اوائل عمری میں فلم ایکٹر بننے کا شوق بھی چرایا تھا، وہ مصری شاہ سے پیدل ملتان روڈ کے اسٹوڈیوز میں جایا کرتے تھے، کئی فلموں میں ثانوی رول ادا کئے ، کوئی بڑا رول ملا نہ ہیرو بننے کا چانس، ٹھیکیداری میں مال کمایا تو سب سے پہلے فلم پروڈکشن میں سرمایہ کاری کی طارق وحید بٹ کے بارے میں اگر جاننا ہوتا کہ وہ کس دوست کو کتنی اہمیت دیتا ہے تو اس کا طریقہ و پیمانہ بڑا آسان تھا،، وہ جس کو جتنی زیادہ گالیاں دے، سمجھ جائیں کہ اس سے زیادہ پیار کرتا ہے، وہ دوستوں کے بغیر جی نہیں سکتا تھا، ایک بار شکاگو گیا تو جاوید اور افتی سے دوستی کر آیا، جاوید ( منی بیگم کا دوسرا شوہر ) ایک بار مشکل میں پھنس گیا تو طارق وحید بٹ اس وقت تک نہ سویا جب تک کہ جاوید اس مشکل سے نکل نہ آیا، دوست اس کے تھوڑے تھے لیکن تھے بہت پکے، ایسے دوست جو ایک دوسرے سے اپنا کچھ نہ چھپائیں، خوشی ہو یا غم ساتھ ساتھ کھڑے نظر آئیں۔ موت سے پہلے جب وہ آخری بار امریکہ گیا تو ایک رات اس نے مجھے فون کیا،، وہ بہت رویا تھا، وہ بے تحاشہ رویا تھا، ہچکیاں لے لے کے رویا تھا، اس کے فون کے دوران رو تو میں بھی رہا تھا، مگر اس کو سنائے بغیر، اسے بتائے بغیر، وہ واپس آیا تو مجھ میں اس سے پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اتنا کیوں رویا تھا۔۔میں اس کا کچھ لگتا تھا تبھی تو اپنے انجانے دکھ میں شریک کیا۔ جنرل مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے دنوں میں ایک عید پر وہ کسی کی عیادت کرنے مجھے سروسز اسپتال لے گیا، عیادت سے فارغ ہو کر ہم اسپتال سے باہر نکلنے والے ہی تھے کہ اس نے کہا منظور وٹو جو کرپشن کے الزام میں گرفتار ہے، بیماری کےبہانے اسی اسپتال میں داخل ہے، چلو اس سے بھی مل لیتے ہیں، میں نے کہا ،،مجھے گندے لوگوں سے ملنا اچھا نہیں لگتا، وہ زبردستی اسپتال کے دوسرے فلور پر لے گیا، منظور وٹو کے روم کے باہر دو تین پولیس والے بلا وجہ بیٹھے تھے، ہم دونوں کمرے میں داخل ہوئے تو وہاں پہلے سےخالد کھرل اور منیر احمد خان موجود تھے، طارق وحید بٹ ان دونوں کو دیکھتے ہی اونچی آواز میں گالی دیتے ہوئے بولا، لو جی، انٹیلی جنس کے دو ایجنٹ یہاں براجماں ہیں، چند سیکنڈ بعد ہی وہ دونوں کرسیاں خالی کرکے باہر نکل گئے، طارق وحید بٹ نے اچانک پینترا بدلا اور منظور وٹو کو انٹیلی جنس اداروں کی من گھڑت رپورٹیں سنانا شروع کر دیں، اس نے منظور وٹو کو انتہائی سنجیدگی سے بتایا کہ تمام ایجنسیوں نے نہ صرف آپ کو کرپشن کے کیسز میں بری کر دیا ہے ، بلکہ رپورٹس میں آپ کی ایمانداری اور حب الوطنی کو سراہا بھی گیا ہے، منظور وٹو کا چہرہ دمکنا ، چمکنا شروع ہو گیا. طارق وحید بٹ نے یہ انکشاف بھی کر دیا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے انہیں رہا کرکے پنجاب کا وزیر اعلی بنانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے، اور یہ سب کچھ ہفتوں یا دنوں میں ہونے والا ہے،، طارق وحید بٹ نے منظور وٹو کو اور بھی کئی کہانیاں سنائیں، اس کے بعد وہ اٹھ گیا، منظور وٹو دوبارہ ملاقات کی یقین دہانیاں لیتے لیتے ہمیں لفٹ تک الودوع کہنے آئے ،طارق چوحید بٹ اپنی اداکاری پر بہت ہنسا، اس نے مجھے گھر ڈراپ کیا اور خود کہیں اور گل کھلانے چلا گیا، اس ملاقات کو ایک ہی دن گزرا تھا کہ منظور وٹو کے فون آنا شروع ہوگئے،، سوال ایک ہی ہوتا، آپ لوگ کب اسپتال کا چکر لگائیں گے؟ میں نے طارق وحید بٹ کو کال کی، تم نے مجھے کس مصیبت میں پھنسا دیا ہ؟ جواب میں اس نے زوردار قہقہہ لگایا اور کہا، میں اٹھتےاٹھتے اسے تمہارا نمبر دے آیا تھا۔ آج 11مئی کو 2013 کے انتخابی نتائج دیکھتے دیکھتے مجھے طارق وحید بٹ بہت یاد آیا، شاید اسے پتہ تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ایک دن منظور وٹو کی پارٹی بن جائے گی۔