Thursday 29 August 2013

احمد فراز سے ہاتھ


نعیم ہاشمی صاحب کی پہلی برسی کی تقریب ہم نے ہلٹن (آواری) میں خدیجہ مستور کی زیر صدارت منعقد کی تھی، دوسری برسی کے لئے اہتمام کیا گیا انٹر کانٹی نینٹل (PC) میں، خرچے کے ذمےدار تھے کوکا کولا انٹر نیشنل کے کنٹری مینجر زمان خان صاحب، دوسری تقریب کی صدارت کون کرےگا؟ یہ بات مسلہ بنی ہوئی تھی، نعیم ہاشمی میموریل کونسل کے صدر پروفیسر اعجاز الحسن سمیت سب کا فیصلہ تھا کہ ہماری کسی تقریب میں کسی سرکاری یا حکومتی شخصیت کو مدعو نہیں کیا جائے گا، میرے دماغ میں احمد فراز کا نام گونجا تو سب نے اس پر اتفاق کر لیا، میں نے کشور ناہید صاحبہ سے بات کی تو اگلے دن انہوں نے بتایا کہ فراز صاحب تو آجائیں گے ، لیکن اسلام آباد سے لاہور کا دوطرفہ ٹکٹ آپ کو دینا پڑے گا، میں نے ہاں کردی ۔ ہوائی جہاز کا ٹکٹ کیسے لیا جائے، اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہ تھا، ہمارے تنظیمی ساتھی نثار عباس نے بالآخر ہم سب کے مشترکہ چاچا حفیظ کو یکطرفہ ٹکٹ دینے پر آمادہ کر لیا کہ احمد فراز صاحب کو اسلام آباد واپس کیسے بھجوانا ہے؟ سب نے کہا کہ تقریب کے بعد دیکھ لیا جائے گا 27 اپریل کو تقریب کے انعقاد کا دن آ گیا، بابرہ شریف، فاخرہ شریف، محمد علی، زیبا، نجمہ ،نشو، آسیہ، انجمن، حسن عسکری، اسلم ڈار، مہناز، اے حمید، مہدی حسن، سنتوش کمار کے چھوٹے بھائی منصور، قتیل شفائی، منیر نیازی، امروزیہ، پرویز صالح، نینا،اعجاز الحسن، غلام محی الدین،حسن رضا خان ،اے نئیر، غلام عباس، مسرور انور، کلیم عثمانی، الیاس کاشمیری، سید عطاءاللہ شاہ ہاشمی،نصرت ٹھاکر، یاور حیات، شیخ اقبال ، اجمل خان اور مصطفی قریشی سمیت تمام مہمان پہنچ چکے تھے ، یہ مہمان ایکٹرسوں کے عروج شباب کے دن تھے، سب پریوں کے دیس سے آئی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں، اچانک کرکٹر ظہیر عباس نے ہال میں آ کر REQUEST کی کہ کرکٹ ٹیم اسی ہوٹل میں ٹھہری ہوئی ہے اور وہ سب تقریب میں شامل ہونا چاہتے ہیں، کرکٹ ٹیم کے لئے علحدہ کرسیاں لگوا دی گئیں اور پھر جناب احمد فراز کی صدارت میں یہ تقریب شروع ہو گئی، تقریب میں کوئی ایک بھی غیر ضروری آدمی موجود نہ تھا، میڈیا نے اس تقریب کو اپنی نوعیت کی پہلی منفرد تقریب قرار دیا،اگلا دن تو تقریب کی کامیابی کے نشے میں گزر گیا، لیکن تیسرا دن بہت مشکل دن بن گیا، کشور ناہید احمد فراز کا واپسی ٹکٹ مانگ رہی تھیں اور ہم میں سے کوئی اس کا بندوبست کرنے کے قابل نہ تھا، ہم سب سوچ رہے تھے کہ بڑے نام والا شاعر ہے، کسی طور واپس چلا ہی جائے گا، احمد فراز ٹکٹ کی آس میں چار دن لاہور میں ڈیرے ڈالے بیٹھے رہے اور پھر خود ہی کوئی انتظام کرکے واپس لوٹ گئے۔