Tuesday 27 August 2013

خوابوں میں جینے والا

وہ روزنامہ جنگ لاہور میں میرے ساتھ کام کرتا تھا ، قلم میں روانی تھی، ترقی پسندانہ رحجانات تھے ، شاعری کرتا تھا، کئی ادبی، فلمی اور ثقافتی جرائد کا ایڈیٹر رہا، ادب کی دنیا میں اس کے دوستوں کا وسیع حلقہ تھا ، اپنے دوستوں کےحلقے میں وہ ہر دلعزیز بھی تھا، ادیبوں شاعروں سے ہی نہیں اس کا میل ملاپ فلم نگر کے لوگوں سے بھی تھا،ایک رات
میں مصطفی قریشی صاحب کے گھر گیا تو وہ پہلے سے موجود تھا اور قریشی صاحب کے صاحبزادے عامر کو شاعری سکھا رہا تھا،مجھے جب بھی ملتا بانہیں کھول کر ملتا،قتیل شفائی اور سعید شاہد بٹ مرحوم بھی اس سے بہت پیار کرتے تھے، ایک بار اس نے اپنے گھر میں فیملی ڈنر رکھا،اس کی بیوی نے بہت سارے لذیذ پکوان اپنے ہاتھوں سے تیار کئے، جب سب لوگ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئے اور کھانا شروع ہو گیا تو اس نے اپنی بیوی سے بار بار کہنا شروع کر دیا ،،دیکھو کسی کی پلیٹ خالی تو نہیں؟سب بے تکلفی سے کھا رہے ہیں یا نہیں؟ بیوی نے دو چار بار تو بات سنی ان سنی کر دی مگر جب وہ مہمانوں کا دھیان رکھنے پر اصرار کرتا رہا تو اس نے جواب دے ہی دیا، ،دیکھو، مجھے کھانا بنانا تو آتا ہے، کسی کو زبردستی کھلانا نہیں آتا،
۔۔جی بات ہو رہی ہے افضال شاہد کی۔۔
اس ڈنر پر فضال شاہد نے اپنی بیگم منزہ کا مہمانوں سے تعارف کراتے ہوئے اس بات پر بہت زور دیا کہ اس کی اہلیہ ایرانی نژاد ہے، منزہ بھابی واقعی پاکستانی نہیں لگتی تھی، اس کا چہرہ اسکے بال ،اس کا سراپا سب کچھ افضال شاہد کی بات کی گواہی دیتا تھا کہ وہ واقعی ایرانی نژاد ہے۔ اگلے دن نیوز ڈیسک پر کام کے دوران افضال نے مجھ سے سوال کیا،،، کیسی لگی بھرجائی؟ بہت اچھی لگی، جواب کے باوجود اس نے شرارتی آنکھوں سے اپنا سوال دہرایا تو میں کچھ نہ بولا، اس نے تو وطیرہ ہی بنا لیا، روزانہ پوچھنے لگا،،، کیسی لگی تمہیں تمہاری بھابی؟ میں دبے الفاظ میں اپنا معمول کا جواب دہرا دیتا، تنگ آ چکا تھا اس کے اس سوال سے، بالآخر ایک دن میرے صبر کا پیمانہ ٹوٹ گیا اور اس کے سوال کے جواب میں کہہ ہی دیا، یار تم مجھ سے کیا جواب چاہتے ہو؟ خود بتا دو کہ میں تمہیں تمہارے اس سوال کا کیا جواب دوں؟ وہ ہنسا اور پھر کبھی یہ سوال میرے سامنے نہ رکھا۔ وہ اپنی بیوی کا عاشق تھا شاید، 

1991
میں مجھے بحثیت چیف نیوز ایڈیٹر لاہور سے لندن ٹرانسفر کر دیا گیا تو سعید شاہد بٹ کی طرح افضال شاہد بھی فیملی سمیت میرے پیچھے چلا آیا، خوش قسمتی سے دونوں کو جنگ میں ملازمت مل گئی، افضال شاہد سنڈے میگزین کا انچارج بنا اور سعید شاہد میرے پاس ڈیسک پر آگئے، افضال شاہد نے کئی بار گھر میں ڈنر کی دعوت دی، میں اس لئے نہ جاتا کہ اس کا گھر میری ایسٹ ہام کی رہائش گاہ سے دو گھنٹوں کی مسافت پر ہے ،میں وہاں ڈرائیو نہیں کر تا تھا، میرا آفس سمیت ہر جگہ آنا جانا ٹیوب (ٹرین) پر تھا ۔ ایک دن آفس میں لنچ کے دوران افضال شاہد نے میرے سامنے ایک دھماکہ خیز انکشاف کر دیا، وہ کہہ رہا تھا کہ اسکی بیوی منزہ کا دادا انگلستان کا ایک لارڈ تھا، لندن کی ایک کاؤنٹی بھی اس کی ملکیت تھی، اس کے بیوی بچوں سمیت لندن آنے کامقصد یہی ہے کہ اس کاؤنٹی کی ملکیت واپس لی جائے، وہ برطانوی عدالتوں کا در کھٹکھٹائیں گے کیونکہ منزہ ہی اپنے دادا کی جاگیروں کی قانونی وارث ہے، یہ سن کر مجھے افضال شاہد کی دو سال پرانی بات یاد آگئی جب اس نے کہا تھا کہ منزہ ایرانی نژاد ہے۔ لندن میں چھ سات ماہ ٹھہرنے کے بعد میں شدت سے home sickness کا شکار ہو گیا، لاہور یاد آنے لگا تو واپسی کا سوچنا شروع کر دیا، آفس اور آفس سے باہر زیادہ تر دوست میری واپسی کے حق میں نہ تھے لیکن میرا فیصلہ اٹل تھا، پاؤنڈز میں بڑی پر کشش تنخواہ ، کلب ، بار ، پب ، موسم ،ماحول، منافقت سے پاک لوگ، ہر چیز خالص تھی مگر میری نہیں تھی۔ اور پھر ایک دن واپسی کا ٹکٹ کٹوا ہی لیا ، دوستوں نے الوداعی پارٹیاں دینا شروع کر دیں ، ایک ڈنر افضال شاہد کے گھر بھی تھا، منزہ بھابی نے کھانا کمال کا بنایا ، لگ رہا تھا جیسے لاہور میں افضال شاہد کے گھر دوسرا ڈنر کر رہا ہوں، منزہ بھابی نے کہا ، بھائی آپ کے پاس زیادہ سامان نہ ہو تو میرا ایک بیگ بھی ساتھ لے جائیں، میں نے وہ بیگ لے لیا، منزہ بھابی نے اپنے بھائی کا فون نمبر دیتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں کال کر دیجئے گا، بھائی بیگ خود لے جائے گا، 
لاہور آنے کے دو تین دن بعد منزہ بھابی کے بھائی کو فون کیا، شام کو دروازے پر دستک ہوئی ، باہرشلوار قمیض میں ملبوس سانولے رنگ کا ایک آدمی کھڑا تھا، اس نے دیسی اسٹائل میں بتایا کہ وہ منزہ کا بھائی ہے، میں نے پیکٹ تھماتے ہوئے پوچھا ،،آپ کس شہر کے ہیں؟ جی اسی شہر لاہور کے ۔ میرا مطلب ہے کہ آپ منزہ کے بھائی ہیں ناں ، کوئی شک ہے آپ کو، میں منزہ کا ہی بڑا بھائی ہی ہوں .