Thursday 29 August 2013

فنون لطیفہ کے ٹھیکیدار سید کی کہانی

لوگ جن کے ساتھ راتیں بسر کرنے کے آرزو مند رہتے ہیں، سھیل وڑائچ انکے ساتھ دن گزارنے پر ہی اکتفا کر جاتا ہے، یہ سھیل وڑائچ کے انتہائی سادگی سے سوال کرنے کا کمال ہے یا زارا اکبر کا کھلا پن کہ وہ پروگرام ,,ایک دن جیو کے ساتھ،،میں کہہ رہی تھی،،ٹی وی ہو ، تھیٹر ہو یا فلم،عام طور پر نئ لڑکیوں سے کام دینے سے پہلے ہر ڈیمانڈز کی جاتی ہیں، لڑکیوں کو اپنے خوابوں کو تعبیر دینے اور کیرئیر بنانے کیلئے سب کرنا پڑتا ہے
،کچھ لڑکیاں اس فیلڈ میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور بہت ساری ڈیمانڈز پوری کرنے کے باوجود اندھیروں میں گم ہو جاتی ہیں۔ زارا اکبر نے بلاجھجک اعتراف کیا کہ اس کے ساتھ بھی یہ سب ہوا۔ یہ پروگرام دیکھتے دیکھتے مجھے بہت سی کہانیاں یاد آ گئیں۔۔70 کی دہائی کے اوائل میں لکھنے لکھانے کے اپنے شوق پورے کرنے کے لئے میں تقریبآ روزانہ پی ٹی وی جایا کرتا تھا، کبھی کوئی گیت یا کبھی کوئی ڈرامہ لکھ دیتا ، اس شوق میں، میں نےمنشیات مافیا کے خلاف ایک منظوم ڈرامہ بھی لکھا ,, ڈمڑی سائیں دی وار،، اس ڈرامے کے صرف دو کردار تھے جو شجاعت ہاشمی اور نئیر کمال نے نبھائے، پی ٹی وی میں میرے جاننے والے پروڈیوسرز میں نصرت ٹھاکر، شاہد محمود ندیم، محمد عظیم۔مشتاق صوفی، عارف وقار اور ایک مسٹر A بھی تھا، مسٹر A پنجابی شاعری بھی کرتا اور انقلاب کی باتیں بھی کیا کرتا، عورت اس کی کمزوری تھی۔وہ اپنے کمرے میں آنے والی ہر لڑکی پر فریفتہ ہوجاتا، اس کے لئے لڑکی کی عمر ،اس کی شکل صورت، اس کی وضع قطع کوئی معانی نہ رکھتی تھی، اس نے تو گلوکاری کے شوق میں بیرون ملک سے آنے والی ایک ماسی ٹائپ عورت سے شادی بھی کر لی تھی جس کے پاس ایک مغربی ملک کی شہریت ،میں جب بھی اس عورت کو دیکھتا مجھے دیہات کی حقہ پینے والیاں یاد آجاتیں ۔۔۔۔ ایک بار اٹھارہ بیس سال کی ایک لڑکی اس کے ہتھے چڑھی، نام تھا مونیکا، وہ اپنی ماں کے ساتھ پی ٹی وی آیا کرتی تھی ،مسٹر A نے اس کا بہت جسمانی استحصال کیا، اس لڑکی کے ماں باپ کو بیٹی کے شوق کی تکمیل کے لئے بہت ذلت بھی برداشت کرنا پڑتی، ایک دن مسٹر A نے مجھ سے کہا .. مونیکا کی آواز میں گیت ریکارڈ کرنا ہے، گیت کس سے لکھواؤں؟ میں نے جواب دیا جس,, مقام اور رتبے،،، کی تمہاری گلوکارہ ہے، اس کے لئے شاعر تو شاید پورے لاہور شہر میں نہ ملے، تم اس کے لئےگیت مجھ جیسے کسی بزعم خود شاعر سے لکھوا لو، میں نے ایک نئے انداز سے گیت لکھا، ہر مصرعہ ایک، دو یا تین لفظوں پر مشتمل تھا۔ یہ اس لئے بھی تھا کہ گلوکارہ کو آسانی رہے۔



۔۔ ویلیا (اے وقت)
نہ ستا ( مجھے ستاؤ نہیں)
اسیں ستے آں (ہم سو رہے ہیں)
ستے رہن دے (ہمیں سوئے ہی رہنے دو)
گھوڑی نیندرے ( گہری نیند میں)


اس گیت کے لئے فل آرکسٹرا کے ساتھ پاپ اسٹائل میوزک بنوایا گیا، جس دن اس گیت کی وڈیو ریکارڈنگ ہونا تھی، مسٹر A مونیکا سمیت غائب تھا ، اسٹوڈیو کا سارا عملہ اس کا منتظر تھا، رات گئے جب وہ مونیکا کو ساتھ لئے سیٹ پر پہنچا تو اس کے کئی کارٹون ٹی وی کیمروں پر چسپاں ہو چکے تھے، لیکن وہ سب بدنامیوں سے بے نیاز تھا۔ ایک اور دن میں مسٹر A کے کمرے میں گیا تو وہاں ایک لڑکی اکیلی کرسی پر پریشانی کے عالم میں بیٹھی تھی، اس کا نام نگار تھا، وہ کراچی سے پوری فیملی سمیت اس امید کے ساتھ لاہور آئی تھی کہ وہ ایکٹرس بن کر خاندان کی کفالت کرے گی ،،میرے کمرے میں آتے ہی اس نے بڑ بڑانا شروع کر دیا، میں نےپریشانی کی وجہ پوچھی تو بولی ۔ وہ حرامزادہ میرا پرس اپنی دراز میں لاک کر گیا ہے، میں دو گھنٹے سے اس کی منتظرہوں میں نے کہا آپ چلی جائیں، پرس کل واپس لے لیجئیے گا اس نے جواب دیا پرس میں فلم ,,,اک گناہ اور سہی کے ٹکٹ ہیں ، میں نے فیملی کے ساتھ فلم دیکھنےجانا تھا، سب گھر والے میرے منتظر ہونگے،اس دوران کئی لوگوں نے اس کمرے کا دروازہ کھول کر جھانکا اور اس لڑکی کے مکالمے سن کر واپس لوٹے۔ چند منٹ بعد میں بھی اس کمرے سے باہر نکل آیا اور ٹی وی ملازمین سے مسٹر A کے بارے میں دریافت کیا، پتہ چلا کہ وہ اسٹوڈیو میں کسی پروگرام کی ریکارڈنگ میں مصروف ہے، میں اس کے پاس پہنچا، اسے علحدگی میں بلایا, ایک لڑکی تمہارے کمرے میں بیٹھی تمہاری حرکتوں کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے، تم اس کا پرس اپنی دراز میں لاک کر آئے ہو، تم جاؤ ، اپنا کام کرو، اسے پرس دیدیا تو وہ چلی جائے گی، .میں نے کام سے فارغ ہو کر اسے اپنے ساتھ لے کر جانا ہے، یہ اس کا جواب تھا.