Wednesday 28 August 2013

انجمن اور وہ ۔۔۔


ایک دور ایسا بھی آیا جب لوگ مجھے اپنے خانگی معاملات اور جھگڑوں میں منصف بنا لیا کرتے تھے، کوئی بھی مقدمہ ،، میری عدلت ،، میں آتا، میں بلا سوچے سمجھے سماعت کے لئے منظور کرلیتا، بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان آجکل آنکھیں بند کرکے ہر معاملے پر از خود نوٹس لے لیتے ہیں، میرے نزدیک سب سے اچھا انصاف یہ ہوتا کہ فریقین میں صلح کرادی جائے، اس زمانے میں دیبا بیگم اردو اور انجمن پنجابی فلموں کی ٹاپ ہیروئنز تھیں ، میں نے نئی نئی دیبا بیگم اور نعیم رضوی میں صلح کرائی تھی کہ انہی دنوں منور انجم (پیپلز پارٹی والا) مبین ملک اور ایک تیسرے نوجوان، جسے میں جانتا نہیں تھا کے ساتھ میرے پاس آ یا، مبین ملک سے میری علیک سلیک پہلے سے تھی، جن دنوں میں جنگ لندن میں کام کر رہا تھا وہ اپنی اداکارہ بیوی انجمن کے ساتھ ہمارے آفس بھی آیا تھا ، محکمہ انکم ٹیکس کا افسر تھا، لیکن اسکی اصل شناخت بیوی کے حوالے سے ہی تھی، بعض لوگ یہ دعوی بھی کرتے تھے کہ ان دونوں کی آپس میں رشتے داری ہے، کچھ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ دونوں کی شادی اخبارات میں چھپنے والی شادی سے ایک مدت پہلے ہو چکی تھی اور ان کے بچے بھی ہیں ، انجمن سے میری شناسائی محمد علی صاحب نے کرائی تھی، ہم نے ایم اسماعیل فلم ایوارڈز کا سلسلہ شروع کیا تو ان دنوں انجمن کی پہلی فلم،، وعدے کی زنجیر،، ریلیز ہوئی تھی، علی بھائی نے تجویز کیا کہ انجمن کو حوصلہ افزائی کا ایوارڈ ملنا چاہیئے، ان کی یہ تجویز جیوری نے منظور کر لی ، انجمن کا پہلا مکان گلبرگ میں علی بھائی کے گھر کے قریب ہی تھا، جب میں انجمن سے مل کر واپس علی بھائی کےپاس آیا تو انہوں نے احوال دریافت کیا ،، میں نے جوابآ کہا کہ اس کی ماں کو دیکھا جو بالکل ایسی ہی ہے جیسی ایسی عورتوں کی مائیں ہوتی ہیں، گھر کی لش پش سے لگا کہ اپنی پہلی فلم کے ساتھ ہی بہت مالدار ہو گئی ہے، علی بھائی میری اس بات پر بہت ہنسے، ایک بار لندن میں مبین ملک نے مجھے اپنے گھر ڈنر کی دعوت دی ، اس کا کہنا تھا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے بہت سے ایم پیز بھی اس ڈنر میں آ رہے ہیں، مسرت شاہین نے مجھے راستے میں کیچ کرکے اس دعوت میں جانے سے روک دیا ، ہوا کچھ یوں تھا کہ جب میں مبین ملک اور انجمن کے پاس جا رہا تھا راستے میں مسرت شاہین کا فون آ گیا ، میں اس کے بہکاوے میں آگیا ، اس نے مجھے باتوں میں لگا لیا ، میں نہیں جانتا تھا کہ اس نے مبین ملک اور انجمن کا فون نمبر ملا کے رسیور صوفے کے نیچے چھپا رکھا ہے ، اس نے میرے منہ سے بہت کچھ کہلوایا اور یہ سب کچھ ان دونوں کو سنوایا۔ (یہ سب مجھے بعد میں مبین ملک نے بتایاتھا)
ہم بات کر رہے تھے منور انجم کے، مبین ملک اور ایک نامعلوم نوجوان کے ہمراہ میرے پاس آنے کی ، ان دنوں مبین اور منور ایک کاروبار میں پارٹنر بھی تھے، منور انجم کا کہنا تھا کہ مبین اور انجمن ایک دوسرے کے خلاف عدالتوں کچہریوں، تھانوں اور میڈیا میں جنگ کر رہے ہیں ، وہ چاہتا ہے کہ معاملہ باہمی طور پر حل کر لیں، میں نے مبین ملک سے کہا کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اس کا جواب تھا کہ وہ اسے طلاق دے کر اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے، مبین کے ساتھ آنے والے نوجوان نے لقمہ دیا کہ ،، طوائف کبھی اچھی بیوی نہیں بن سکتی، اس جھگڑے کا واحد حل طلاق ہی ہے ، میں نے پوچھا کہ ، بچوں کا کیا بنے گا؟ اس نوجوان کا جواب ہوتا کہ طوائف کے بچے طوائف کے پاس ہی رہنے چاہئیں، اس ایشو پر ہماری کئی ملاقاتیں ہوئیں ، یہ تینوں کئی بار میرے پاس آئے، میرا خیال یہی تھا کہ دونوں میں صلح ہوجائے تو بہتر ہے ، ورنہ بچوں کا مستقبل تباہ ہو سکتا ہے ، میں مبین ملک کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا رہا، بسا اوقات وہ مجھ سے متفق بھی ہوجاتا مگر اسی لمحے اس کے ساتھ آنے والا نوجوان طوائف ازم کے خلاف لیکچر دینے لگتا، وہ نوجوان صرف اور صرف دونوں میں طلاق کے حق میں تھا ، وہ بات بات پر ہمیں طوائف کی اصلیت سمجھاتا ، اور خاص طور پر مجھے متوجہ کرکے کہتا کہ آپ کو طوائف کی نفسیات کا نہیں پتہ ، منور انجم ، میں اور مبین جب بھی صلح صفائی کا کوئی راستہ ڈھونڈتے وہ اپنی ٹانگ اڑا دیتا، میری دلیل یہ تھی کہ جب مبین نے شادی کی ، اس کے علم میں تھا کہ وہ طوائف تھی یا شریف زادی، اس نے سب کچھ جانتے ہوئے اس کو اپنایا، اب جبکہ بچے بھی بڑے ہو رہے ہیں، طلاق کوئی اچھا حل نہیں مسلئے کا، کئی دن گزر گئے مبین ملک اور منور انجم کا تیسرا ساتھی طلاق طلاق کی رٹ سے باز ہی نہیں آ رہا تھا کہ ایک دن میرا دماغ گھوم گیا ، میں نے انتہائی غصے کے عالم میں مبین اور منور سے سوال کیا کہ یہ آدی ہے کون ؟ آپ لوگوں نے میرا اس سے مکمل تعارف ہی نہیں کرایا کبھی، دونوں نے یک زبان جواب دیا،،یہ ارشد ہے، انجمن کا چھوٹا بھائی۔