Tuesday 27 August 2013

دس روپے کا ادھار

دادا جی نورالدین جنہیں ہم باباجی کہتے تھے، سعدی پارک مزنگ کے ایک تکیہ میں بیٹھا کرتے تھے، یہ ان کا روزمرہ معمول تھا، مزنگ بازار اور چاہ پچھواڑا کے درمیانی راستے میں ایک چھوٹا سا لکڑی کادروازہ تھا، جو بظاہر کسی چھوٹے سے گھر کا داخلی راستہ معلوم ہوتا تھا، درحقیقت یہ دروازہ (جو اب بھی موجود ہے) ،سعدی پارکاور چاہ پچھواڑے کا شارٹ کٹ تھا ، ہم اسی دروازے سے اسکول بھی جایا کرتے تھے، اس دروازے میں داخل ہوتے ہی گھنے قدیمی درخت آپ کا استقبال کرتے ،شروع میں ہی بائیں ہاتھ ایک چھوٹی سی مسجد تھی، اور مسجد سے ملحق ایک گھر جس میں باریش مولوی صاحب اپنی بیوی ، قدرے جوان بیٹی اور دیگر کئی بچوں سمیت رہائش پذیر تھے، ایک طویل صحن تھا اور اس کے آگے دالان اور پھر ایک بڑا کمرہ ، گھر کے دروازے کے عین سامنےوہ تکیہ تھا ، جہاں میرےباباجی، مولوی صاحب اور کئی دوسرےبوڑھے بیٹھ کر حقہ پیا کرتے تھے، بابا جی کی گھر میں کوئی ایمر جنسی ضرورت پڑ جاتی یا کوئی مہمان آ جاتے تو میں ہی انہیں تکیہ سے بلانے جایا کرتا تھا، باباجی ہمارے ،وزیر خزانہ، بھی تھے، ہم دن میں کئی کئی بار ان سے جیب خرچ لیا کرتے تھے، میں جب بھی باباجی کو ملنے تکیہ جاتا ، مولوی صاحب کے گھر کا چکر بھی لگا لیتا ، میں تھا تو چھ سات سال کا، مگر یہ ادراک تھا کہ سفید ڈاڑھی والے مولوی صاحب کی بیوی ان کے مقابلے میں چھوٹی عمر کی ہے،مولوی صاحب کی بیٹی بہت حسین ہے، اس کا چہرہ گورا نہیں پیتل کے رنگ جیسا ہے، کئی سال بعد جب میں سب رنگ ڈائجسٹ پڑھنے کا عادی ہوا تو سب رنگ کے ہر ٹائٹل پر مجھے مولوی صاحب کی بیٹی کا گمان ہوتا رہا،اس دور میں محلے کے ہر گھر سے مساجد کے مولویوں کے لئے کھانا بھجوانے کا رواج تھا، میں جب مولوی صاحب کے گھر جاتا تو ان کی بیوی مجھے کچھ کھلائے بغیر واپس جانے نہیں دیتی تھیں، وہ ایک پیار کرنے والی خاتون تھیں، وہ گھر میں موجود سب سے اچھی ڈش کھلایا کرتیں،1960میں ہم مزنگ سے اچھرہ نقل مکانی کر گئے، فاصلہ کچھ زیادہ نہیں تھا، پیر غازی روڈ سے سعدی پارک تک پیدل بیس منٹ میں پہنچا جا سکتا تھا، ہمارے بابا جی کو گو نئے محلے میں اپنی عمر کے دو دوکاندار مل گئے ، ایک کا نام بابا بھاٹی اور دوسرے کا بابا شریف تھا، بابا بھاٹی ذرا رنگین مزاج تھا ، وہ شمع سینما میں فلم کا آخری شو دیکھنے بھی چلا جاتا تھا ، اگر کسی فلم میں ہاشمی صاحب ہوتے تو وہ ہمیں ان کا پورا کریکٹر ڈائیلاگ سمیت سناتا اور خوب ہنستا، جبکہ بابا شریف بہت پرہیزگار اور نمازی تھے، بابا شریف کا تو ان کے انتقال کے بعد مزار بھی بنا دیا گیا جہاں اب ہر سال عرس بھی ہوتا ہے، اچھرہ میں شفٹ ہوجانے کے بعد بھی بابا جی مزنگ والے تکیہ میں گاہے بگاہے چلے جایا کرتے تھے، میں نے بھی مولوی صاحب کے گھر جانے کا سلسلہ جاری رکھا، حتی کہ اپنے باباجی کے انتقال کے بعد بھی ،،، ایک دن میں مزنگ بازار میں گھوم رہا تھا کہ اچانک دس روپوں کی ضرورت پڑ گئی، میں مولوی صاحب کے گھر چلا گیا، مولوی صاحب کی بیوی کو اپنی ضرورت بتائی تو وہ بے چاری خود شرمندہ ہو گئی، کیونکہ اس زمانے میں ضروری نہیں تھا کہ کسی مولوی صاحب کی بیگم کے بٹوے میں اتنے پیسے ہوتے، ماں کو شرمندہ دیکھ کر پاس کھڑی بیٹی نے کہا کہ اس نے عیدی کے پیسے جمع کر رکھے ہیں جو پورے دس روپے ہیں ، میں دے دیتی ہوں، وہ لڑکی کمرے میں گئی اور مجھے دس روپے کا نوٹ لا کر دے دیا، میں واپس جاتے ہوئے وعدہ کر آیا کہ ایک دو دن میں یہ واپس کر دوں گا۔ کئی دن گزر گئے ، میں دس روپے واپس نہ کر سکا، کچھ اور دن گزرے تو شرمندہ رہنے لگا، کچھ ہفتے گزر گئے تو پیسے ہونے کے باوجود نہ جا سکا، یہ سوچتا رہا کہ دو تین دن کا وعدہ کیا تھا، بہت دیر ہو چکی، کس منہ سے جاؤں؟، وقت پر لگائے اڑتا رہا، بہت برس بیت گئے،ان دس روپوں کا بوجھ بڑھتا رہا، میری زندگی میں کئی دور آتے رہے، جاتے رہے، میں موٹر سائیکل سے گاڑیوں پر آگیا، کئی بار گاڑی مولوی صاحب کے گھر کے قریب کھڑا ہوا، پتہ نہیں کیوں ہمت نہیں پڑتی تھی، ان کا دروازہ کھٹکٹانے کی، میری شادی ہو گئی، بچے ہوئے، بچے بڑے ہو گئے، وہ دس روپے میرے دماغ سے کبھی باہر نہ نکل سکے، میں سیکڑوں مرتبہ مولوی صاحب کے گھر کے پاس رکا، ارد گرد کے لوگوں سے پوچھتا تو پتہ چلتا کہ مولوی صاحب بیمار ہیں ، بستر پر ہیں، بقید حیات ہیں، پھر ایک دن آ ہی گیا ، سالہا سال کی گردش کے بعد پوری ہمت باندھی اور اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹا ہی دیا، اندر سے دو نوجوان نکلے،میں نے سوچا،،، یہ دونوں یقینآ اب شادی شدہ اور بال بچوں والے ہونگے، میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ مولوی صاحب اندر ہی ہیں لیکن ان کی حالت نہیں کہ وہ کسی کو آسانی سے پہچان لیں، وہ مجھے اپنے گھر کے اندر نہیں لے جانا چاہتے تھے، میرے بہت اصرار پر وہ اپنے والد کو سہارا دے کر دروازے تک لے آئے، لیکن مولوی صاحب نے کسی طور بھی مجھے نہ پہچانا ۔ میں نے جھجکتے جھجکتے ان نوجوانوں سے ان کی والدہ کے بارے پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ کئی سال پہلے ٹریفک حادثہ میں جان بحق ہو چکی ہیں ،،، آپ کی بڑی بہن بھی ہوا کرتی تھیں، ،، میرے اس لرزتے سوال کا جواب ملا، وہ پچھلے پندرہ سال سے اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ امریکہ میں رہ رہی ہے۔۔اب اس واقعہ کو بھی بہت سال ہو گئے، اب دس روپے کا یہ ادھار یاد تو ہے ، لیکن خلش نہیں۔