Thursday 29 August 2013

آزاد کوثری



آزاد کوثری ساٹھ کی دہائی کے آخری سالوں میں چکوال کے ایک انتہائی پسماندہ گاؤں سے لاہور آیا تھا، جیسا بھی تھا ، جو ، بھی تھا ، ، تھا پکا کمیونسٹ دانشور، وہ اپنے گاؤں کا پہلا گریجوءیٹ ، ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا جہاں ہانڈی بھی کئی کئی ہفتے نہیں پکتی ، اس نے بہت سے دکان دار ٹائپ لوگوں کو لیفٹ کادانشور بنایا، ایک تو آجکل الیکٹرانک میڈیا کا مقبول تجزیہ نگار بھی
ہے ،آزاد کوثری اتنا پڑھ لکھ کیسے گیا ؟، یہ سوال میں اس سے کبھی نہ کر سکا، اسے میں نے کسی چیز یا کام میں ریگولر پایا وہ تھا اس کا بلا ناغہ پاک ٹی ہاوس میں بیٹھنا اور حلقہ ارباب ذوق کی سرگرمیوں میں حصہ لینا ، اس نے کئی بار حلقے کا الیکشن بھی لڑا ، میں ہمیشہ اس کا سپورٹر ہوتا لیکن اسے کبھی جتوا نہ سکا، آزاد کوثری نے سب سے پہلے اچھرہ مین بازار کے قریب ایک کمرہ کرایہ پر لیا ، اس دور میں ایڈوانس کرایہ کا تقاضہ نہیں کیا جاتا تھا لوگ گھروں کی بیٹھکیں کرایہ پر چڑھا دیا کرتے تھے، اظہر زمان اور خلیفہ ہارون رشید جیسے کئی دوست مکانوں میں ایک ایک مہینہ گزار کر غائب ہو جایا کرتے تھے، ایسے لوگوں کا ضامن میں ہوتا تھا اور مالک مکان شکائتیں لے کر میرے والد صاحب کے پاس پہنچ جاتے ، میرے ایسے کئی دوست مالک مکانوں سے ہی نہیں محلوں کے کریانہ فروشوں سے بھی ہاتھ کر جایا کرتے تھے ،آزاد کوثری سے ملنے کے بعد صرف ایک ہی سوال سامنے آتا ’’اسے بھوک لگی ہے اس نے روٹی کھانی ہے، ‘‘کبھی کوئی کھلانے والا آجاتا ، یا محلے کے کسی گھر سے روٹی آ جاتی ، اس زمانے میں گھروں سے محلے کی مسجد کے مولوی کے لئے روٹی بھجوانے کا بہت رواج تھا، بہت سے گھروں سے آجانے والے مختلف اقسام کے کھابوں کا مولوی کیا کرتے تھے ، ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش بھی نہ کی۔ کمیونسٹ خیالات رکھنے والا اپنی وضع قطع اور حلیے سے ہی قابل رحم لگتا تھا ، ہلکی کوالٹی کے اسگریٹ پیتا تھا لیکن پیتا بے تحاشہ تھا، شاید اسی لئے اسکی صحت سگریٹ جیسی اور رنگت سگریٹ کے دھویں جیسی تھی، اس کے پاس ایک اوور کوٹ اور مفلر بھی تھا جو وہ برس ہا برس سردی سے بچنے کیلئے پہنتا رہا، ایک سنگل رضائی بھی گاؤں سے ساتھ لے کر آیا تھا ، جو کم از کم بیس سال تو چلی ہی ہوگی، آزاد کوثری نے جب اچھرہ مین بازار کی ایک گلی میں رہائش رکھی تھی ، ان دنوں موجودہ گنجان بازار نہیں تھا ، یہ رہائشی علاقہ تھا، ایک ڈاکٹر سرور جنگ کا کلینک تھا، دو لڑکوں کے اور ایک لڑکیوں کا سرکاری اسکول تھا اور ایک بک شاپ، ایک اور چیز بھی مشہورتھی اس علاقے کی ، افتخار فتنہ۔ افتخار محلہ آریہ سماج میں رہتا تھا ، آزاد کوثری، نے ایک بار اس کے محلے میں بھی ایک کمرے کا مکان کرائے پر لیا تھا ، فتنے کے گھر سے بھی اس کے لئے روٹی آتی رہی ،اس مکان کا مالک ایک دھوبی تھا ،اس کی دکان نیچے تھی اورکمرہ اس کے اوپر ، آزاد کوثری جب کئی ماہ تک کرایہ نہ دے سکا تھا تو اس دھوبی نے کوثری کی کتابوں پر قبضہ کرکے دروازے کو تالہ لگا دیا تھا، یہ کتابیں دھوبی نے بعد میں ردی فروش کو بیچ دی تھیں، وہ جس محلے میں بھی رہا ، وہاں کے نو عمر لڑکوں سے اسکی دوستی ہو جاتی ، وہ جو محلہ چھوڑ کے جاتا، وہاں کے لڑکے بھی اس کے نئے ٹھکانے تک پہنچ جاتے ، افتخار فتنے والے محلے کا ایک لڑکا اعجاز اس کا’’ بہترین دوست‘‘ بن گیا ، آزاد کوثری نے سولہ سترہ سال کے اس لڑکے کو بھی’’ دانشور‘‘ بنانے کا تہیہ کر لیا ،وہ لوہسون کی نظموں کا ترجمہ کرتا اور اسے اعجاز کے نام پر چھپوانے لگا، اس وقت تو حد ہی ہوگئی جب کوثری نے لوہسون کی نظموں کے مترجم کے طور پر اعجاز کو حلقے کے اجلاسوں میں بھی لیجانا شروع کر دیا،،، انیس سو ستر میں جب ایرک سپرین کی سفارش پر آئی اے رحمان صاحب نے مجھے روزنامہ آزاد میں سب ایڈیٹر کی نوکری دی تو آزاد کوثری وہاں پہلے سے ہی موجود تھا، وہاں ہم دونوں کی باقاعدہ دوستی کا آغاز ہوا، کوثری کے اکسانے پر میں بھی حلقے کے تنقیدی اجلاسوں میں جانے لگا ، میں نے پہلا مضمون اس وقت پڑھا جن شاہد محمود ندیم اس کے جنرل سیکرٹری تھے، سانحہ ڈھاکہ کے بعد روزنامہ آزاد مالی بحران کا شکار ہوگیا، تنخواہیں ملنا بند ہو گئیں ، دوپہر کا کھانا کوثری کے لئے بڑا ایشو بن گیا، اخبار کی کنٹین کا مالک زاہد اچھے دنوں کی امید پر ہمیں ایک عرصہ تک ادھار کھلاتا رہا ، زاہد فہیم جوزی اور مسعود منور کا بھی نظریاتی دوست تھا ،لیکن ادھار کب تک ؟ کنٹین بند ہو گئی تو روٹی کے لئے آزاد کوثری نے ایک راستہ ڈھونڈھ ہی لیا، ہمارے اخبار کے تین ایڈیٹر تھے، عبدللہ ملک ، حمید اختر اور آئی اے رحمان ، پہلے دو نام تو مکمل صاحب ٹائپ کے تھے اور تیسرے آئی اے رحمان بھی تھے تو صاحب ہی مگر درویش ٹائپ، ہمارا آفس لارنس روڈ پر تھا ، اور رحمان صاحب ٹمپل روڈ پر رہتے تھے، یہ پیدل کا راستہ تھا ، رحمان صاحب دوپہر کو کھانے لے لئے گھر جانے آفس سے نکلتے تو کوثری مجھے ان کے پیچھے لگا دیتا، مجھے کہتا کہ ان سے روٹی کے لئے پیسے مانگو ، میرے لئے یہ بہت مشکل کام تھا ، لیکن کوثری کی بھوک مجھے ان سے بات کرنے کی طاقت 

بخش ہی دیتی

’’ سر ، لنچ کرنا ہے‘‘

’’ہوں ، پھر‘‘

’’ کوثری بھی بھوکا ہے‘‘

’’اچھا‘‘ کہہ کو رحمان صاحب پتلون کی جیب سے دس کا نوٹ نکالتے اور یہ کہہ کر وہ نوٹ مجھے تھما دیتے’’ پانچ روپے مجھے واپس کرنا ہے‘‘ یہ سلسلہ انتہائی ڈھٹائی سے بہت دنوں تک چلتا رہا ۔اس کے بعد میرا کوثری سےپڑا واسطہ انیس سو چوہتر میں ، وہ مساوات کے ہفت روزہ نصرت کا ایڈیٹر تھا ، اور میں کراچی سے تبادلہ کراکے لاہور آیا تھا، اس وقت شوکت صدیقی مساوات کے ایڈیٹر انچیف اور عباس اطہر لاہور کے ایڈیٹر تھے، وہاں ایک نیوز ایڈیٹر چاچا رفیق بھی تھے جو صفدر میر صاحب کے بھانجے تھے، چاچاسے سب کا مذاق چلتا تھا، دوسرےزبان چلاتے تھے اور میں ہاتھ،، اللہ کو پتہ نہیں کیا منظور تھا کہ چاچا رفیق مساوات کے ایڈیٹر بن گئے، انہوں نے مجھے اپنے کمرے میں طلب کیا ، ان کالہجہ آدھا التجانہ اور آدھا تحکمانہ تھا،
’’ دیکھو، تجھے پتہ ہے ناں۔۔۔ میں ایڈیٹر بن گیا ہوں‘‘
’’ جی ،، چاچا جی‘‘
’’ اب ،اب، اب بدتمیزی نہیں ہوگی‘‘ (چاچا رفیق ہکلاتے بھی تھے)
’’ جی، چاچا جی۔۔ بدتمیزی نہیں ہوگی‘‘
میں وعدہ کرکے ان کے کمرے سے واپس چلا آیا، اس ملاقات اور وعدے کو میں اگلے ہی دن بھول گیا مساوات کا آفس ان دنوں بھاٹی چوک کے قریب ہوا کرتا تھا، چوک میں ایک پان شاپ ہوا کرتی تھی ، جو بہت چلتی تھی ، میں ان دنوں تمباکو والا پان کھانے کی لت میں مبتلا تھا، صبح آٹھ بجے ہی اس شاپ پر کھڑا ہوجاتا، آنے جانے والوں سے علیک سلیک ہوتی رہتی، دس بجے کے بعد چاچا رفیق وہاں سے گزرتے تھے اور میں ان کے ساتھ پنگا کرکے وہاں سے دوڑ لگا دیا کرتا تھا، چاچا جواب میں جو گالیاں نکالتے ، وہ بھاٹی کے سوا لاہور کے کسی اور دروازے کے لوگ نکال ہی نہیں سکتے۔میں چاچا رفیق کی نصیحت کے اگلے ہی روز پھر اسی جگہ کھڑا تھا، چاچا اپنے وقت پر تھے اور میں تاک میں ، پھر وہی ہوا جو معمول تھا، اس واقعہ کو گزرے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ مجھے شوکاز مل گیا، شو کاز میں میرے کردہ نا کردہ گناہوں کی ایک طویل فہرست تھی ، اگر کچھ نہیں تھا تو وہ تھا چاچے والا واقعہ۔ میرے خلاف یہ ایف آئی آر کسی ماہر کی بنائی ہوئی لگتی تھی ، میں کھوج لگاتا لگاتا آزاد کوثری تک پہنچ گیا آزاد کوثری نے کسی عذر کے بغیر تسلیم کر لیا کہ یہ سب کچھ اس نے چاچا کے کہنے پر کیا ’’ تم نے آخر یہ کیا کیوں، تمہیں احساس نہیں ہوا ، ہمارے دیرینہ تعلق کا‘‘
’’ مجھے چاچا نے کہا تھا کہ اگر تمہارے خلاف چارج شیٹ تیار کردوں تو میری ترقی کر دے گا‘‘ اس اعتراف کے بعد کوثری نے مجھے اپنے علاقے اور خاندان کے نفسیاتی بیک گراؤنڈ سے بھی آگاہ کیا میرے خلاف کوئی کارروائی تو نہ ہوئی لیکن چاچا کی جان چھوٹ گئی، میرے مذاق سے اور آزاد کوثری سے میرے تعلق میں کوئی فرق نہ آیا، نہ ہی دل میں کوئی گرہ بندھی، آزاد کوثری ایک مدت تک عبدللہ ملک کے گھر بھی جاتا رہا ، وہ عبدللہ ملک صاحب کے نام پر شائع ہونے والی کتابوں کو شاید ترتیب دیا کرتا تھا اور اس کام کا اس کو تھوڑا بہت معاوضہ بھی ملتا تھا،، وہ پاکستان پیپلز پارٹی والے سوشلسٹ شیخ رشید کا بھی بہت قریبی ساتھ تھا، بھٹو صاحب کے اقتدار میں آنے سے پہلے شیخ رشید نے اس سے ’’دہکان‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ بھی نکلوایا تھا ، دہکان ،کسان کو کہتے ہیں اور یہ رسالہ کسانوں کو باشعور کرنے کے لئے جاری کیا گیا تھا، جب بھٹو صاحب کا انقلاب آگیا تو شیخ رشید نے یہ کہہ کر یہ رسالہ بند کرا دیا کہ اب اس کی ضرورت نہین رہی ، کوثری کو کئی ماہ کی تنخواہ بھی نہیں دی گئی تھی انیس سو ستتر کے بعد زندگی میں انقلاب در انقلاب آتے رہے، کوثری سے رابطے ٹوٹ چکے تھے، میں خود کوثری سے زیادہ نڈھال ہو چکا تھا، پھر بھٹو صاحب کے زوال کا زمانہ آیا ، آزادئ جمہور ،کے لئے صحافیوں کی ملک گیر تحریک شروع ہوئی ، پوری قوم کو یرغمال بنا کر مظالم ڈھائے گئے ، مجھے سندھ پنجاب کی سات جیلیں کاٹنا پڑیں ، برے دن برداشت کرنے کی عادت پہلے سے نہ ہوتی تو شاید میں یہ سب نہ کر پاتا، کوثری تو بہت لاغر آدمی تھا ، میں نے ایک بار مارشل لاء کے خلاف ادیبوں ، صحافیوں اور دانشوروں سے دستخط کرانے کی مہم شروع کی تو احمد ندیم قاسمی اور منیر نیازی تک نے اس پر یہ کہہ کر دستخط نہیں کئے تھے کہ ’’ ابھی اس کام کا وقت نہیں آیا‘‘
1982
لاہور سے روزنامہ جنگ کی اشاعت شروع ہوئی تو میں اور آزاد کوثری پھر کولیگ تھے ۔آزاد کوثری کا ایک بھائی فوج میں تھا ، وہ شاید کسی ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہو گیا تو اس کے اکلوتے بیٹھ ناصر کو کوثری اپنے پاس لے آیا تھا ، ہمارےفاقے ختم ہو چکے تھے، میں نیوز روم میں اور وہ لائبریری انچارج تھا، آرکائیوز بھی اسی کی نگرانی میں تھا،، میں نیوز روم میں اپنی مصروفیات بڑھاتا گیا، اسی دوران نو مہینے شاہی قلعہ اور لال قلعہ میں بھی گزارے ، لیکن مجھے ملازمت سے نہ نکالا گیا ، جنگ لندن میں چیف نیوز ایڈیٹر کی ذمہ داری بھی انجام دی، مگر ہوم سکنس کے باعث اگلے سال ہی واپس لاہور آ گیا ایک دن۔ آزاد کوثری مجھے نیوز روم سے اٹھا کر اپنے روم میں لے گیا وہ بہت پرجوش تھا، میں پہلی بار اس کے چہرے پر زندگی کی رمق دیکھ رہا تھا، 
’’ میرا رشتہ آیا ہے، وہ لوگ انار کلی میں رہتے ہیں، مجھے دیکھ کر ہاں کر گئے ہیں ، انہوں نے مجھ سے پوچھا تمہارا کوئی بڑا ہے ؟ میں نے تمہارا نام لے لیا ، اب تم نے ہی سب سنبھالنا ہے‘‘میں نے جواب دیا۔ ہاں سب کچھ میں سنبھالوں گا‘میں نے کوثری کے سسرال والوں سے ملاقات کی ، شادی کی تاریخ طے کر لی گئی ، دلہن کو لانے کے لئے فیروز پور روڈ پر گلیکسی سینما کا فلیٹ کرائے پر لیا گیا ، میں نے زیور اپنی بیوی سے ادھار لئے ، دلہن کے لئے سستے سستے جوڑے سلوائے گئے، اور پھر وہ دن آگیا، جب گھوڑی چڑھا آزاد کوثری، ہم بھابی کو بیاہ لائے تھے ، ایک انتہائی اچھی عورت کوثری کی شریک حیات بن گئی ، اس نے ناصر کو بھی بیٹوں جیسا پیار دیا ، پھر آزاد کوثری ایک بیٹی کا باپ بن گیا ، اس کی زندگی گھر اور دفتر تک تو محدود ہو گئی لیکن اس نے پاک ٹی ہاؤس اور حلقہ ارباب ذوق سے رشتہ نہ توڑا، کچھ عرصے بعد کوثری اپنی بیوی کے انار کلی والے گھر کے ایک پورشن میں منتقل ہو گیا۔ اس گھر اور پاک ٹی ہاؤس کا فاصلہ ایک فرلانگ کا ہے ، کوثری کا انتقال اسی گھر میں ہوا ، ہم اس کا جنازہ لے کر پاک ٹی ہاؤس کے دروازے کے آگے سے گزرے تو دروازہ تو کھلا ہوا تھا مگر اس کے اندر اور باہر آزاد کوثری کو الوداع کہنے والا کوئی نہیں تھا۔۔۔