Wednesday 28 August 2013

گیسٹ ہاؤس کی ایک رات

پنڈی کچہری کے مین گیٹ کے عین سامنے ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس تھا، جو دو دہائیاں پہلے بیشمار واقعات اور داستانوں کا امین بنا، ہر روز رات گئے تک دوستوں کی محفلیں سجتی تھیں، روزانہ کوئی نہ کوئی نیا پنگا، کوئی نیا ھنگامہ، کوئی نئی کہانی، یوں تو بے شمار دوست یہاں آیا جایا کرتے تھے، لیکن بیرسٹر سلطان محمود
، جواد نظیر، سمیع ابراہیم، شمیم احمد خان ،شیخ اعجاز ،چوہدری سرور اور مسعود باری کا آنا جانا زیادہ تھا، باورچی خانہ ضرورت کی ہر شے سے لیس رہتا، کس نے کیا کھانا ہے , کیا پینا ہے ؟ یہ مہمانوں کی اپنی صوابدید پر تھا، سرکاری خانسامہ تو موجود تھا لیکن بہت سارے دوست خود بھی ککنگ کا شوق پورا کیاکرتے ، ہفتے کی رات تو دوستوں کا بہت ہجوم رہتا، ارشاد راؤ جیسے دوست بھی چلے آتے۔حفیظ احمد مرحوم تاش کا چسکا پورا کرنے لاہور سے وہاں پہنچتے ،ہفتے ہی کی ایک رات گیسٹ ہاؤس کے ایک وسیع و عریض کمرے میں بہت سارےدوست جمع تھے، کچھ گفتگو میں محو ، کچھ باہمی لڑائی جھگرے میں، کئی لطیفہ بازی میں اور کئی کھانے پینے میں، اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور خلاف توقع مسرت شاہین اندر داخل ہوئی، اس کے ہمراہ پندرہ سولہ برس کا ایک لڑکا بھی آیا، جس کانام تھا ریمبو (صاحبہ والا ریمبو نہیں ) مسرت شاہین نے اس لڑکے کا تعارف اپنے سیکرٹری کے طور پر کرایا۔.سب ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ وہ کس کی مہمان ہے؟ اسے کرسی پیش کی گئی ،وہ چوہدری سرور کے برابر بیٹھ گئی، مسرت شاہین پر ان دنوں سیاست کا بھوت سوار تھا ، اس نے چوہدری صاحب اور مسعود باری سے گفتگو شروع کر دی ، حالات حاضرہ پر بات چیت کے دوران چوہدری صاحب کو اچانک پتہ نہیں کیا ہوا ، وہ مسرت شاہین کے سامنے دوزانوں ہوتے ہوئے اور اس کے قدموں میں بیٹھ گئے، سب حیرت زدہ ہوئے سوائے مسرت شاہین کے، پھر ایک اور دھماکہ خیز حرکت کی چوہدری صاحب نے، انہوں نے مسرت شاہین کے پاؤں چاٹنا شروع کر دیے، یہ منظر اس حوالے سے بھی حیرت انگیز تھا کہ چوہدری صاحب ایک بڑے سرکاری ادارے کے سربراہ تھے، مسرت شاہین کے چہرے پر شرارت انگیز مسکراہٹ تھی، چوہدری صاحب کی یہ حرکت اس کے لئے ممکن ہے کہ عجب یا نئی بات نہ ہو ، کیونکہ اس زمانے میں اس کے ہزاروں دیوانے تھے، یہ وہ دور تھا جب مسرت شاہین کو چاہنے والے اسے دیکھ کر راستہ بھول جایا کرتے تھے،چوہدری صاحب کا مسرت شاہین کے پاؤں چومنا کئی منٹ جاری رہا، اسی عمل کے دوران وہ اچانک کرسی سے اٹھی اورچوہدری صاحب سےمخاطب ہو ئی۔، چوہدری صاحب ، میں تو جا رہی ہوں،لیکن ریمبو یہیں  رہے گا، کسی خدمت کی ضرورت ہوئی تو وہ پوری کر دے گا،،
مسر ت شاہین کے تیزی سے کمرے سے باہر نکلتے ہی ایک زور دار مشترکہ قہقہہ لگا جو دیر تک گونجتا رہا۔