Saturday 31 August 2013

عالم لوہار اور زمرد کا لہنگا

ستر کی دہائی شروع ہوئی تھی۔آوارہ گردی کے دن تھے، صبح کہیں شام کہیں بسر ہو رہی تھی، عنایت حسین بھٹی کے سابق ڈرائیور اور اسٹیج سنگر شوکت کشمیری نے میری پہلی ملاقات کرائی عالم لوہار سے۔۔چوک نواں کوٹ سے سمن آباد داخل ہوں تو بائیں ہاتھ ایک بوسیدہ سا بنگلہ موجود تھا۔

یہاں عالم لوہار اپنی نجانے کتنی بیویوں کے ساتھ رہائش رکھے ہوئے تھے، وہ خود تو نیچے گراؤنڈ فلور پر ہی ملتے ، لیکن کوئی قریبی دوست آتا تو بیگمات کو اوپر والی منزل سے بلوا لیتے، کبھی تین آجاتیں ، کبھی چار۔ کیا وہ واقعی ان کی بیگمات ہوتیں یا ان کے تھیٹر میں کام کرنے والیاں، یہ کھوج میں نے کبھی نہیں لگائی۔عالم لوہار کے نام کا طوطی بول رہا تھا ، ان کی زندگی کا مقصد صرف ایک تھا۔ وہ خود کو سینما اسکرین پر ہیرو کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے،، شنید ہے کہ کئی نام نہاد یا کنگلے ڈائریکٹر ان سے مال ہتھیانے کے لئے انہیں سٹوڈیوز لے جاتے اور خالی کیمروں کے ساتھ انہیں شوٹ کرتے رہتے۔۔عالم لوہار کے پاس کتنا مال ہوگا ، یہ وہی سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے عالم لوہار کا میلوں میں تھیٹر دیکھا ہو۔۔میں جس بوسیدہ بنگلے کا ذکر کر رہا ہوں اس کے مالک تھے زرتاش ۔ زرتاش ابھی بقید حیات ہیں نوے کے قریب عمر ہے ، کبھی کبھی اپنی ایک نوجوان ملازمہ کی تیمار داری میں زندگی کے آخری دن گزار رہے ہیں ، ان دنوں زرتاش کو لکھنے لکھانے اور فلم ڈائریکشن کا شوق تھا.عالم لوہار نے زرتاش کو ڈائریکٹر لے کر اپنی ذاتی فلم کی مہورت کر دی۔ ہیرو تھے خود عالم لوہار اور ہیروئن لیا گیا زمرد کو ، اس فلم کی شوٹنگز شروع ہو گئیں۔ اس بار عالم لوہار سے فراڈ نہیں ہو رہا تھا ، کیمرہ بھی اصلی تھا اور کیمرہ میں بھی اصلیاسی دوران عالم لوہار کو حکومت برطانیہ کی طرف سے سرکاری دورے کی دعوت آگئی ، یہ ہوا کیسے؟ یہ تو مجھے معلوم نہیں ، لیکن یہ ہوا۔۔اور انہیں بکنگھم پیلس میں ملکہ عالیہ نے پرفارم کرتے دیکھا، لندن سے انکی واپسی کے بعد میں ان سے ملنے زرتاش والے گھر گیا ، میرے ساتھ ایک دوست بھی تھا جسے بچوں کی کہانیاں اور نظمیں لکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا ، وہ خواتین کے عروسی ملبوسات پر کڑھائی کا ماہر کاریگر بھی تھا۔۔عالم لوہار نے لندن یاترا کی کہانی سنانا شروع کردی جو ان کے چمٹے سے بھی زیادہ طویل تھی، بڑی مشکلوں سے کہانی ختم کرائی تو انہوں نے ایک خاتون کو آواز دے کر بلوا لیا’’’ او کپڑا تے لیا جیہڑا میں زمرد دے لہنگے لئی لیاندا اے ‘‘‘‘ سرخ رنگ کا یہ کپڑا بہت عمدہ اور نفیس تھا۔۔عالم لوہار نے بتایا کی اس کپڑے سے وہ زمرد کے لئے لہنگا سلوائیں گے اور اس لہنگے کو پہن کر زمرد اس کے ساتھ فلم میں دوگانا پکچرائز کرائے گی۔ میری شامت، کہہ بیٹھا کی میرا ساتھ آنے والا دوست کڑھائی کرتا ہے اور اگر اس کپڑے پر کڑھائی کے بعد لہنگا سلوایا جائے اور پھر زمرد کو پہنایا جائے تو زمرد کو مزید چار چاند لگ جائیں گے۔۔عالم لوہار کو میری یہ تجویز اتنی بھائی کہ انہوں نے وہ کپڑا میرے دوست کے حوالے کر دیا . طے یہ پایا کہ ایک ہفتے بعد کڑھائی کرکے یہ کپڑا انہیں واپس کر دیا جائے گا۔اس واقعہ کو تین چار ہفتے گزر گئے تو ایک دن عالم لوہار نے میرے گھر کا دروازہ کھٹکٹا دیا،’’’’ یارا، او تیرا بیلی لہنگے دا کپڑا ای نئیں لے کے آیا‘‘‘‘ میں نے کہا ،، لالہ جی ، اسے کوئی مصروفیت آگئی ہوگی ، میں اس کے پاس جاتا ہوں ، پتہ کرنے ، آپ جائیں ، میں آپ کو بتا دوں گا، عالم لوہار یہ کہتے ہوئے واپس چلے گئے،،’’’ میں تے ایس ہفتے شوٹنگ رکھ لئی سیمیں اپنے دوست کو ڈھونڈنے اس کے گھر اور دکان پر کئی دن جاتا رہا ، وہ مجھے مل ہی نہیں رہا تھا ، میں شرمندگی کے مارے عالم لوہار سے بھی نہیں مل رہا تھا۔۔۔ رات کو جب میں گھر جاتا تو میرے ابا جی پوچھتے’’ اوئے اے عالم لوہار تینوں لبھن روز آ جاندا اے، خیر تے ہے ؟ میں جواب دیتا ’’’ انہیں میرے ساتھ کوئی کام ہوگا ، میں مل لوں گا ‘‘‘کئی روز کی مشقت کے بعد میں نے اپنے اس کاریگر دوست کو ڈھونڈھ ہی لیا۔یار، تم نے مجھے کس مصیبت میں پھنسا دیا ؟ عالم لوہار روزانہ میرے گھر پہنچ جاتا ہے ،’مجھے پیسوں کی ضرورت تھی ، میں نے تو وہ کپڑا بیچ دیا تھا