Saturday 24 August 2013

جیل میں ایک لنچ

ضیاء الحقی دور میں عباس اطہر صاحب کے جنرل فیض علی چشتی اور جنرل مجیب الرحمان سے تعلقات کا کمال تھا کہ مجھے اچانک رات دو بجےساہیوال جیل کی کال کوٹھری سے نکالا اور پولیس وین میں لاہور کی کیمپ جیل منتقل کر دیا گیا، رات دو بجے خلاف قانون اور خلاف معمول میرے کال کوٹھری سے نکالے جانے پر جیل کےسب ساتھی خوفزدہ

ہو گئے، انہیں ڈر تھا کہ کسی ٹارچر سیل میں نہ لے جائیں، ان ہمدرد ساتھیوں میں رحیم اللہ یوسف زئی، غازی صلاح الدین ،محمد صوفی، شبر اعظمی اور صبیح الدین غوثی بھی شامل تھے، میں خود نہیں ڈرا تھا، سمجھتا تھا کہ مشن پر ہوں اور مشن کی تکمیل ہی زندگی ہے، کوٹ لکھپت جیل میں کوڑے مارے جانے کے اگلے ہی دن مجھے ساہیوال کی کچی جیل میں بھجوایا گیا تھا،اس وقت پشت پر کوڑوں کے زخموں کے باعث میں بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا، مجھے پولیس وین کے پچھلے حصے میں دھکیل کر باہر تالہ لگا دیا گیا، میں کیمپ جیل میں پہلے بھی کئی مہینے مہمان رہ چکا تھا، مگر C کلاس میں، اب مجھے جیل کی دوسری منزل پر B کلاس دی گئی جہاں پہلے صرف ملک مختار اعوان اکیلے اکیلے،، عیاشیاں، کر رہے تھے، بی کلاس میں چار پائی اور بستر ہوتا ہے، رات کو کوٹھری میں بند نہیں ہونا پڑتا، ایک مشقتی اور ایک کھانا پکانے والا ملتا ہے، کچا گوشت اور سبزیاں بھی دی جاتیں، کھانا گھر سے بھی منگوایا جا سکتا تھا، میرا گھر تو جیل سے ایک ہی فرلانگ دور تھا، ملک مختار اعوان میرا ساتھ مل جانے پر بہت خوش تھے، دن گزرا تو انہوں نے، ،،خوش خبری،، سنائی کہ رات کو آخری شو دیکھنے شمع سینما چلیں گے، رات نو بجے کے قریب میں نے انہیں یاد دلایا کہ فلم دیکھنے جانا ہے، وہ مجھے ایک نکڑ پر لے گئے، جہاں سے شمع سینما کا روشن سائن نظر آتا تھا، ملک صاحب بولے، سینما میں نے دکھا دیا ہے، فلم خود دیکھ لو، بے شمار دوستوں کا دوست، روزانہ پارٹیاں اٹینڈ کرنے والا، خود پارٹیاں کرنے والا یہاں جام اور پیمانوں کے بغیر بھی بہت خوش تھا،ان کے زیادہ تر دوست تو خود بھی جیلوں کی آزمائش جھیل رہے تھے، شیخ رفیق، ایس ایم مسعود، شیخ رشید ۔جہانگیر بدر، رانا شوکت محمود، اسلم گورداسپوری، افضل سندھو اور حاکمین خان جیسے بے شمار سیاسی راہنما اور کارکن اسی جیل کے مختلف وارڈز میں بند تھے، کئی ماؤں کے ایک سے زیادہ بیٹے بھی ایک ساتھ قید تھے۔ ایک رات میری اور ملک مختار اعوان کی گفتگو کا موضوع پیپلز پارٹی کے وہ لاتعداد کارکن تھے جو ہزاروں کی تعداد میں پاکستان بھر کی جیلوں میں اذیتیں سہہ رہے تھے، کئی ہزار کارکن کوڑے کھانے کا عذاب بھی برداشت کر چکے تھے، ملک صاحب نے بتایا کہ اسی کیمپ جیل میں بھی ان کی پارٹی کے بے شمار کارکن بند ہیں جن سے سخت مشقت بھی لی جا رہی ہے، ایک کارکن مسعود بھٹی کو جو گرایجویٹ ہے 20 کوڑے مارے گئے اور اب اس سے اسی جیل میں قیدیوں کی لیٹرینیں اور گٹر صاف کرائے جاتے ہیں، جھاڑو اور پوچا بھی کرایا جاتا ہے، میں یہ باتیں سن کرغمزدہ ہوا، اور ملک صاحب سے درخواست کی کہ میری اپنی پارٹی کے اس کارکن سے ملاقات کرائیں، میں آزادی جمہور کے اس عظیم کارکن کو سلام کرنا چاہتا ہوں، ملک صاحب نے اگلے روز ملوانے کا وعدہ کر لیا۔ اگلا دن چڑھا، ہم دونوں نے ناشتہ کیا، ملک صاحب نے میرے یاد دلانے پر جیل کے ایک افسر سے درخواست کی کہ مسعود بھٹی کو تھوڑی دیر کے لئے ان کے پاس بھجوا دیں، دوپہر بارہ بجے سے پہلے پہلے میرے اور ملک صاحب کے گھروں سے بھی کھانا آ گیا، اس سے پہلے کہ ہم لنچ کے لئے دستر خوان بچھاتے،پیپلز پارٹی کا 20 کوڑے برداشت کرنے والا جیالا ہماری بیرک میں آ گیا، مسعود بھٹی ایک خوبصورت نوجوان تھا، اس کے چہرے پر کوئی ملال نظر نہ آیا، وہ بحالی جمہوریت کے لئے تکالیف برداشت کرنے پر نازاں تھا، باتوں کے دوران میں نے تھوڑی دور بیٹھے ہوئے ملک صاحب سے آہستگی سے کہا، اب کھانا کھا لیا جائے، بھوک لگ گئی ہے، ملک صاحب نے مجھ سے بھی زیادہ آہستگی سے جواب دیا، یہ (گندی گالی نکالتے ہوئے) چلا جائے تو کھانا کھولتے ہیں۔