Thursday 29 August 2013

کشور ناہید اور یوسف خان

کشور ناہید کو ہر کریڈٹ دیا جا سکتا ہے، سوائےعورت ہونے کا طعنہ دینے کے، اردو ادب و شاعری کے لئے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اللہ انہیں صحت مند اور سلامت رکھے۔فیض صاحب سے احمد فراز تک اور قتیل شفائی سے منیر نیازی تک کشور ناہید نے سب سے نبھائی ۔
سرکاری نوکری لیفٹ کے دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کو بہت مرغوب رہی ہے (قتیل شفائی اور منیر نیازی کو چھوڑ کے، کیونکہ دونوں کے پاس کوئی ڈگری نہ تھی)فیض اور فراز ہی نہیں، باری علیگ جیسا ادیب بھی, کمپنی حکومت، جیسی پاپولر کتاب لکھنے کے باوجود کمپنی حکومت کا ملازم رہا ، ،سرکاری نوکری آپ کے افکار و نظریات سے میل کھاتی ہے یا نہیں اور آپ کو کہاں کہاں کمپرومائز کرنا پڑتے ہیں؟ اس بھاری موضوع پر میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا، بس چھوٹی سی ایک کہانی سنا سکتا ہوں۔ جنرل ضیا ء کے دور میں پاکستانی سینماؤں میں بھارتی فلم نور جہاں کی نمائش پر بہت احتجاج ہوا تھا، ایکٹروں ایکٹرسوں سمیت ساری فلم انڈسٹری سڑکوں پر تھی، ضیاء الحق کی بیگم پارہ اور مختار شیخ سے رشتے داری تھی یا دوستانہ، بس وہ اس تعلق کو نبھانے کی ضد کر بیٹھا تھا،فلم نور جہاں کی نمائش کے خلاف فلم انڈسٹری کی تحریک کی قیادت اداکار یوسف خان کر رہے تھے حالانکہ وہ بنیادی طور پر جماعت اسلامی اور جنرل ضیاء کے نظریات کے حامی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کٹر مخالف تھے، میرے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا ، شرارتی آئیڈیا، میں پہنچا نیشنل سنٹر میں جو الفلاح بلڈنگ کی شاید دوسری منزل پر قائم تھا، یہاں لائبریری اور بحث مباحثوں کے لئے ایک ہال بنا ہوا تھا،اس لائبریری سے ایک بار میں نےاپنے والد کے کہنے پر کتاب ,,مرثیہ انیس،،ایشو کرائی تھی،،کشور ناہید نیشنل سنٹر کی ڈائریکٹر تھیں، میں ان سے ملا اور نعیم ہاشمی صاحب کی یاد میں تقریب کے نام پر نیشنل سنٹر ہال کی بکنگ کیلئے درخواست کی، کشور ناہید نے دو دن بعد کی ہی بکنگ کنفرم کردی، پھر میں پہنچا ایور نیو اسٹوڈیو کے باہر لگے ہوئے فلم نگر کے احتجاجی کیمپ میں ، وہاں یوسف خان ملے تو انہیں بتایا کہ ان کے احتجاجی جلسے کے لئے میں نے ایک سرکاری ہال بک کرا لیا ہے، اگر وہ لوگ وہاں پہنچ کر تقاریر کریں گے تو ان کی آواز موثر انداز میں فوجی جنتہ تک پہنچ سکے گی۔ یوسف خان آمادہ ہو گئے اور میرا شکریہ بھی ادا کیا، فلم انڈسٹری کے تمام چھوٹے بڑے نیشنل سنٹر کے ہال میں پہنچ چکے تھے، ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، اسٹیج پر ایورریڈی پکچرز کے نسیم صاحب، ڈائریکٹر ، فرید احمد، لئیق اختر، سنگیتا، یوسف خان اور شاعر کلیم عثمانی کے ہمراہ میں بھی براجمان تھا، میری نشست یوسف خان کے ساتھ تھی، ضیاء الحق کے خلاف تقریریں شروع ہوئیں تو کشور ناہید اپنے کمرے سے باہر نکل آئیں اور ہال کے درمیان میں آن کھڑی ہوئیں، یہ سرکاری ادارہ ہے، یہاں اس قسم کی تقریریں کر نے کی اجازت نہیں، یوسف خان اپنے مخصوص فلمی انداز میں انتہائی غصے میں بل کھاتے ہوئے کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے، کون ہو تم ؟(گ سے گندی گالی) میں نے سرعت سے یوسف خان کے کان میں سرگوشی کی، یہ سرکاری افسر ہیں اور اس ہال کی انچارج بھی، آپ خاموش رہیں وہ خود ہی چلی جائیں گی، اب کشور ناہید نے مجھے مخاطب کیا، تم نے تو کہا تھا نعیم ہاشمی صاحب کی یاد میں تقریب ہے، یہاں حکومت کے خلاف جلسہ کرا دیا تم نے، یوسف خان نے پھر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی ، مگر قدرے آہستگی سے، ایک طرف کشور ناہید اپنی ڈیوٹی کر رہی تھیں اور دوسری جانب یوسف خان، میں یوسف خان کےساتھ بیٹھا ہی اسی لئے تھا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ یہاں ہوگا کیا، فلم انڈسٹری کا ضیاءالحق کے خلاف یہ احتجاجی جلسہ بہت کامیاب رہا تھا، کسی صحافی نے کشور ناہید اور یوسف خان کے درمیان بد مزگی رپورٹ نہ کی اور میں اپنے مقصد میں کامیاب رہا۔