Thursday 29 August 2013

ٹھیکہ مینار پاکستان کی سفیدی کا

آج تو پستول کی نوک پر لوٹا جاتا ہے،اخبارات اور چینلز میں لاکھوں کے اشتہارات چھپوا کر نام نہاد ہاؤسنگ سوسائٹیز میں سستے پلاٹس اور مکانات کا لالچ دیکر لوگوں کو عمر بھر کی کمائی سے محروم کیا جاتا ہے، کسی اسکیم میں اپلائی کئے بغیر ہی لاٹری لگ جانے کی نوید سنائی جاتی ہے، لوٹ مار کی جدید دنیا میں اور پتہ نہیں کیا کیا ہو رہا ہے، اگر پتہ بھی ہو تو کوئی کیا کر
سکتا ہے،اس معاشرے میں جہاں قانون بنانے اورقانوں نافذ کرنے والے ہی لٹیرے ہوں۔ ،کمپیوٹر، انٹر نیٹ اور موبائل کے زمانے سے پہلے بھی ان اقسام کی وارداتوں کو فن کا درجہ حاصل تھا، بڑے شہروں میں بڑے بنارسی ٹھگ ہوا کرتے تھے، دیہات سے خریداری کے لئے شہر آنے والے سادہ لوگ اکثر ان شکروں کا شکار بنتے اور گاؤں واپسی کےلئے بھیک مانگتے نظر آتے،ایسے ہی دو آرٹسٹ ہمارے علاقے میں بھی تھے، دونوں جگری یار تھے، جونا اور بیبا۔ 
حرامزدگیاں بہت کرتے،لیکن تھے بڑے باادب، جونا اور بیبا کے گھروں میں فاصلہ صرف ایک گلی کا تھا،وہ دونوں صبح سویرے شکار کی تلاش میں نکل جاتے کوئی نہ کوئی بے وقوف انہیں مل ہی جاتا، سیانے کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہر انسان کی قسمت میں تین چار سو بے وقوف لکھے ہوتے ہیں، انحصار خود آدمی پر ہے کہ وہ اس سہولت کا فائدہ اٹھاتا ہے یا نہیں، بیبے کا گھر ہمارے مکان کے قریب تھا، ایک دوپہر جب میں رات کی ڈیوٹی کے باعث سویا ہوا تھا، گلی میں کسی کا دروازہ لگاتار کھٹکھٹائے جانے پر جاگ گیا، گلی میں دیکھا تو ایک آدمی بیبے کے گھر کے باہر کھڑا تھا،,,بھائی، گھر میں کوئی نہیں ہوگا، تم نے میری نیند خراب کردی، اس شخص نے جواب دیا,, جی گھر پر ہی ہیں ، کئی دنوں سے چکر کاٹ رہا ہوں،کوئی دروازہ نہیں کھولتا،،میرے استفسار پر اس آدمی نے جو کہانی سنائی وہ آپ بھی سن لیں،،
میں گلبرگ کے علاقے میں آٹے اور چینی کا ڈپو چلاتا ہوں، جونا اور بیبا میری دکان پر آئے، ان کے پاس ایک پوٹلی تھی،تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے ، پھر ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھیلی میری جانب بڑھاتے ہوئے بولے،چاچا،اس کا وزن کر دو،تھیلی ایک سیر وزنی نکلی ( اس وقت تک کلو میں تول نہیں ہوتا تھا) پھر بولے اب اس تھیلی کو کھولو بھی، تھیلی میں پیتل کے 1280پیسے تھے،ایک آنہ کے چار اور ایک روپے کے 64پیسے ، 1280 پیسوں کی کل مالیت تھی20 روپے،اب ان دونوں نے مجھ سے پوچھا ،، چاچا، کیا تم جانتے ہو آجکل پیتل کا کیا بھاؤ ہے؟ میں نے کہہ دیا کہ 40 روپے کلو،، کہنے لگے چاچا تم تو بہت ہشیار ہو، اس کا مطلب ہوا یہ کہ اگر پچاس ہزار روپوں کے ایک پیسہ والے سکے ہوں تو انہیں پیتل کے بھاؤ بیچ کر ایک لاکھ روپے مل سکتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے شاہ عالم مارکیٹ کے دکانداروں سے بات کر رکھی ہے، وہ ہمیں پیسے والے پیتل کے پیسے فراہم کر دیں گے، وہ دونوں مسلسل کئی روز تک میرے پاس آتے رہے اور ایک دن لالچ میں آکر انہیں 20ہزار روپے دیدیے، انکے گھروں کا بھی پتہ چل گیا ہے لیکن میرے ہاتھ نہیں آ رہے۔ کئی دنوں بعد راہ چلتے میری جونے اور بیبے سے ملاقات ہوئی تو اپنی عمر سے بڑے ہونے کے باوجود انکی سرزنش کی،وہ بے شرموں کی طرح ہنسنے ہوئےمجھے ایک ٹی اسٹال پر لے گئے اور کہنے لگے یہ تو کچھ بھی نہیں ہم تمہیں اس سےبڑی واردات کا احوال سناتے ہیں۔
, داتا دربار بازار کے قریب فٹ پاتھ پر ایک طوطا فال نکالنے والا بیٹھتا ہے ، ہم کئی دن اس کی روزانہ کمائی کا مشاہدہ کرتے رہے، وہ رات کو ستر اسی روپے گھر لے کر جاتا، دو ڈھائی ہزار ماہانہ سے کم نہ تھی اس کی آمدن،( اس دور میں اخبارات کے سینئر صحافیوں کی ماہانہ تنخواہ چار سو روپے سے زیادہ نہ تھی) ہم نے اس کے پاس بیٹھنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ دوستی کر لی۔ طوطا فال نکالنے والے نے ان دونوں کو بتایا کہ اس کے بچے مہنگے انگلش اسکول میں پڑھ رہے ہیں، یہ انکشاف سامنے آتے ہی ہم نے ,,اپنا منصوبہ،، تشکیل دیدیا، طوطا فال نکالنے والے کو ہم نے سمجھانا شروع کیا، چاچا جب تمہارے بچے اعلی تعلیم حاصل کرکے بڑے آدمی بن جائیں گے تو دنیا کو اپنے باپ کے بارے میں کیا بتایا کریں گے، کیا وہ لوگوں سے کہا کریں گے کہ ان کا باپ زمین پر بیٹھ کر طوطا فال نکالا کرتا تھا؟ فال نکالنے والا ڈر گیا، اس نے تو اس پہلو پر کبھی سوچا ہی نہ تھا، گھمبیر صورتحال سے نکالنے کے لئے ہم نے اس کی مدد کا وعدہ کیا، دو دن بعد پھر اس کے پاس پہنچ گئے, چاچا مبارک ہو تمہارا مسلہ حل ہو گیا ہے، ایک افسر نے وعدہ کیا ہے کہ تمہیں سرکاری ٹھیکیداری کا لائسنس بنا دے گا، تم ایک اور کمائی بھی شروع کر سکو گے اور گھر کے باہر اپنے نام کے ساتھ ٹھیکیدار لکھ کر نیم پلیٹ بھی لگا سکو گے، تمہارے محلے دار اور رشتے دار تمہاری بہت عزت بھی کیا کریں گے، افسر کو رشوت دینے کے لئے طوطا فال والے سے دس ہزار روپے ہتھیا لئے گئے ,پھر ہم نے اسے پہلا ٹھیکہ بھی دلا دیا ، دوہزار رشوت کے عوض، اسے مینار پاکستان پر رنگ روغن(سفیدی) کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا اور یہ بھی بتایا اسے کہ تم وہاں کام شروع کراؤ، سرکار ایک ہفتے بعد ٹھیکے کی پہلی قسط ادا کر دے گی۔
طوطا فال نکالنے والا ایک ریہڑے پر سامان لادے مینار پاکستان پہنچ گیا، اس کے ساتھ آٹھ دس کاریگر بھی تھے، جب ریہڑے سے سامان اترنا شروع ہوا تو مینار پاکستان کے سارے چوکیدار جمع ہو گئے یہ کیا اتار رہے ہو یہاں؟

جی سفیدی کرنے کا ٹھیکہ ملا ہے مینار پاکستان پر اوئے ماما ، یہ تو سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے، یہاں سفیدی کیسے کروگے؟