Wednesday 28 August 2013

عباس اطہر صاحب (3)

1974... جون،جولائی کےدن تھے، میں بعض نجی معاملات کے حوالے سے ذہنی دباؤ میں تھا،پریشان تھا، مگر ان معاملات کو کسی سے شئیر بھی نہیں کرنا چاہتا تھا، دماغ کی حدت سورج کی تپش سے بھی بڑھ گئی تھی ، تپتی سڑکوں پر چلتے چلتے پٹیالہ گراؤنڈ کے قریب پہنچ گیا تو خیال آیا کہ سامنے کاررواں ہوٹل ہے،جہاں ان دنوں شاہ جی عباس اطہر نے اپنا ہیڈ کوارٹر بنا رکھا تھا، دوسری منزل پر ان کے کمرے میں داخل ہوا تو شاہ جی کے ساتھ صادق جعفری اور خالد چوہدری بھی بیٹھے تھے، شاہ جی نے مجھ سے حال چال پوچھا ، میری آنکھیں بھیگ گئیں، وہ پوچھتے رہے کہ معاملہ کیا ہے؟ میں چپ رہا ، شاہ جی نے اس سے پہلے مجھے کبھی رنجیدہ نہیں دیکھا تھا،چھوٹے بڑے کی تمیز کئے بغیر ہر کسی سے پنگا ، ہر کسی سے مذاق میرا وطیرہ تھا،، شاہ جی کافی دیر مجھے تکتے رہے ، پھر یکا یک اٹھ کھڑے ہوئے، میرا ہاتھ پکڑا اور فرمانے لگے،، آج خاور میرے ساتھ میری سہیلی کے گھر جائے گا،، شاہ جی کی سہیلی کو ان دنوں کون نہیں جانتا تھا، وہ جانی پہچانی رقاصہ امروزیہ تھی،جس کے چاہنے والوں کی تعداد ہزاروں میں تھی، سارے شہر میں چرچا تھا کہ شاہ جی امروزیہ کی زلف کے اسیر ہیں اور وہ بھی ان سے عشق فرماتی ہے، شاہ جی نے صادق جعفری کو ہدایت کہ وہ نیچے سڑک جا کر رکشہ روکے، خالد چوہدری بھی سلام دعا کرکے باہر نکل گیا، اب میں اور شاہ جی ہوٹل کی سیڑھیوں پر تھے، انہوں نے نیچے اترتے ہوئے پوچھا، تمہاری جیب میں کتنے پیسے ہیں؟ میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور سو روپے کا اکلوتا نوٹ ان کے سامنے کر دیا، شاہ جی نے وہ نوٹ اپنی جیب میں منتقل کرتے ہوئے کہا،، کل واپس لے لینا،،، کاررواں ہوٹل کے دروازے پر صادق جعفری رکشہ روکے کھڑا تھا، شاہ جی تیزی سے آگے بڑھے اور رکشہ میں بیٹھ گئے، اس سے پہلے کہ میں بھی ان کے ساتھ سوار ہوتا، رکشہ چل پڑا ، میں حیران کھڑا رکشے کو ہال روڈ سے جی پی او چوک کی جانب مڑتے ہوئے دیکھتا رہ گیا۔اگلے روز شام چار بجے کے قریب میں ریگل چوک میں امیر حسین کی شہرہ آفاق بک شاپ،، کلاسیک،، پر کھڑا تھا کہ شاہ جی پریس کلب سے میری جانب آتے دکھائی دیے، وہ میرے قریب آ کر رکے،سو روپے کا نوٹ مجھے تھمایا اور خاموشی سے آگے نکل گئے..