Saturday, 31 August 2013

محبوبہ پیتل کی ہونی چاہئیے۔۔۔

منیر نیازی کہا کرتے تھے ، محبت ایک بار نہیں بار بار ہوتی ہے، جو کہتے ہیں محبت صرف ایک بار ہوتی ہے، وہ کسی خطرناک عارضے میںمبتلا ہوتے ہیں، انہیں کسی اسپیشلسٹ کے پاس جانا چاہئیے، میں نیازی صاحب کی اس منطق سے کبھی متفق نہیں رہا، باوجودیکہ خود کئی محبتیں جوڑیں، کئی محبتیں توڑیں،میرا مشاہدہ ہے کہ ہر دل میں میں
ایکہستی ایسی بستی ہے جو اس کی پہنچ سے دور، بہت دور ہوتی ہے یا دور چلی جاتی ہےمارلن منرو اور مدھوبالا جیسی عورتیں جن آنکھوں میں سماجاتی ہیں، وہ آنکھیں جب ہمیشہ ۔کے لئے بند ہوجاتی ہیں تب بھی ان آنکھوں سے وہ پرچھائیاں چرائی نہیں جا سکتیں یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب دنیا میں فلم اسکرین کی ساحرائیں نوجوانوں کے دلوں پر راج کیا کرتی تھیں اور انکی آئیڈیل ہوا کرتی تھیں، جوان تو جوان، بڈھے بھی اپنی پسندیدہ ہیروئن کی تصویر بٹوے میں رکھا کرتے تھے، 50اور60 کے عشرے کے جو لوگ اب تک زندہ ہیں، ان میں سے لاکھوں ایسے ہوں گے جن کی تلاشی لی جائے تو نوتن،سادھنا، نرگس ، وجنتی مالا، مینا کماری، مدھو بالا، نمی، ہیما مالنی، نیلو، نئیر سلطانہ، صبیحہ، مسرت نذیر، شمیم آراء، زیبا، شبنم، دیبا،آسیہ ، نغمہ یا فردوس میں سے کسی ایک کی فوٹو ضرور برآمد ہو گی، اپنی پسندیدہ ہیروئن کو جیب میں رکھنے کا رواج آج کل نہیں، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اب وہ جادوگرنیاں کہاں ؟ شو بز کی عورتوں کے بارے میں ان کے عاشقوں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ گوشت پوست کی نہیں پلاسٹک کی عورتیں ہیں، جو کبھی کھانستی ہیں نہ ڈکار لیتی ہیں، یہ عشاق سمجھتے ہیں ،انکی محبوب ایکٹرس باربی ڈول کی مانند ہوگی جس کے ناخن نہیں بڑھتے، جو ٹوائلٹ نہیں جاتی جسے کبھی تھکاوٹ نہیں ہوتی، جسے کبھی نزلہ زکام ، بخار بھی نہیں ہوتالوگوں کی بات چھوڑیے۔ میں اپنی بتاتا ہوں، ایک دن سنگیتا کے گھر کے صحن میں بیٹھا تھا کہ اچانک اس نے بڑے زور سے چھینک ماری، میں سہم گیا ،ابھی سنبھلا ہی نہ تھا کہ اس نے گلے کی بلغم نکالنے کے لئے پوری قوت سے کھنگورا مارا، میں اور سہم گیا،ایسا لگا جیسے امریش پوری کے گھر آ گیا ہوں تین چار دیائیاں پہلے تک طول و ارض سے لوگ اپنی فلمی محبوباؤں کی ایک جھلک دیکھنے نگار خانوں کے باہر کھڑے ہوا کرتے تھے، نگار خانوں کے چوکیدار اور ملازمین رشوت لے کر ان عاشقوں کو ان کی محبوب ایکٹرسوں کی ایک جھلک دکھلا دیا کرتےتھے ، ان فلمی محبوباؤں میں رانی نے بھی لاکھوں دلوں پر کئی سال راج کیا، حسن طارق کی فلموں میں رانی کے ڈانسز نے اس کے مداحوں کو بہت متاثر کیا، رانی کا ایک ایک پوز ایک ایک انگ دوسری ہمعصر ایکٹرسوں کے پورے پورے ڈانسز پر بھاری ہوتا، طوائف کے کرداروں نے تو رانی کو دل کی رانی بنا دیا،حالانکہ اس کا تعلق مزنگ کے ایک انتہائی شریف اور غریب گھر سے تھا، اس کاباپ مختار بیگم کا ڈرائیور تھا،غریب ڈرائیور نے اپنی بیٹی اچھی تربیت کی خواہش میں مختار بیگم کی جھولی میں ڈال دی تھی، رانی طبلے سارنگیوں کے سائے میں جوان ہوئی، اسے بہترین اساتذہ نے رقص کی تعلیم دی، فلم نگر میں آئی تو منحوس قرار پائی لیکن پھر قدم ایسے جمے کہ لوگ عش عش کر اٹھے، حسن طارق سمیت تین چار خاوند بھگتانے ور ایک بیٹی کی ماں بن جانے کے باوجود رانی کے چاہنے والوں کی تعداد کم نہ ہوئیایک دن رانی کا ایک عاشق باری اسٹوڈیو کے گیٹ پر پہنچا، کئی گھنٹوں کی خواری کے بعد اسٹوڈیو کے ایک ملازم نے مٹھی گرم کرکے اسے رانی کی ایک جھلک دکھانے کی حامی بھری اور اسٹوڈیو کے اندر لے گیا، ایک فلور پر مظہر شاہ کی ذاتی فلم ،، محرم دل دا،،، کی شوٹنگ ہو رہی تھی، رانی سیٹ پر موجود تھی، اسٹوڈیو ملازم پروڈکشن مینجر کا ترلہ کرکےرانی کے اس عاشق کو سیٹ پر لے گیا، اگلے شاٹ کی تیاری ہو رہی تھی۔ رانی ایک ہاتھ میں شیشہ پکڑے فلور کے ایک کونے میں کھڑی تھی ، اس کا پرستار بت بنا اسےدیکھ رہا تھا. اچانک رانی نے بائیں ہاتھ کی انگلی ناک میں ڈالی سکتے میں کھڑے اس کے پرستار نے اسٹوڈیو ملازم کی جانب منہ کرکے زوردار چیخ ماری۔ بھائی جی، رانی بھی ناک سے چوہے نکالتی ہے؟