Thursday 29 August 2013

عبدلستار ایدھی

کتنے ذلت آمیز تھے بچپن کےدن،اندھیرا ہی اندھیرا تھا ہر سو ،بھوک لگتی تو کوئی کھانا کھلانے والا نہ ہوتا، بھوک سےنڈھال ہو جاتے تو کسی گلی میں لگے نل سے پانی پی لیتے، یا فقیروں کی طرح کسی رشتے دار کے گھر چلے جاتے، ہمیں دیکھ کر کہا جاتا کہ بچی کھچی روٹی ہے تو دیدو ان یتیموں کو
، کہیں سے مل جاتی،کہیں سےدھتکارا جاتا، روٹی نہ ہو تو بھوک لگتی ہے،، ماں باپ مر گئے تو کسی رشتے دار نے سہارا نہ دیا تھا، پندرہ سال پہلے عبدلستار ایدھی میرے ساتھ بیٹھے بڑی روانی سے اپنی زندگی کے اوراق الٹ رہے تھے،میں نے دو سوال سنبھال رکھے تھے ایدھی صاحب کے لئے، ایک دن وہ اچانک میرے آفس آگئےتو میں سب کام چھوڑ کر ان کی جانب متوجہ ہو گیا ،ہمت باندھ کر وہ دو سوال بھی کر ہی دیے،سوال تھے تو سیدھے سادے تھے، مگر آسان نہ تھے، سلام ایدھی صاحب کی سادگی کو، انہوں اپنا سب کچھ کھول دیا میرے سامنے۔ ایدھی صاحب سے میں پہلی بار ملا تھا کراچی پریس کلب میں،فریڈم آف پریس کی تحریک میں حیدر آباد جیل سے رہائی کے بعد میں کراچی پریس کلب پہنچا تھا، کراچی پریس کلب میں تو الو بول رہے تھے، یوں لگتا تھا جیسے کوئی جن سارے صحافیوں اور اسٹاف کو اٹھا کر لے گیا ہے، ہو کے اس عالم میں ایدھی صاحب وہاں پہنچ گئے، وہ مجھے اپنے ایدھی سنٹر لے گئے ، جہاں سٹریچر پر لٹا کر مجھے گلوکوز کی بوتل لگائی گئی اور جوس پلانے کے بعد کھانا بھی کھلایا گیا، میں بہت ممنون ہوا ایدھی صاحب کا اس واقعہ کے کئی سال بعد ایک بار نیو یارک گیا تو میرے ایک دوست نے ائیر پورٹ پر لیموزین کے اندر بیٹھے ایک نوجوان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایدھی صاحب کا بیٹا ہے اور یہاں ایک کمپنی میں ڈرائیور ہے،میرے اس دوست کا دعوی تھا کہ اس لڑکےکے نام سے مقامی بنکوں میں ایدھی سنٹر کی بڑی رقوم جمع ہیں لیکن یہ لڑکا مزدوری کرکے اپنی گزر بسر کرتا ہے،۔ پھر ایک بار کراچی کے قومی اخبار میں ایدھی صاحب کی فوٹو دیکھی، وہ دولہا بنے ہوئے تھے ان کے ساتھ تھی انکی جواں سال دلہن ، اخبار نے لکھا تھا کہ اہدھی صاحب کی ایک شادی شدہ ملازمہ نےخاوند کی ملی بھگت سے پہلے ایدھی صاحب کی ملازمت حاصل کی ،پھر انہیں اپنے جال میں پھانس کر ان سے شادی کر لی، شادی کے بعد اس خاتون نے ادارے کے اختیارات پر قبضہ کیا اور ایک کروڑ کا فراڈ کرکے بھاگ گئی۔۔ ایدھی صاحب کی اس غلطی نے ان کی انتہائی صابر اور شاکر اہلیہ بلقیس بیگم کو بہت صدمہ پہنچایا تھا۔ میرا ایدھی صاحب سے ایک سوال تو ان کی دوسری شادی والا واقعہ ہی تھا،ایدھی صاحب نے اسے اپنی ایک بڑی غلطی قرار دیا اب ،اس پر مزید بات کی گنجائش ہی نہیں رہی تھی۔ میرا دوسرا سوال تھا ،، آپ کے ادارے کے نام پر بنکوں میں کثیر رقوم موجود ہیں، آپ ان پیسوں سے پورے ملک کا نقشہ بدل سکتے ہیں، پورےعوام کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے، پوری دنیا کے لوگ آپ پر بھروسہ رکھتے ہیں وہ آپ کو صادق اور امین مانتے ہیں لیکن ان کےعطیات بنکوں منجمد ہیں ؟ ایدھی صاحب نے کہا ،، آپ درست کہتے ہیں ، لوگ مجھ پر اندھا یقین رکھتے ہیں،انہیں دنیا بھر سےایسے لوگ بھی عطیات دیتے ہیں جن کے ناموں کا بھی انہیں علم نہیں ہوتا، بے شمار لوگ عطیات ہی اس شرط پر دیتے ہیں کی ان کی شناخت نہیں پوچھی جائے گی, میں خود بھی دنیا کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہں پہنچاؤں گا۔۔ ان کا ایک ایک پیسہ میرے پاس امانت ہے۔ تو پھر آپ بڑی سطح پر فلاحی منصوبے کیوں نہیں شروع کرتے؟ میں ان پڑھ ہوں۔ آپ ایک ٹیم بنائیں،، لوگوں پر اعتبار نہیں اپنے لوگوں کا ہی کوئی گروپ بنا لیں ڈرتا ہوں کہ کوئی خیانت نہ کر جائے، چلیں ساری دنیا کو چھوڑ دیں، آپ اپنے قریبی رشتے داروں کی ہی ایک ٹیم بنا لیں رشتے داروں پر بھی اعتبار نہیں ماں باپ بچپن میں مر گئے ،ہم بے سہارا ہو گئے، کسی رشتے دار نے کوئی مدد نہ کی، ہم رشتے داروں کے گھر کھانا مانگنے جایا کرتے تھے، ایک رشتے دار کی کوئی شے گم ہو گئی تو اس نے الزام مجھ پر لگا دیا پھر کیا تھا ، میں کسی بھی رشتہ دار کے گھر جاتا تو کہا جاتا، لو آ گیا ایدھی چور، میں ایدھی چور کے اسی الزام ،اسی تہمت کے ساتھ پروان چڑھا۔