Friday 30 August 2013

خدا کی بستی اور شوکت صدیقی

یاد نہیں کہ خدا کی بستی کے عنوان سے شوکت صدیقی صاحب کا ناول پہلے آیا تھا یا ٹی وی سیریل آن ائیر ہوئی تھی، ،،بس اتنا یاد ہے کہ اس ڈرامے کی ساری قسطیں بھی دیکھیں اور ناول بھی ایک سے زائد مرتبہ پڑھا ، اس ناول کے کئی کردار ہمارے ارد گرد کے زندہ کردار تھے
، لگتا تھا شوکت صدیقی صاحب نے ہماری کہانی ہی لکھ دی ہے ،وہ شدید گرمی کا ایک دن تھا، میں اور میرا دوست نعیم پی ای سی ایچ ایس کراچی کی سڑکوں پر مٹر گشت کر رہے تھے، اسی ایریا میں روزنامہ مشرق کے دفاتر کے ساتھ اخبار خواتین کا آفس بھی تھا، حال ہی میں انتقال کر جانے والے ولایت علی اصلاحی اس ہفت روزہ کے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے ، میں انہیں کوئی افسانہ یا کہانی دیتا تو وہ مجھے ایڈوانس پچاس روپے دلوا دیا کرتے تھے، اس روز بھی میں اصلاحی صاحب سے ملنے اس ایریا میں گیا تھا، اچانک ایک سائن بورڈ دیکھ کر میں رک گیا،یہ ہفت روزہ الفتح کا دفتر تھا، میرے علم میں تھا کہ الفتح کے ایڈیٹر محمود شام ہیں اور ان کے ساتھ مجلس ادارت میں ارشاد راؤ اور وہاب صدیقی ( فوزیہ وہاب والے نہیں) شامل ہیں۔۔۔۔ میں اپنے دوست کو لے کر اس بلڈنگ کی سیڑھیاں چڑھنے لگا، دوسری منزل پر الفتح کے دفتر کا بورڈ آویزاں تھا، اندر داخل ہوئے تو عجیب منظر دیکھا، اس ایک کمرے کے دفتر میں چاروں اطراف شوکت صاحب کے ناول خدا کی بستی کی جلدیں بکھری پڑی تھیں ، اور ایک آدمی شدید گرمی میں پنکھے کے بغیر چادر تانے چار پائی پر سویا ہوا تھا، میں نے نعیم سے کہا کہ واپس چلتے ہیں، اس نے ہاں کہتے ہوئے وہاں سے خدا کی بستی کی چار جلدیں اٹھائیں اور میرے ساتھ واپس چل پڑا، میں نے اس سے کہا کہ ایک جلد چرا لیتے ، یہ چار کتابیں کیا کرو گے، ؟ اس نے جواب دینے کی بجائے اشارہ کیا کہ صبر کرو تھوڑی دیر بعد ہم فٹ پاتھ پر سجی ایک بک شاپ پر کھڑے تھے، نعیم نے خدا کی بستی کی چاروں جلدیں دوکاندار کو بیچ دیں، اور ان پیسوں سے شاندار لنچ کرایا، اس واقعہ کے بعد بھی کئی بار اس نے یہ واردات دہرائی ، نعیم نے بتایا کہ وہ جب بھی وہاں جاتا ہے، وہ نامعلوم آدمی چادر تانے سویا ہوا ہی ملتا ہے، میں نے اس سے کہا کہ اب میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا وہاں ، اور اس آدمی کو جگا کر دیکھیں گے کہ وہ ہے کون ؟ وہاں پہنچے تو اس شخص کو خلاف معمول جاگتے ہوئے پایا پاجامے کے اوپر بنیان ، آنکھوں پر عینک اور منہ میں پان، کمزور سے جسم کے ساتھ وہ لیفٹ کا کوئی دانشور لگتا تھا یہ تھی ارشاد راؤ سے پہلی ملاقات، بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں ارشاد راؤ کو وزیر اعظم ہاؤس تک براہ راست رسائی حاصل رہی، پھر انہیں یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن میں اچھی ملازمت دی گئی ۔ رحمت شاہ آفریدی نے بھی ان پر نوازشیں کیں، سعدیہ دہلوی جب بھی دلی سے لاہور آتی، ارشاد راؤ بھی ان دنوں لاہور میں ہی دکھائی دیتے ۔ ایک بار نوٹوں سے بھرا ہوا ایک بریف کیس لے کر لاہور کے صحافیوں سے ملنے بھی آئے تھے، میرے ساتھ بہت بے تکلفی کے باوجود ارشاد راؤ نے ،، سرکاری معاملات میں کبھی مجھے اعتماد میں نہ لیا، یہ ان کا بڑا پن تھا۔ 1973میں جب بھٹو صاحب نے کراچی سے روزنامہ مساوات کا اجراء کیا تو مجھے فلم ایڈیٹر کی نوکری مل گئی ، خدا کی بستی اور جانگلوس جیسی تحریروں کے خالق شوکت صدیقی ہمارے چیف ایڈیٹر بنے، اتنے بڑے آدمی کے زیر سایہ صحافت کرنا میری زندگی کا بہت بڑا اعزاز بنا، میں ان کے لئے ایک خاص شاپ سے روزانہ پان لے کر آفس جایا کرتا تھا، میں نے لاہور ٹرانسفر کی درخواست کی تو شوکت صاحب بہت اداس ہوئے، مجھے اس شرط پر لاہور تبدیل کیا گیا کہ میں کراچی ایڈیشن کے لئے باقاعدہ لکھا کروں گا، میں نے کراچی ایڈیشن کے لئے لکھنے کا وعدہ پورا نہ کیا تو شوکت صاحب نے ایک دن عباس اطہر صاحب کو فون پر حکم دیا کہ خاور کو واپس کراچی ٹرانسفر کر دوعباس اطہر نے وجہ جاننا چاہی تو شوکت صاحب نے کہا کہ اس نے میری ہدایت پر عمل نہیں کیا، تم اسے ٹرین پر کراچی بھجواؤ۔ ٹرین جب ملتان پہنچے گی تو میں اسے ڈس مس کردوں گا یہ تھا در حقیقت شوکت صدیقی صاحب کا پیار، وہ ایک بڑے ادمی تھے اب تھوڑی سی بات ہوجائے محمود شام کے حوالے سے تھوڑی سی اس لئے کہ ان پر کسی وقت بہت تفصیل سے لکھوں گا.آزادی صحافت کی تاریخی ملک گیر تحریک میں محمود شام ، ارشاد راؤ اور وہاب صدیقی میرے ساتھ حیدر آباد جیل کے ڈیتھ سیل میں بند رہے، پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ اللہ نے محمود شام کو ہمارا باس بنایا، باتیں کچھ کچھ تلخ بھی ہیں، لیکن ہونگی ضرور۔۔۔۔ وعدہ رہا۔