Wednesday 28 August 2013

حمید اختر صاحب

سفید پوش کسے کہتے ہیں؟ اور سفید پوشی ہوتی کیا ہے؟ یہ میں نے سمجھا اور جانا پہلے اپنے باپ سے اور پھر حمید اختر صاحب سے،یہ ایک دن میں سمجھ آجانے والی بات نہیں، ایک عمر لگتی ہے عقل کےآتے آتے، میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ مجھے صحافت میں آنے کا مشورہ نہیں، حکم دیا تھا
پروفیسر ایرک سپرین نے ، انہوں نے آئی اے رحمان صاحب کے نام ایک رقعہ دیا تھا، یہ 1970تھا، جب ذوالفقار علی بھٹو کے اخبار مساوات کے مقابل روزنامہ آزاد کا اجراء ہوا تھا، آزاد کے نکلنے کا بنیادی سبب تو وہ بے روزگار صحافی تھے، جنہیں پی پی ایل سے نکالا گیا تھا، مساوات کا مد مقابل اس لئے کہ آزاد کا جھکاؤ عوامی لیگ کی طرف تھا، اور اس اخبار کا موقف یہ تھا کہ اکثریت بھٹو صاحب کو نہیں شیخ مجیب کو ملی ہے، اس لئے وزیر اعظم بھی شیخ مجیب کو ہونا چاہئیے، میں آج تک اسی موقف کا حامی ہوں، اگر شیخ مجیب کی اکثریت کا احترام کیا جاتا تو آج کا پاکستان ایک مختلف پاکستان ہوتا، پاکستان دو لخت ہوا تھا تو آج کے حالات میں کئی لخت بھی ہو سکتا ہے ، ہمیں حقائق کا سامنا کرنا چاہئیے ، کچھ نہیں ہوگا کی رٹ لگا کر اور اللہ پر ڈوری چھوڑ کر اپنی آنکھیں بند نہیں کر لینی چاہئیں۔۔ 
جی تو بات ہو رہی تھی حمید اختر صاحب اور روزنامہ آزاد کی، پروفیسر ایرک سپرین کے رقعے پر مجھے آئی اے رحمان صاحب نے بچوں کےصفحہ کا انچارج بنا دیا ، آزاد اخبار کے تین ایڈیٹر تھے، عبدللہ ملک ، آئی اے رحمان اور حمید اختر، لارنس روڈ پر واقع ،، آزاد،، کے تمام شعبے چھوٹے چھوٹے لکڑی کے کیبنز میں بنے ہوئے تھے، ایک ڈربہ نما کیبن میں، خواتین کے روزانہ صفحے کے لئے کام کرنے والیاں نئیر عباسی، پروین ملک اور فوزیہ نازلی(حمید اختر صاحب کی آدھے گھر والی) بیٹھتی تھیں مجھے بھی اسی ڈربے میں ایک کرسی دیدی گئی، میرے وہاں بیٹھنے پر کسی خاتون کو اعتراض نہیں ہوا کیونکہ میں واقعی ان دنوں ان کے لئے کاکا ہی تھا، ہمارے سامنے والا کیبن ایڈیٹوریل والوں کا تھا ، جہاں اسرار زیدی مرحوم اور اطہر ندیم مرحوم بیٹھا کرتے تھے، ہمارے ساتھ والا کیبن مرحوم حمید اختر کا تھا ، وہ اداریہ لکھتے تھے، دوپہر کو حمید اختر صاحب کی بیگم اپنی بیٹیوں کو اسکول سے لے کر دفتر آجاتیں اور پھر یہ فیملی لنچ کے لئے گھر روانہ ہوجاتی، آزاد کے آفس کے باہر شیخ ریاض کرسی پر بیٹھے نظر آتے تھے، معذور شیخ ریاض شیخ حسام الدین(مجلس احرار والے) کے صاحبزادے تھے اور آزاد کا ڈیکلریشن اب ان کے نام تھا ، میں پرانی کتابوں کی تلاش میں اکثر پرانی انار کلی چلا جایا کرتا تھا، فٹ پاتھ پر بنی ہوئی بک شاپس پر اکثر لوگ مفت مطالعہ کرتے نظر اتے تھے، ایک دن مجھے وہاں سےجو کتاب ملی جو ماؤژے تنگ کے بچپن زندگی اور جدوجہد کے بارے میں تھی، میں وہ کتاب آفس لے آیا، کتاب میں ماؤ کی نوعمری کی ایک تصویر ایسی بھی تھی ،، وہ کرسی پر بیٹھے تھے، ان کے آگے ایک گول میز تھی اور وہ لکھ رہے تھے، تصویر کے ساتھ مضمون تھا، جس کے مطابق ماؤ چھوٹی عمر میں بچوں کی کہانیاں لکھا کرتے تھے، میں نے آفس کے ایک فوٹو گرافر سے ملاقات کی اور اس سے استدعا کی بالکل اس جیسی ایک تصویر میری بنا دو، میز کرسی ڈھونڈی گئی، لوکیشن کا انتخاب ہوا ۔۔۔ اور تصویر بن گئی۔ میں نے اپنے نام سے چھاپنے کے لئے ماؤ کے بچپن پر مضمون میں ردوبدل کیا، اور دونوں تصویریں ساتھ ساتھ لگا کر اسے بچوں کے صفحے پر چھاپ دیا، اخبار چھپ گیا تو مجھے پتہ چلا کہ حمید اختر صاحب مجھے پوچھ رہے تھے، میں ان کے کیبن میں چلا گیا، اس دن کا اخبار ان کے سامنے تھا،، یہ کیا چھاپ دیا تم نے؟ میں نے جواب دیا،، ماؤ ژے تنگ کے بچپن پر مضمون لکھا ہے،،اور یہ تصویر؟۔۔۔ماؤژے تنگ کی ہے، میں اس تصویر کا نہیں دوسری کا پوچھ رہا ہوں کہ وہ کس خانہ ٹنگ کی ہے؟ انہی دنوں حمید اختر صاحب کی پروڈیوس کی ہوئی فلم ،، پرائی آگ،، ناز سینیما میں ریلیز ہوئی تو میں نے اپنے کئی جاننے والوں کو بتایا کہ ندیم اور شمیم آراء کی یہ فلم ہمارے ایڈیٹر حمید اختر نے بنائی ہے ، بات میرے حلقہ احباب میں پھیل گئی تو لوگوں نے مجھ سے فلم کے پاس مانگنا شروع کر دیا، میں نے حمید اختر صاحب سے پاسز مانگے تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اس فلم کے حقوق فروخت کر چکے ہیں, پاسز مانگنے والوں کی تعداد اور تقاضے بڑھنے لگے، ایک دن ایک جاننے والی فیملی کی چار پانچ لڑکیوں نے مجھے آگاہ کیا کہ وہ میرے ایڈیٹر کی فلم کا تین سے چھ والا شو دیکھنے ناز سینما جا رہی ہیں اور میں انہیں پاسز پہنچا دوں، میں بری طرح پھنس گیا، بار بار حمید اختر صاحب کے پاس جاتا کہ وہ میری مدد کریں ۔ لڑکیاں سینما ہاؤس پہنچ چکی تھیں ، ان کا بار بار فون آ رہا تھا، وہ میری منتظر تھیں ، میں بہانے پہ بہانہ بنا رہا تھا، جیب میں پیسے بھی نہ تھے ، عزت کا بھی سوال تھا، بالآخر میں نے فیصلہ کیا کہ پاسز نہیں تو نہ سہی ، حمید اختر صاحب کو مجھے پانچ ٹکٹوں کے پیسے دے دینا چاہئیں، میری جدوجہد رنگ لائی اور حمید اختر صاحب نے پیسے دے ہی دیے۔۔۔۔ سالہا سال بعد جب عقل آئی تو میں خود سے شرمندہ رہا کہ انہوں نے فلم کی ٹکٹس کے پیسے کیسے دیے ہونگے، ان کی جیب میں کیا اور پیسے ہونگے؟ وہ روپے جو انہوں نے مجھے دیے ان کی کن کن ضرورتوں کے لئے ہونگے؟ 
انجمن ترقی پسند مصنفین کے لئے ، اردو ادب کے لئے ، صحافت اور فلم کے لئے ان کی خدمات اپنی جگہ، ساحر لدھیانوی، عصمت چغتائی، سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، منٹو، کرشن چندر ، جوش ، یا سبط حسن سے انکی دوستیاں یارانے اپنی جگہ، میں ان کے بارے میں صرف یہ بات سمجھ سکا ہوں کہ سفید پوش حمید اختر نے جس وقار اور خود داری سے اپنے بچوں کو پالا پوسا اس کی مثال کہیں کہیں ہی ملتی ہے۔ عمر بھر کرائے کے مکان میں رہنے والے حمید اختر نے کبھی، کسی کے سامنے اپنے نجی مسائل نہ چھیڑے، وہ جب بھی ملے مساوات .کی بات کی، وہ طبقاتی جدوجہد کی عملی تصویر تھے۔۔