Saturday 31 August 2013

منی اب بھیک مانگتی ہے

نعیم ہاشمی صاحب ہمارے دادا دادی کی اکلوتی اولاد تھے، لیکن اس اکلاپن کا احساس نہ کبھی انہیں ہوا نہ کبھی ہمیں، وجہ تھے ہمارے وہ ڈھیر سارے چاچے جو روزانہ دن رات ہاشمی صاحب کے ارد گرد رہتے، ہاشمی صاحب گھر میں ہوں یا اپنے پروڈکشن آفس میں، وہ ہوٹل کنگ سرکل میں بیٹھے ہوں یا کسی فلم کی شوٹنگ میں مصروف ہوں، ہمارے دو، چار، چھ چاچے ضرور انکے ہمراہ رہتے، چاچوں کے اس سیلاب میں

سارے نام تو اب یاد نہیں رہے، البتہ کچھ چاچے ایسے تھے جن کی یاد کبھی نہیں بھلائی جا سکتی،خاص طور پرچاچا جی شیخ حمید تو ابا جی کے اتنے قریب تھے کہ سارا لاہور انہیں ہاشمی صاحب کا بھائی سمجھتا، شیخ صاحب عمومآ ان دنوں اچ شریف سے فیملی سمیت لاہور آتے جب یہاں کوئی کرکٹ میچ ہو رہا ہوتا، یہ دونوں دوست ایک جیسے اسٹائل میں ایک جیسا لباس پہن کر گھر سے نکلتے تو سب کی توجہ کا مرکز بن جاتے، ہمارے دوسرے خاص خاص چچاؤں میں شامل تھے۔ امرت (جو بعد میں ہندوستان چلے گئے)چاچا شیدا (ایم اے رشید) جو ہاشمی صاحب کو ڈیڈی کہتے تھے، چاچا جاجی( نعمان اعجاز کے والد) حامد گنجا ایکٹر، ایم جے ٹھاکر،کے کے،مسکین لاہوری، حفیظ قندھاری،ملک رحیم، قتیل شفائی، صفدر ( صفدر ایک بہت ہی خوبصورت انسان تھے، موسیقی میں دلچسپی تھی، ہاشمی صاحب کی نامکمل فلم ،، چشم بددور،، کے فنانسر بھی تھے) محمد حسین کنول،اسٹیفن اور چاچا نثار وغیرہ وغیرہ۔۔ ہمارے کئی چاچا تو ہاشمی صاحب سے اتنی محبت بیان کرتے کہ ہم حیران رہ باتے، مثلآ ایک چاچا کہتے کہ انہوں نے اپنے سرہانے ہاشمی صاحب کی تصویر آویزاں کر رکھی ہے تاکہ جب بیدار ہوں سب سے پہلے ہاشمی صاحب کا چہرہ دیکھیں،

چاچا نثار کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ چھوٹی عمر میں پارٹیشن کے خون خرابے کے دوران ہمارے دادا کو ملےتھے،ان کی سنتیں نہیں ہوئی تھیں، خیال تھا کہ شاید کسی ہندو فیملی کا بچہ تھے جو فسادات میں قتل ہو گئی، ہمارے دادا انہیں گھر لے آئے، ہنر مند بنایا جب کمانے کے قابل ہوئے تو اپنے رہنے کا علحدہ بندوبست کر لیا، چاچا نثار ہر ہفتے کی رات ہمارے گھر آتے، اتوار ہم لوگوں کے ساتھ گزار کر پیر کی صبح اپنے کام پر چلے جاتے، وہ ابا جی کو باؤ کہا کرتے تھے،ان کے ہاتھ میں صافی کی ایک بوتل اور دو چقودرے لازمی ہوتے، وہ کہا کرتے کہ ان دونوں چیزوں کے استعمال سے انسان کاخون صاف ہوجاتا ہے، ہم چاچے نثار سے پوچھا کرتے کہ وہ ہفتے کے باقی چھ دن کہاں رہتے ہیں؟ کھانا کہاں سے کھاتے ہیں؟ وہ جواب دیتے۔۔۔ اوئے جہاں میں کام کرتا ہوں وہاں قریب ہی اختری کا گھر ہے،وہ بڑے شاندار کھانے بناتی ہے،، میں اسے پیسے دیتا ہوں، اسکی ایک بیٹی بھی ہے منی نام ہے اس کا، چاچا نثار اختری بیگم کا تذکرہ اتنی کثرت سےکرتے کہ وہ خاتون ہمارے گھر کا فرد ہی محسوس ہونے لگی،،چاچا نثار ایک دن اختری اور اسکی بیٹی منی کو ہمارے آفس لکشمی چوک لے آئے، وہ کہہ رہے تھے کہ اختری بیگم نعیم ہاشمی کی فلمیں شوق سے دیکھتی ہیں ، میں انہیں ہاشمی صاحب سے ملوانےلے آیا ہوں، پھر ایک دو بار چاچا نثار مجھے اختری بیگم کے گھر لے گئے، اختری بیگم کی رہائش مال روڈ پر انڈس ہوٹل کے ساتھ والی بلڈنگ کی چھت پر تھی۔ کھلی چھت پر چھوٹا سا کمرہ تھا،کھانا بنانے اور نہانے دھونے کا انتظام کھلی چھت پر تھا اس بلڈنگ کے عقب میں وکٹوریہ پارک میں اینگلو انڈینز کثرت سے رہتے تھے۔اینگلو انڈین لڑکیاں نیکریں پہنے سائیکلوں پر گھومتی دکھائی دیتیں۔

وقت گزرتا گیا،سب کچھ بدلتا گیا، میں کئی بار اکیلا بھی اختری بیگم سے ملنے گیا، منی پڑھتی پڑھتی گرائجویشن کر گئی، ایک دن میں نے اسے بنک اسکوائر کے قریب پیدل چلتے دیکھا، وہ سانولے رنگ اور سڈول جسم کی ایک جاذب نظر دوشیزہ بن چکی تھی، لوگ اگر اسے راہ چلتے دیکھ کر راستہ نہیں بھولتے تھے تو کم از کم اس کی جانب دیکھتے ضرور تھے،منی نے بتایا کہ اسے بنک آفیسر کی ملازمت مل گئی ہے، وہ پیدل ہی آفس آتی جاتی ہے۔ کئی سال اور گزر گئے، میرا مال روڈ پر مٹر گشت کم ہوتے ہوتے تقریبآ ختم ہی ہو گیا، کئی سال پہلے میں میاں اعجاز الحسن اور پرویز صالح کے ساتھ اختری بیگم والی بلڈنگ میں گیا، وہاں پہلے فلور پر، پرویز صالح نے وکالت کے لئے دفتر بنارکھاتھا،میاں اعجاز اور پرویز دونوں قومی محاذ آزادی کے پلیٹ فارم پرمعراج محمد خان کے ساتھ سیاست کر رہے تھے۔ پرویز صالح کے آفس میں بیٹھتے ہی میں نے اس سے پوچھا یار اس بلڈنگ کی چھت پر اختری بیگم رہا کرتی تھیں۔۔ وہ تو عرصہ پہلے مر چکی ہے اور اس کی بیٹی منی جو کسی بنک میں آفیسر تھی؟ پرویز صالح نے دکھی لہجے میں بتایا کہ منی اسی چھت والے کمرے میں ہی رہتی ہے ، اسکے ساتھ شاید محبت کے نام پر دھوکہ ہوا یا کوئی دوسرا واقعہ رونما ہوا،اس کا سب رنگ روپ سب ختم ہو گیا تھا، وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی ہے، ملازمت ختم ہو گئی تھی اس کی، اب اس کے ہاتھ میں کاسہ ہوتا ہے اور وہ مال روڈ پر بھیک مانگتی ہے، میرے کہنے پر پرویز صالح نے ایک آدمی کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ منی کو ڈھونڈھ کر لائے ۔

منی ایک خستہ حال ڈھانچے کی مانند پانچ منٹ بعد میرے سامنے بیٹھی تھی، وہ جاپان کی ان دو بہنوں سے بھی زیادہ بوسیدہ لگ رہی تھی، جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ دنیا کی معمر ترین 107سال کی بہنیں ہیں،، منی کے لاغر ہاتھوں میں لاسہ تھا اور کاسے کے اندر سستے اسگریٹ کی ڈبیا۔۔پرویز صالح نے جب اسےبتایا کہ میں نعیم ہاشمی کا بیٹا ہوں تو اس کہ دھنسی ہوئی آنکھوں اور دانتوں کے بغیر جبڑے میں معمولی سی جان پڑتی نظر آئی۔۔اس نے کہا،، میں تو اس کا سب جانتی ہوں، اس کی دوسری ماں کا نام شیریں ہے، اس کا چھوٹا بھائی اختر تھا،ان کے نوکر کانام یہ تھا، اس کے باپ کا دفتر لکشمی چوک میں تھا،

پرویز صالح کا دفتر اب افتخار شاہد ایڈووکیٹ کے زیر استعمال ہے،یہ کہانی لکھتے ہوئے میں نے آج افتخار شاہد کو فون کرکے منی کے بارے میں پوچھا تو اس نے ہنستے ہوئے کہا، ابھی زندہ ہے ،جب کہوگے ملوا دوں گا، میں نے سوچا کہ شاید منی سےنہ ملوں،اس کے کاسے میں کچھ ڈالنا میرے بس میں نہ ہوگا۔۔