Tuesday 27 August 2013

بے نظیر بھٹو سے لڑائیاں،نظیر بھٹو سے محبتیں

اکتوبر کا مہینہ چل رہا تھا ،چیرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی سے بچانے کیلئے آخری حربے کے طور پر لاہور سمیت مختلف شہروں میں جیالوں نے خود سوزیاں شروع کر دی تھیں، بہت سارے لوگوں کی طرح میں بھی یہی سمجھتا تھا اور سمجھتاہوں کہ یہ ایک غلط اور منفی تحریک تھی، جب آپ احتجاج کی آخری حدکو چھو لیں تو اس کے بعد صرف ڈیپریشن باقی رہ جاتی ہے، تحریک دم توڑ دیتی ہے، خود سوزیوں کے سارے واقعات طے شدہ تھے ،لیکن15۔۔اکتوبر کو اوکاڑہ میں غیر طے شدہ واقعہ رونما ہو گیا ، ہوا کچھ یوں کہ وکلاء کا احتجاجی جلوس چل رہا تھا کہ اچانک ایک ریڑھی والے شیخ منور حسین نے جو آئس کریم بیچا کرتا تھا،خود کو آگ لگا لی، وہ غریب جل رہا تھا اور وہاں موجود سیکڑوں لوگ اور پولیس والے تماشہ دیکھ رہے تھے، وہاں میرا دوست منیر چوہدری بھی رپورٹنگ کے لئے موجود تھا ، اس نے نہ صرف جلتے ہوئے مزدور کی تصاویر بنوا لیں، بلکہ وہاں موجود پولیس اہلکاروں کو گالیاں بھی دیتا رہا کہ وہ اسکی جان کیوں نہیں بچارہے، منیر نے مجھے فون کرکے صورتحال سے آگاہ کیا، میں نے کہا کہ وہ جلتے ہوئے مزدور کی تصویر لے کر فورآ لاہور پہنچ جائے، وہ رات گیارہ بجے کے قریب منٹگمری روڈ پر مساوات کے آفس پہنچ گیا، توصیف احمد خان ہمارے نیوز ایڈیٹر تھے انہوں نے تصویر انلارج کراکے اخبار کے فرنٹ پیج پر لیڈ اسٹوری کے طورپر چھاپ دی، منیر نے رات میرے پاس گزاری، اگلی صبح وہ بذریعہ ٹرین اوکاڑہ پہنچا تو اس کے کئی ساتھی وہاں اس کے منتظر تھے، جنہوں نے اسے بتایا کہ خود سوزی کرنے والے شیخ منور کے قتل کا مقدمہ اس کے خلاف درج کر لیا گیا ہے اور پرچے میں کہا گیا ہے کہ منیر نے اس پر مٹی کا تیل چھڑکا اور پھر اسے آگ لگادی، منیر کے والدین اور بیوی بچوں کو بھی پولیس اٹھا کر لے گئی تھی، منیر واپس میرے پاس چلا آیا، ہم سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اب کیا ہوگا؟ جسٹس سعیدحسن ان دنوں پی پی پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل تھے، ہم ان سے بھی ملے اور بہت لوگوں کے پاس گئے، سب کا ایک ہی مشورہ تھا، بھاگ جاؤ، جان بچاؤ، منیر کو میں نے کراچی پارسل کر دیا، وہاں سے وہ غیر قانونی طور پر سعودی عرب اسمگل کرا دیا گیا، اس کے اہل خانہ اوکاڑہ میں پولیس اور ایجنسیوں کی سختیاں جھیلتے رہے، اس طرح دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا، ایک دن مجھے یاسین وٹو مرحوم کا فون آیا کہ منیر کو واپس پاکستان بلوا لو، اب اس کی ضمانت کرائی جا سکتی ہے، منیر سے رابطہ ہوا تو میں نے اسے یہ بات بتادی۔ منیر تو پتہ نہیں سعودیہ جیسے ملک میں کیسے چھپ چھپا کر رہ رہا تھا، وہ اگلے ہفتے ہی واپس آگیا، وہ بغیر دستاویزات کیسے گیا تھا اور واپس کیسے آیا، یہ کہانی وہی بہتر طور پر سنا سکتا ہے، وہ ائیر پورٹ سے سیدھا میرے گھر آیا، میں نے کہا، تمہیں پہلے اوکاڑہ اپنے گھر جانا چاہئے تھا، میں پہلے ،،بےبی،، سے ملوں گا، پھر اپنے اہل خانہ کے پاس جاؤں گا، وہ بے بی کو اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی سے آگاہ کرکے ان سے داد لینا چاہتا تھا، بےنظیر صاحبہ ابھی بی بی نہیں بنی تھیں، کم عمری کے باعث انہیں بے بی ہی کہا جاتا تھا، چیرمین کی شہادت ہو چکی تھی، بے بی پوری سرگرمی سے پارٹی امور میں نصرت بھٹو صاحبہ کا ہاتھ بٹا رہی تھیں، منیر جو سوٹ کیس ساتھ لایا تھا، اس میں عورتوں کے میک اپ کی اشیاء کے سوا کچھ اور نہ تھا، میں نے اس سے یہ تو نہ پوچھا کہ وہ یہ کیا اٹھا لایا ہے، یہ ضرور پوچھا کہ ہم ان اشیاء کا کیا کریں گے؟ ہم یہ سب کچھ پرویز صالح کی بیوی نیناں کو دے دینگے، اس کا جواب تھا، اور ہم واقعی وہ سب نیناں کو تھما آئے، اب سوال تھا منیر کی کراچی جا کر بے بی بے نظیر سے ملاقات کا۔ ان دنوں بے بی کا پرسنل سیکرٹری تھا اچھی میمن، وہ مساوات کراچی میں میرا کولیگ رہ چکا تھا، بھٹو صاحب کے ذاتی ڈینٹسٹ ڈاکٹر نیازی کی بیٹی یاسمین بھی بے نطیر کے ساتھ ہوا کرتی تھی، اس سے بھی میری علیک سلیک تھی، میں نے اچھی میمن کو 70کلفٹن فون کرکے مدعا بیان کیا تو اس نے کہا کہ آپ لوگ آجاؤ، ملاقات ہو جائے گی، میں اور منیر کراچی جانے کے لئے عوامی ایکسپریس میں بیٹھ گئے، منیر نے ریلوے اسٹیشن سے ماہنامہ دھنک لیا، جس میں میرا بہت نمایاں انٹر ویو چھپا ہوا تھا، ہماری نشستیں اور برتھ بک تھیں، لیکن ان پر تین لڑکیاں اور ایک بوڑھی عورت براجماں تھیں، ہم دونوں نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرش پر ہی ڈیرہ لگا لیا، ہماری نشستوں پر براجماں فیملی ہماری ممنون ہوئی، اس طرح یہ سفر آسانی سے کٹ گیا، کراچی میں ہم نے طارق روڈ پر ایک درمیانے درجے کے ہوٹل میں رات گزاری اور اگلی صبح 70کلفٹن پہنچ گئے، اچھی میمن گیٹ پر ہی مل گیا، وہ ہمیں بہت احترام سے اندر لے گیا، بے بی بے نظیر سندھی عورتوں کے ایک وفد سے باتیں کر رہی تھیں، وہ سندھی خواتین سے کہہ رہی تھیں کہ انہیں اردو زبان سیکھنی چاہئے، یہ سندھ کی وحدت کے لئے ضروری ہے، میں نے دیکھا کہ ممتاز بھٹو، حفیظ پیرزادہ، جتوئی اور اس قد کے دیگر لیڈر اندر آ رہے ہیں اور ان کا رخ ایک مخصوص کمرے کی جانب ہے، اچھی میمن نے بتایا کہ تھوڑی دیر میں پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کا اجلاس ہونے والا ہے، ،تو پریشان نہ ہو، پہلے تم لوگوں سے ملاقات ہوگی، بے بی نے سندھی خواتین سے نشست برخاست کی اور اس کمرے کی جانب چل دیں جہاں سنٹرل ایگزیکٹو کا اجلاس شروع ہونے والا تھا، یاسمین نیازی ان کے پیچھے تھی، میں نے اچھی میمن کو دیکھا تو وہ آگے بڑھ گیا، بے بی نے مجھے مسکراتے ہوئے دیکھا اور واپس پیچھے آکر میرا ہاتھ پکڑ لیا، اب بے بی بے نظیر کا رخ دوسری طرف تھا ، وہ ہمیں ایک بہت چھوٹے سے کمرے میں لے گئیں، وہاں ایک سنگل چارپائی اور دو کرسیاں رکھی ہوئی تھیں، ہمیں کرسیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کرکے وہ خود چار پائی پر بیٹھ گئیں، کیا حال ہیں؟ کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا کہ میرے ساتھ آنے والا آپ کی پارٹی کا جیالا ہے، اس نے بہت مصائب اٹھائے ہیں، آپ سے ملنا چاہتا تھا، میں ساتھ لے آیا، منیر کرسی سے اٹھا اور جوشیلے انداز میں آپ بیتی سنانے لگا، جب اس کی داستان مکمل ہو گئی تو بے بی تیزی سے کھڑی ہوئیں اور منیر سے پوچھا، کتنے پیسے چاہئیں آپ کو؟ بے بی کے سوال نے مجھے جھنجوڑ کے رکھ دیا۔ آپ کے گھر میں کبھی کوئی شریف آدمی نہیں آیا، اب یہ سوال تھا میرا بے بی سے، اس سے پہلے کہ بات اور بڑھ جاتی، یاسمین میرے اور بے بی کے درمیان آگئی، اس نے بے بی سے کہا ،، غلطی آپ کی ہے، آپ کو دیکھنا چاہئے تھا کہ آیا کون ہے آپ کے پاس؟ یہ بات بے بی کو سمجھ آگئ، وہ پھر چارپائی پر بیٹھ گئیں، ہم سے معذرت کی اور بولنا شروع کیا، ہمارے پاس لوگ آتے ہیں ایسی ہی داستانیں سنا کر پیسے مانگنتے ہیں، انہوں نے کئی پارٹی لیڈروں کے نام بھی لئے، ان میں ایک نام فیصل آباد کے ایک بزرگ کا بھی تھا، بے بی سنٹرل ایگزیکٹو کی میٹنگ بھول چکی تھیں، ہمیں واقعہ پہ واقعہ سنا رہی تھیں یہ نشست چار گھنٹے جاری رہی، ان سے بے شمار کہانیاں سننے کے بعد میں خود اپنے اچانک جوش میں آجانے پر شرمندہ تھا، لیکن میری ان سے یہ آخری لڑائی نہیں تھی، بہت محبتیں تھیں ان سے اور بہت لڑائیاں بھی۔۔