Thursday 29 August 2013

عدالت سے’نغمہ کی کوٹھی‘‘تک



پندرہ سولہ سال کی بے بی سے  مجھے ملوایا تھا، میرے دوست اور کلاس فیلو شاہ نے،، شاہ کا کہنا تھا کہ یہ اس کی بہن ہے، سگی نہیں لیکن سگی سے زیادہ عزیز، یہ لڑکی بظاہر کسی اچھےخاندان کی لگتی تھی ، اس زمانے کے فیشن کا لباس ، اسٹائلش سینڈل ، بال سلیقے سے ترشے ہوئے ، چہرے پر مسکراہٹ اور بولنے کا سلیقہ بھی ۔
پھر میں نے اسے کئی بار مال روڈ پر ریگل چوک اور الفلاح سینما کے درمیان ایک ایسی لڑکی کے ساتھ چہل قدمی کرتے دیکھا جو بہت ہی کوجی تھی، ،رنگت ہمارے صحافی دوست جاوید سید سے زیادہ سیاہ۔۔ بعد میں پتہ چلا کہ کوجی کا نام عاشی ہے، اور وہ بے بی کی ’’سرپرست‘‘ ہے۔ 
ایک دن مال روڈ پر ہی ملاقات میں بے بی اور عاشی نے گوگو میں چائے پینے کی دعوت دی ، میں نے دعوت یہ سوچ کر قبول کر لی کہ شاید ان دونوں کے بارے میں وہ کچھ جان سکوں جو میرا کلاس فیلو شاہ بتانے کو تیار نہ تھا۔۔مجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہ پڑی، چائے کی پیالی آتے ہی بے بی نے خود ہی بولنا شروع کر دیا، وہ شکایت کر رہی تھی کہ ’’سارا دن دھوپ میں مال روڈ کی خاک چھانتی رہتی ہیں ، کوئی ہمیں پوچھتا ہی نہیں ،،کسی کی توجہ ہی نہیں جاتی کہ ہم کس کی تلاش میں ہیں؟ ‘‘ اس کی گفتگو کا آسان خلاصہ یہ تھا کہ وہ ’’گاہک‘‘ کی تلاش میں ہوتی ہیں اور گاہک ڈرتے ہیں کہ کہیں ہمارا تعلق کسی طاقتور، شریف فیملی سے نہ ہو ، وہ ان کی جانب پوری طرح متوجہ ہی نہیں ہوتے، ’’ میں نے بےبی سے کہا کہ اگر لوگ ڈرتے ہیں تو تم خود بات کر لیا کرو ، ’’ کئی بار ایسا کرنے کی کوشش کی، جونہی کسی کی جانب متوجہ ہوتی ہوں ،وہ دوڑ لگا دیتا ہے کہ میں کہیں چپل نہ اتار لوں‘‘میں نے پوچھا تو پھر پورے دن کی مٹر گشت کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ِِ؟ ’’ ہونا کیا ہے، شام ڈھلنے لگتی ہے تو کسی نہ کسی ’’ بابے‘‘ کو رحم آجاتا ہے، بابوں سے زیادہ تو نہیں کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے‘‘ پھر ایک دن۔ بے بی مجھے مال روڈ پر اکیلی ملی ، عاشی نجانے اس دن اسکے ساتھ کیوں نہیں تھی، اب میں نے اسے چائے کی پیشکش کی اور ہم کیفے گو گوز میں جا بیٹھے،، میرا سوال صرف ایک تھا ‘‘وہ اس چھوٹی سے عمر میں اس دھندے میں کیوں اور کیسے آگئی۔۔۔۔میرے سوال کا جواب اس نے ایک ہی سانس میں دیدیا’’ دوسال پہلے میں صرف تیرہ برس کی تھی ، محلے کے دو لڑکے مجھ سے چھیڑ چھاڑ کرتے تھے، ماں کو پتہ تھا لیکن وہ ان اوباشوں کا کچھ نہیں کر سکتی تھی ، ماں نے مجھے سختی سے منع کر رکھا تھا کہ اس کا تذکرہ اپنے اکلوتے بڑے بھائی سے نہ کروں ، وہی بھائی ہمارا کفیل تھا ، اس دن میں اسکول سے گھر آ رہی کہ ان دونوں محلےدار لڑکوں نے میرا راستہ روک لیا، مجھے اتنا تنگ کیا کہ میں رو پڑی، روروتے روتے گھر پہنچی تو بھائی خلاف توقع گھر موجود تھا، اس نے میرے رونے کا سبب پوچھا، میں نے سب بتا دیا، بھائی غصے میں باہر کی جانب بھاگا، چند ہی منٹ بعد ہمیں اطلاع مل گئی کہ اس نے ایک اوباش کو چھریاں مار کر قتل کر دیا جبکہ دوسرا بھاگ گیاتھا ۔۔۔بھائی گرفتار ہو گیا اور چند ماہ بعد ہی اسے سزائے موت سنادی گئی، ہمارے پاس کچھ نہ تھا ، ہم کسی کو وکیل بھی نہ کر سکے ، سزائے موت کے بعد بھائی کو ساہیوال جیل منتقل کر دیا گیا، ہم اس قابل ہی نہ تھے کہ اس سے ملاقات کے لئے ساہیوال جا سکتے ، ایک نیک دل نے مشورہ دیا کہ چھوٹی عدالت میں درخواست دیں کہ بھائی کو لاہور کی جیل میں منتقل کر دیا جائے ، کسی سے عرضی لکھوائی اور ہم ماں بیٹی کچہری پہنچ گئیں ، وہاں کالے کوٹ پہنے بہت سے لوگ مجھے گھور رہے تھے، بعد میں پتہ چلا کہ یہ وکیل ہوتے ہیں ، ایک کالے کوٹ والے نے میری ماں سے پوچھ ہی لیا ’’ مائی ، کیا معاملہ ہے ، وہ باتیں میری ماں سے کر رہا تھا اور نظریں مجھ پر تھیں، بڑی ہمدردی دکھائی اس نے ، مفت کیس لڑنے کا وعدہ کیا، روٹی بھی کھلائی، اس وکیل نے ہمارے گھر آنا جانا شروع کر دیا ، میں تھی تو تیرہ برس کی ، لیکن جانتی سب تھی۔ وہ دن بھی آگیا ، جب وکیل نے بتایا کہ کیس لگ گیا ہے اور کل پہلی تاریخ ہے، ہم ماں بیٹیاں وکیل کے ساتھ عدالت میں کھڑی تھیں،، جج نے کئی بار مجھے گھورا، پھر میں بھی اسے رسپانس دینے کے لئے تیا ہوگئی، اب اس نے مجھے گھورا تو میں نے اسے آنکھ مار دی، جج اٹھ کر پچھلے کمرے میں چلا گیا؟ ایک دو ’’ پیشیاں ‘‘ ہوئیں اور بھائی ساہیوال سے لاہور جیل واپس آ گیا،، ماں جاتی ہے اس سے ملنے ،، اس نے ماں کو سختی سے کہہ رکھا ہے کہ مجھے جیل نہ لایا کرے۔ 
’تمہاری ماں کو پتہ ہے کہ تم کیا کرتی ہو؟‘‘ 
’’ پتہ کیوں نہ ہوگا، ماں سے میری ، رات کو دیر سے گھر جاتی تو ڈانٹتی تھی، اب دیر ہوجائے تو میں گھر جاتی ہی نہیں پھر کہاں رہتی ہو رات کو؟ 
نغمہ کی کوٹھی میں ، وہی جو فلموں میں آتی ہے، وہ کہیں اور شفٹ ہو گئی ہے، گیٹ پر تالہ لگا گئی ہے، رات زیادہ ہوجائے تو گیٹ پھلانگ کر اندر چلی جاتی ہوں، دن چڑھنے سے پہلے ہی اسی گیٹ سے باہر آجاتی ہوں، 
’’ تمہیں یہ راستہ کس نے دکھایا؟‘‘ 
’’ عاشی نے ، وہاں اور بھی کئی بے گھر لڑکیاں سونے کے لئے پہنچ جاتی ہیں‘‘ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نوٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
70 کی دہائی میں نغمہ نے سمن آباد میں چوہدری کالونی اور شباب چوک کے درمیان کوٹھی تعمیر کی تھی اس ایریا کانام ہی’’ نغمہ دی کوٹھی‘‘ پڑ گیا تھا ، بسیں اور ویگنیں بھی یہاں اسی نام کے اسٹاپ پر سواریاں اتارا کرتی تھیں ، نغمہ بیگم شاید ماڈل ٹاؤن شفٹ ہوئیں تو اس کوٹھی کو تالہ لگا گئیں۔ اس زمانے میں یہ ایریا زیادہ آباد نہیں تھا ، یہاں کھیتی باڑی بھی ہوتی تھی۔۔۔۔