Thursday 29 August 2013

اور اصلی صحافی بھی وہاں پہنچ گئے۔۔۔

ملک بشیر کبھی بڑے ڈیرے دار ہوا کرتے تھے، اب تھوڑے سے نان فنکشنل ہوگئے ہیں مگر ڈیرے داری قائم ہے، کوئی نہ کوئی شرارت اب بھی سوجھتی رہتی ہے انہیں ، کئی سال پہلے کی بات ہے،فون پر بتانے لگے کہ آج وہ اپنے ہی بھائی کو تختہ مشق بنائیں گے، کیونکہ وہ سرکاری زمین پر قبضہ کر کے دکانیں تعمیر کرا رہا ہےاور ظاہر کر رہا ہے کہ دکانیں حکمران پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو مفت دے گا، ملک صاحب نے بھائی کو ڈرانے کیلئے
دو جعلی صحافی تیار کئے، انہیں کیمرہ دیا، اور بریف بھی کیا، جعلی صحافی موقع واردات پر پہنچ گئےتو بھائی نے ملک صاحب کو ہی مدد کے لئے پکارا، ملک صاحب کہنے لگے کہ غلط کام کرو گے تو خبریں والے تو آئیں گے ہی ناں، بھائی مدد مدد پکارتا رہا تو ملک صاحب اس کے پاس پہنچ گئے، اپنے ہی بھیجے ہوئے ،،صحافیوں،، سے ،،مذاکرات،، کئے، پھر بھائی کو سمجھایا کہ انہیں بیس پچیس ہزار دے کر جان چھڑاؤ۔ بھائی نے کہا میرے پاس تو اس وقت پیسے نہیں ، ملک صاحب نے اپنی جیب سے پیسے ادا کر دیےاور بھائی سے کہا کہ واپس کر دینا ،یہ ادھار ہے، ملک صاحب نے یہ واقعہ مجھے سناتے ہوئے بہت قہقہے لگائے ، ابھی ہفتہ دس دن ہی گزرے تھے کہ ملک صاحب کا پھر فون آ گیا، ان کی ہنسی نہیں رک رہی تھی، بات کرنے کی کوشش کرتے تو پھر ہنسی غالب آ جاتی،،،، بمشکل صرف یہ بتا سکے،،، یار ، وہ اصلی خبریں والے وہاں پہنچ گئے ہیں، وہ پچاس ہزار سے کم لینے پر تیار نہیں ، اور بھائی مجھے پوچھ رہا ہے کہ اگر یہ خبریں والے ہیں تو پہلے والے کون تھے؟ ملک صاحب تو کمالات دکھاتے ہی رہتے ہیں، ان کے یار دوست بھی ایک سے بڑھ کر ایک ہیں، ایک کا نام ہے، بٹ جی سوال چنا جواب گندم والا محاورہ جتنا ان پر فٹ آتا ہےکسی اور پر کیا آئے گا، آپ چاہے کتنی ہی توجہ سے شمال کی جانب گامزن ہوں، ہوش تب آئے گا جب بٹ جی آپ کو جنوب میں پہنچا چکے ہونگے، بات ہو رہی ہو، جینا لو لو بریجڈا یا برشی باردت کی، آپ تعریف کر رہے ہوں مدھوبالا یا مارلن منرو کی ،بٹ جی کو اپنی قدیمی سھیلی مینا جی یاد آ جاتی ہے، ان کا فرمانا ہے کہ،، جنی سوہنی مینا سی ،تسیں سوچ وی نئیں سکدے،،،جب پوچھا جائے،، آجکل کہاں ہوتی ہیں مینا جی؟ تو افسردگی سے بتاتے ہیں، اسے پنجاب کا کوئی جاگیردار لےاڑا تھا شادی کرکے،۔ بٹ جی کو اعزاز حاصل ہے کہ سرد راتوں میں وہ مینا جی کے ساتھ رضائی اوڑھ کر لڈو کھیلا کرتے تھے، بقول بٹ جی ، ان کے خیالات کبھی آلودہ نہ ہوئے، بھلے مانسوں کے زمانے کی باتیں ہیں، بٹ جی ٹھیک ہی کہتے ہونگے،،،، لیکن سوال یہ ضرور اٹھتا ہے کہ جو رضائی اوڑھ کر وہ بیٹھتا کرتےتھے اس میں مینا جی ہی ہوتی تھیں یا کروشیا سے رضائی پر مینا جی کا نام کڑھا ہوتا تھا؟، لڈو کھیلنے کے دوران کوئی امیر کبیر بگڑا رئیس میناجی کے دیدار کو آ جاتا تو ماں منتیں کرتی رہ جاتی،مینا رضائی سے نکل کر ڈرائنگ روم تک نہیں جاتی تھیں، بقول بٹ جی کئی لوگ ہیرے جواہرات لے کر بھی آتے ، مینا جی پروا نہ کرتیں، وہ پیسے کو نہیں تعلق کو اہمیت دیتی تھیں، آج کل ایسی مینائیں کہاں ؟ بٹ جی ایک بار بیٹھک میں مینا جی کا گانا سن رہے تھے، باقی مہمانوں کی طرح وہ بھی مینا جی کو نذرانہ پیش کرتے رہے، لیکن آفرین ہے مینا جی پر ، اس نے سب کے پیسے اٹھا لئے سوائے بٹ جی کے ، مینا جی کو خدشہ تھا کہ اگر اس نے بٹ جی کے پہسے اٹھا لئے تو محفل سےاٹھ کر چلے نہ جائیں، بٹ جی بتاتے ہیں کہ ان کے اوائل جوانی کے کئی دوست ان سے بھی زیادہ ذہین ہیں، بیرون ملک رہنے والا ایک دوست تو ایسا ہے کہ اسے بہت پہلے غریبوں کی مدد کرنے پر نوبل ایوارڈ مل جانا چاہئیے تھا، وہ ہر سال دو مہینوں کے لئے پاکستان آتا ہے اور کسی پسماندہ علاقے سے کسی غریب کی بیٹی سے بیاہ کرکے اسے شہر لے آتا ہے، وہ کبھی سسرال والوں سے جہیز نہیں لیتا بلکہ پچاس ساٹھ ہزار لڑکی کے والدین کو پلے سے دے آتا ہے، ڈیڑھ دو مہینےبعد دلہن کو میکے کا کرایہ دے کر خود واپس پردیس چلا جاتا ہے۔۔بٹ جی ٹھیک کہتے ہیں بندہ عقلمند ہو، چیزیں سستی مل ہی جاتی ہیں۔