Saturday 24 August 2013

نانی غلام فاطمہ

نانی غلام فاطمہ فل ٹائم مقدمے باز تھیں،قیام پاکستان کے بعد انہیں دو مربعہ زرعی اراضی کلیم میں ملی ، ایک مربعہ قبولہ شریف میں اور دوسرا لاہور میں فیروز پور روڈ پر کاہنہ کے قریب، لاہور والی اراضی کے کچھ حصے پر نظام دین (ریڈیو والے) کے کسی بھائی نے قبضہ کرکے وہاں کچھ لوگوں کو بٹھا رکھا تھا، اور اس کامقدمہ لاہور کی ماتحت عدالتوں میں سالہا سال سے چل رہاتھا، نانی ہر ہفتے
دو ہفتے بعد تاریخ بھگتنے لاہور آیا کرتی تھیں، 65 سال کے قریب عمر تھی لیکن صحت بہت اچھی، ان کے کندھوں پر ہمیشہ سفید کپڑے کا ایک بستہ نما بڑا تھیلا ہوتا ، جس میں عدالتی دستاویزات بھری ہوتیں ، ایک بار وہ مجھے اپنی کاہنہ والی زمین دکھانے لے گئیں، یہ اراضی مین فیروز پور روڈ پر ایک سینما کے ساتھ تھی، نانی نے وہاں اپنا حساب کتاب کیا اور ہم واپس آگئے، پھر کچھ عرصہ گزرا تو انہوں نے مجھے عدالتوں میں بھی ساتھ لے جانا شروع کر دیا، کئی سال گزر گئے، مگر اس مقدمے کا تاریخیں پڑنے کے سوا کچھ نہ ہوا، میں نے اپنے وکیل دوست سے راجہ ذوالقرنین (سابق صدر سپریم کورٹ بار) سے بات کی اور نانی کو اس کے آفس لے گیا، کیس راجہ ذوالقرنین کو دیدیا گیا، اوپر نیچے چار پانچ پیشیوں کے بعد ایک دن راجہ نے نانی کو مشورہ دیا کہ وہ پاور آف اٹارنی اپنے نواسے (مجھے) دیدیں تاکہ انہیں بار بار لمبے سفر کی زحمت نہ اٹھانی پڑے، نانی اس مشورے پر سیخ پا ہو گئیں اور دو ٹوک انکار کر دیا، ،،مقدمہ میرا ہے اور لڑنا بھی میں نے خود ہے،مقدمے بازی ہی تو ان کا واحد مشغلہ تھا اور راجہ انہیں اس انجوائے منٹ سے روک رہا تھا، پھر کچھ سال اور بیت گئے، ایک دن اوکاڑہ سے ایک میاں بیوی میرے پاس آئے، میں مساوات میں سب ایڈیٹری کر رہا تھا اور میرا چھوٹا بھائی اختر کنگ ایڈورڈ میں ایم بی بی ایس، میرے پاس آنے والے یہ میاں بیوی کسی متوسط گھرانے کے لوگ لگ رہے تھے، لیکن جب انہوں نے بات چیت شروع کی تو لگا شاید ان کی ملین ڈالرز کی نئی نئی لاٹری نکلی ہے، ان کی دو بیٹیاں تھیں اور وہ دونوں کے رشتے کے لئے آئی تھیں، مجھے ذاتی اخبار نکلوا کر دینے کی پیشکش کی گئی ، پریس اور بلڈنگ بھی اپنی ہوگی، میرے چھوٹے بھائی کے لئے لاہور میں کسی بھی جگہ مکمل اسپتال بنوا کر دینے کا پیکیج دیا گیا، اور دونوں کے لئے کسی بھی ایریا میں مکان بھی ، میں نے میاں بیوی سے سوچنے کی مہلت مانگ کر جان چھڑائی، بھائی سے ملاقات ہوئی تو اسے ساری کہانی سنائی اور ہم بہت ہنسے، اس واقعہ کے چند روز بعد نانی آ گئیں، تھیں تحمل مزاج ، بات سوچ بچار کے بعد کیا کرتی تھیں۔۔اپنی آمد کے گھنٹہ دو گھنٹے وہ مجھ سے یوں گویا ہوئیں، کاکا ، میں سنیاں اے، اوکاڑیوں کوئی رشتہ آیا سی؟، جی نانی آیا تھا، مگر ان کی بڑی بڑی پیشکشیں ہماری سمجھ سے بالا تھیں ، ہم نے انکار کردیا،ہاں کر دینی سی اوہناں کیڑا وسناں سی،نانی کی یہ منطق جب بھی یاد آتی ہے، بےساختہ ہنس پڑتا ہوں، وہ ایک دن شیخوپورہ میں ، بس میں سفر کے دوران ہارٹ اٹیک سے فوت ہو گئیں اور ان کے کندھوں پر لٹکنے والا بستہ نما بیگ کوئی اٹھا کر لے گیا، نانی کی لاہور والی زمین پر کون قابض ہےاور اب وہاں کیا ہے؟ یہ معلوم کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔