Thursday 29 August 2013

شاہی قلعہ کی سلاخوں کے پیچھے کھڑی ایک لڑکی

انٹیلی جنس بیورو کے انوسٹی گیٹر ملک مظفر کو نجانے کیا بیر تھا مجھ سے، لگتا تھا جیسے اس کی شاہی قلعے میں ڈیوٹی ہی مجھے ٹارچر کرنے کے لئے لگائی گئی ہے، وہ صبح نو بجے سے پہلے پہنچ جاتا، اس کا کمرہ اوپر والی منزل پر تھا، سیڑھیاں نیچے اوپر بھاری پتھر رکھ کر تراشی گئی تھیں، اس اذیت کدے کا سارا نقشہ مغلوں اور انگریزوں کے دور کا تھا، ان دونوں ادوار میں بھی شاہی قلعے کے اس حصے کو جہاں میرے ساتھ بہت سارے دوسرے ،،باغی،، بھی قید تھے ،عقوبت گاہ کے طور پراستعمال کیاجاتا تھا ۔ ملک مظفر کی آمد کے چند منٹ بعد ہی گھنگھروؤں کی طرح ہتھکڑی کی چھن چھن گونجتی، سب قیدیوں کے دل دہل جاتے، سب سوچتے کہ پتہ نہیں کس کو لیجایا جائے گا،کس کی باری ہے تشدد سہنے کی، اکثر پہلی باری میری ہوتی، ملک مظفر میرے بارے میں روزانہ کوئی نہ کوئی نیا انکشاف کرتا، جو عمومآ درست ہوتا، اپنی معلومات کی تصدیق کے بعد اس کا سوال ہوتا کہ تم نے یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی؟ میں سوچتا ، یہ معلومات کون دیتا ہے اسے؟ کچھ سمجھ نہ آتا، یہ عقد تو کھلا، شاہی قلعہ سے رہائی کے کئی ہفتوں بعد، ملک حامد سرفراز سے ملاقات کے دوران،، 1982 میں ریگل چوک میں مسجد شہدا کے سامنے فٹ پاتھ پر ایک ریسٹورنٹ کھلا،بائیں بازو کے دانشوروں نے رات کو یہاں بیٹھنا شروع کر دیا، گاہکوں کے لئے کرسیاں میزیں بند دکانوں کے باہر یا سڑک کنارےرکھی ہوتی تھیں، میں شاہی قلعہ سے نجات کے بعدایک رات اسی جگہ بیٹھا ملک صاحب کو ان کی فرمائش پر اسیری کی داستان سنا رہا تھا،ملک حامد سرفراز نے لقمہ دیا, مجھے اپنے دوست ملک مظفر سے تمہاری خیر خیریت کا پتہ چلتا رہتا تھا، ملک مظفر؟؟ آپ کا کیا تعلق اس سے؟؟ ملک صاحب نے کہا، آئی بی میں ہونے کے باوجود نظریاتی ساتھی ہے، اسی جگہ جہاں ہم بیٹھے ہیں وہ بھی تھوڑی دیر کے لئے آجاتا ہے، گپ شپ ہوجاتی ہے , ہوں، تو ملک مظفر میرے بارے میں معلومات میرے ہی دوستوں سے لیا کرتا تھا، میں نے سوچا،, مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہمارے سیاستدان کتنے گدھے ہیں، ملک حامد سرفراز ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ہونے والی اس میٹنگ میں موجود تھے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی، بعد میں اختلافات کے باعث وہ شیخ مجیب الرحمان سے جا ملے، ملک حامد سرفراز مغربی پاکستان میں عوامی لیگ کے واحد امید وار تھے، 1970کے انتخابات میں ان کی ضمانت ضبط ہوئی، گوالمنڈی لاہور والا حلقہ تھا ان کا۔ شاہی قلعہ میں ایک صبح مجھے انٹیرو گیشن کے لئے لیجایا گیا،جہاں مجھے کھڑا کیا جانا تھا، اس کے عقب میں چند گز کے فاصلے پر ایک سیل تھا، اس سیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک جوان لڑکی کھڑی تھی، میں نے ملک مظفر کا سامنا کرنے سے پہلے اس لڑکی کو غور سے دیکھا، وہ کسی کالج یا یونیورسٹی کی طالبہ لگتی تھی، چہرہ اور لباس بتا رہا تھا کہ تعلق کسی پڑھے لکھے امیر گھرانے سے ہو سکتا ہے،ملک مظفر نے حسب معمول حکم سنایا، اپنے گھٹنے fold کر لو، پھر اس نے میرے بازو fold کراکے میرے ہاتھوں پر اینٹیں رکھوا دیں، اس دن میں ملک مظفر کا کوئی سوال نہیں سن رہا تھا، میرے دل و دماغ پر اپنے پیچھے سلاخیں پکڑے کھڑی لڑکی سوار تھی، وہ کون ہو سکتی ہے؟ اسے کیوں لایا گیا ہوگا یہاں؟ کیا اس پر بھی تشدد کیا جائے گا؟ میں نے فیصلہ کیا کہ آج چاہے مر ہی کیوں نہ جاؤں، ملک مظفر سے نہ تو اینٹیں اتروانے کی درخواست کروں گا اور نہ تھک ہار کے نیچے گروں گا، اگر اس لڑکی نے مجھے گرتے ہوئے دیکھ لیا تو اس کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا، وہ کسی انٹیروگیشن کا سامنا نہ کر پائے گی، 
میں نے اس دن کی اذیت خوب برداشت کی۔ واپس سیل میں بند کیا گیا تو خلاف معمول پہلی بار بہت زور دار آواز سے چیخا اوپر سیل میں بند ایک لڑکی کو دیکھا ہے، وہ کون ہو سکتی ہے؟ 
مجھے فورآ جواب مل گیا، آواز تھی شاید جاوید اختر کی۔ 
، وہ ناصرہ ہے، رانا شوکت محمود کی بیوی