Friday 30 August 2013

میری ایک سالگرہ کا احوال

ہر سال چار مارچ کو اپنی سالگرہ پر مجھے ایک شخص ضرور یاد آتا ہے، نام تھا اس کا عاصم ، تخلص صحرائی، گورنمنٹ کالج لاہور میں نفسیات کا طالبعلم تھا، شاعری واعری کرتا تھا،بہت زبردست نظریات تھے اسکے، عاصم صحرائی کا تعلق کسی دوسرے شہر کےعام سےگھرانے سے تھا، وہ اپنے عزم کی بدولت گورنمنٹ کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوا تھا

مجھے ملوایا اس سے محمد علی چراغ نے، جسے میں محمد علی دیوا کہا کرتا تھا، 4مارچ 1972 کی ایک دوپہر میں اور چراغ مال روڈ پر مٹر گشت کر رہے تھے، بھوک لگی تو ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا، دونوں کی جیب خالی تھی، میں نے ٕمحمد علی چراغ کو بتایا کہ آج میری سالگرہ ہے، اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی پھر آج تو جشن ہوگا میں نے کہا، خالی جیب جشن ؟؟ اس نے جواب دیا ، عاصم صحرائی کے گھر چلتے ہیں عاصم ساندہ کے محلہ قریشیاں میں کسی کے گھر پے انگ گیسٹ کے طور ہر رہتا تھا، وہ ایک غریب سا گھرانہ تھا ، جس نے اسے مکان کے اندر ہی ایک کمرہ دے رکھا تھا، کسی مہینے وہ پیسے ادا نہ کر سکتا تو یہ گھرانہ زیادہ اصرار نہ کرتا تھا، اگر عاصم کا کوئی مہمان آجاتا تو اسے بھی کھانا وانا مل جاتا تھا، ہم وہاں پہنچے تو عاصم گھر پر ہی تھا، گرمجوشی سے ملا، چراغ نے اسے بتایا کہ آج خاور کی سالگرہ ہے، عاصم بولا ،، تم لوگ بیٹھو، میں ابھی کیک لے کر آتا ہوں۔ اس کے جانے کے بعد میں اور چراغ باتوں میں مگن ہو گئے، ہم عاصم کے کمرے میں دو بجے دوپہر پہنچے تھے، شام کے پانچ بج گئے ، عاصم واپس لوٹ کر نہ آیا، ہمیں اس کی فکر لاحق ہوئی، اب ایک ایک منٹ، ایک ایک لمحہ بھاری ہونے لگا تھا، ہماری بھوک اور کیک کا انتظار ختم ہو چکا تھا، اس کی آمد سے پہلے وہاں سے جانا بھی نہیں چاہتے تھے، گھر کی مالکہ سے بات کی تو اس نے بتایا کہ گھر کے قریب ہی بیکری ہے، اگر وہ کیک لینے گیا تھا تو اسے پانچ دس منٹ میں لوٹ آنا چاہئیے تھا، بالآخر وہ واپس آگیا، رات سات بجے سے زیادہ وقت ہو گیا تھا، اس کے ہاتھوں میں، کیک بسکٹ اور دوسرا کھانے کا سامان تھا، اتنی دیر لگا دینے کے حوالے سے اس کے پاس ہمارے کسی سوال کا جواب نہیں تھا پہلے سالگرہ کا کیک کٹے گا، کھانا کھائیں گے، پھر لیٹ ہو جانے کی وجہ بھی بتا دوں گا ہم نے پورا ایک گھنٹہ ہلہ گلہ کیا ۔ اور پھر عاصم صحرائی کے گلے پڑ گئے کہ وہ ہمیں وجہ تاخیر بتائے۔ جیب میں کوئی پیسہ نہیں تھا، میں گنگارام اسپتال خون بیچنے چلا گیا، وہاں میرے جیسے ضرورت مندوں اور نشئیوں کی لمبی لائن لگی تھی، میری باری آتے آتے تین گھنٹے وہیں گزر گئے یہ تھا عاصم صحرائی جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج کے شعبہ نفسیات میں پہلے پروفیسر پھر ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ رہا، گریڈ 20میں اس کی ریٹائرمنٹ ہوئی، وہ اس وقت پیرا سائیکالوجی کا پاکستان میں واحد ڈاکٹریٹ ہے، بہت بار سوچا اس سے ملنے کا لیکن عرصہ دراز سے ملاقات نہیں ہوئی، سنا ہے کہ پہلی شادی اس نے اسی گھر کی لڑکی سے کی، جہاں ہم اس سے ملنے جاتے تھے، آج کل تیسری بیوی کے ساتھ رہ رہا ہے، اس کی یہ کچھ نجی باتیں مجھے محمد علی چراغ نے بتائیں۔ چراغ رحمان پورہ میں رہتا ہے، فیس بک پر اسکی تصویریں دیکھی ہیں، ڈاڑھی میں بھی وہ مجھے دیوا ہی لگتا ہے، محمد علی چراغ کے والد امام مسجد تھے ، اس کی اردو ادب کے لئے خدمات کو سلام کرتا ہوں۔