Thursday 29 August 2013

چوہدری سرور

ہماری تھوڑی سی جمہوری زندگی میں صرف غلام مصطفی کھر پہلے اور آخری گورنر رہے ہیں جنہوں نے اپنا تقرر کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو سے آڈھا لگایا تھا، یہ وہ وقت تھا جب کھر پر الزام تھا کہ جوان لڑکیوں اور طالبات کو سڑکوں سے اٹھا کر گورنر ہاؤس میں غائب کر دیا جاتا ہے، ایک لڑکی کے والدین اس الزام کے ساتھ
میڈیا تک بھی پہنچے تھے، کھر صاحب ایک طرف تو سوسائٹی کے ولن تھے اور دوسری جانب بھٹو صاحب کو آنکھ دکھانے والے ایک ہیرو، کھر کو بھٹو نے دو بار گورنر بنایا، گورنری کی دوسری مدت صرف چار میہنے رہی، پنجاب میں پیپلز پارٹی کو 1970کے بعد 10 بار گورنرشپ ملی، مسلم لیگ کو تین بار، میاں اظہر نے بھی اسلامی جمہوری اتحاد کے بل پر تھوڑے دنوں گورنری کی، جب میاں اظہر گورنر بنے تو ایک بار میرے گھر تشریف لائے، میں نے پوچھا، میاں صاحب آپ اپنی گورنری میں کیا کریں گے؟ ان کا جواب تھا، کرنا کیا ہے، گورنر بنانے والے جو کہیں گے وہ کرتے رہیں گے، لطیف کھوسہ کی گورنری کے دنوں میں مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ لوگ عوامی نمائندگی کے مینڈیٹ کے بغیر ہی گورنر کے مشیر کیسے بن جاتے ہیں؟ ان کے دور گورنری میں ایک صاحب اپنے بچے کو ایچی سن میں داخل کرانا چاہتے تھے، سفارشیں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے تھک گئے لیکن کام نہیں ہو رہا تھا، چند ہفتوں کے بعد ملے تو بہت خوش تھے، بتانے لگے کہ بچہ ایچی سن میں داخل ہو گیا ہے، گورنر کے ایک مشیر نے دس لاکھ میں یہ کام کر دیا تھا، ایچی سن کا ایک نوجوان ٹیچر ملا تو میں نے اس سے سوال کیا کہ 30 انتہائی سینئیر ٹیچرز کو ایک ہی دن میں کیوں فارغ کر دیا گیا؟ اس نے نکالے گئے استادوں پر الزامات کی جو فہرست گنوائی وہ رد نہیں کی جا سکتی تھی، لیکن نکالے گئے تمام اساتذہ یقینآ کرپٹ بھی نہیں ہو سکتے، اب پنجاب کے گورنر بنے ہیں چوہدری سرور، جنہوں نے اس مسند پر بیٹھنے کے لئے اپنی برطانوی شہریت ترک کی اور ان کی خواہش خدمت خلق ہے، وہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ عوام کو ٹریفک کے اصولوں سے بھی روشناس کرانا چاہتے ہیں،گھر بیٹھے ٹریفک لائسنس بنوا لینے والی قوم کو گاڑی یاموٹر سائیکل چلانا سکھانا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ آج لندن کے دیرینہ دوستوں کے ساتھ میں بھی چوہدری سرور کے ساتھ گپ شپ کرتا رہا، سب لوگ چوہدری صاحب کی سادگی اور انکسار کی باتیں کر رہے تھے، ایک دوست نے چوہدری سرور کے سامنے ہی بتایا کہ صبح ایک DCO گورنر ہاؤس آیا تو چوہدری صاحب نے اٹھ کر بڑے تپاک سے اس کا استقبال کیا،واپسی پر جناب گورنر اسے باہر تک چھوڑنے بھی گئے، گورنر ہاؤس کا کوئی بھی ملازم ان سے کوئی بات کرنے آتا ہے تو وہ اس کے احترام میں اٹھ کھڑے ہو تے ہیں، چوہدری سرور صاحب نے اپنے بارے میں اس گفتگو پر تبصرہ کیا کہ وہ کبھی کسی کو اس کے رتبے کی مناسبت سے نہیں ملتے، وہ سب کے ساتھ احترام سے ملتے ہیں،ملنے والا ماتحت ہو یا ملازم،،چوہدری صاحب کہہ رہے تھے کہ وہ اپنی عادتیں، اپنی سرشت نہیں بدل سکتے ۔۔میں سوچ رہا تھا کہ اگر ان کی سادگی کا چرچا ہو گیا اور وہ ہر دلعزیز بن گئےتو کتنے دن گزار سکیں گے اس منصب پر؟چوہدری صاحب کو گورنر بننا چاہئیے، گورنر بنانے والوں کا گورنر
۔۔۔