Saturday 31 August 2013

ابراہیم جلیس

پہلی بار کراچی گیا تو ابا جی نے اپنے تین دوستوں کے نام خطوط دیے ، ایک تھے اداکار کمال، دوسرے حمید کاشمیری اور تیسرےابراہیم جلیس، کمال صاحب کے دروازے تک تو پہنچ گیا، لیکن دستک دیے بغیر واپس چلا آیا، ان دنوں کمال صاحب PECHS میں نرسری کے قریب اپنے آبائی مکان میں رہا کرتے تھے،گھر کی باہر سے شان و شوکت دیکھی تو دل نہ مانا کہ دستک یا بیل دوں، مجھے بڑے گھروں کے مکین

اچھے نہیں لگتے تھے، میرا خیال تھا کہ تعلق صرف ان لوگوں سے رکھنا چاہئیے جن کے ساتھ آپ برابری کی سطح پر بیٹھ سکیں، گفتگو کر سکیں، یہ تو مجھے ایک عرصے بعد پتہ چلا کہ کمال صاحب ایک انتہائی سادہ اور نفیس آدمی ہیں،اور ہر امیر آدمی غلیظ نہیں ہوتا۔ ایک دن میں حمید کاشمیری صاحب کو صدر کراچی میں ڈھونڈھ رہا تھا، حمید کاشمیری کا نام اردو ادب میں بہت نمایاں تھا، وہ ٹیلی وژن کے لئے ڈرامے بھی لکھ رہے تھے جو عوام میں مقبول تھے، وہ ملے شدید گرم دھوپ میں فٹ پاتھ پر لگے ایک ٹھیلے پر کھڑے ہوئے، جس پر درجنوں کتابیں سجی ہوئی تھیں، یہ ٹھیلا وہ خود چلاتے اور یہی اب کا بنیادی روزگار تھا، مجھے وہ بہت تپاک سے ملے،ہاشمی صاحب کا خط پڑھ کر بہت نہال ہوئے، ٹھیلے کو اللہ کے سپرد کرکے وہ مجھے ایک قریبی ریسٹورنٹ میں لےگئے اور کھانا کھلایا، میں جب تک کراچی میں رہا حمید کاشمیری صاحب سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اب ایک ملاقات باقی تھی، ابراہیم جلیس صاحب سے، ان دنوں وہ PIB کالونی میں رہ رہے تھے، کنبہ بڑاتھا اور گھر چھوٹا سا، ایک نامور کالمسٹ کو اس خستہ حالی میں رہتے ہوئے دیکھ کر مجھے کوئی صدمہ نہ ہوا، بلکہ میرے وجود میں ان کی توقیر اور بڑھ گئی، تین سال بعد مساوات میں ملازمت کے لئے دوبارہ کراچی گیا تو سب سے پہلے ابراہیم جلیس صاحب کو ڈھونڈھا، وہ ان دنوں بندر روڈ پر کرائے کے ایک چھوٹے سے آفس سے ہفت روزہ عوامی عدالت نکالا کرتے تھے، سب کچھ وہ اکیلے ہی کیا کرتے سوائے کتابت کے، مالی حالت بہت ہی مخدوش تھی، ہر ھفتے رسالہ نکال لینا کوئی آسان کام نہ تھا، میں مساوات کے آفس میں ڈیوٹی پر ہوتا تو اکثر ان کا فون آجاتا، وہ کتابت اور کاپی پیسٹنگ کے لئے اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں بتاتے جو میں خود جا کر انہیں پہنچا آتا،اسی بہانے ان سے گپ شپ بھی ہو جاتی ،میں جلیس صاحب کا فین بن چکا تھا، طنزیہ کالم لکھنے کا جو ہنر ان کے ہاتھ میں تھا اور کسی کو نصیب نہیں ہوا، وہ صرف اور صرف عام آدمی کے لئے لکھتے تھے،وہ طبقاتی معاشرے میں مساوات کے خواہاں تھے، برے سے برے حالات میں بھی ان کے چہرے پر مسکراہٹ رقصاں رہتی اور اس مسکراہٹ کو ہر چہرے پر دیکھنا چاہتے تھے، آج آپ کو سیاسی جماعتوں اور ایجنسیوں کے نمائندہ کالمسٹ تو کثرت سے مل جائیں گے، ابراہیم جلیس جیسا شاید ایک بھی نہ ملے، جلیس صاحب جیسا پاپولر عوامی کالم نگار جو گھر چلانے کے لئے باقاعدہ قلم مزدوری کرتا تھا، 1978میں ابراہیم جلیس کراچی میں مساوات کے ایڈیٹر بنادیے گئے، یہ منصب انہیں اس وقت ملا جب مساوات کو جنرل ضیاء الحق نے بندوق کی نوک پر یرغمال بنا رکھا تھا، اس ادارے کے صحافی اور کارکن ایک طرف تو آزادی صحافت اور تحفظ روزگار کی جنگ لڑ رہے تھے اور دوسری جانب ان کے گھروں میں فاقے تھے، مکانوں کے کرائے اور بچوں کی فیسیں تک ادا نہیں ہو رہیں تھیں، گھروں میں چولہے تک ٹھڈے پڑ گئے تھے، انہی حالات میں ابراہیم جلیس کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ ہمیں چھوڑ گئے، ان کی موت پر میں نے ایک نوحہ لکھا،عنوان تھا مسکراہٹ کی موت۔