Saturday 31 August 2013

جیدا حرامدہ

اب تو وہ کئی فلمیں ڈائریکٹ کر چکا ہے،آجکل بھی نئی فلم کی تیاریاں کر رہا ہے، ایک اردو فلم کی ہیروئن تو اس نےانڈیا سے لی ،دو فلمیں دوسرے ملک کے اشتراک سے بنائیں، پنتیس چالیس سال پہلےنیا نیا ملا تو ایک دن مجھےمزنگ چونگی سے کوئینز روڈ کی جانب جاتے ہوئے جو پہاڑی ہے وہاں لے گیا

(یہ پہاڑی اب ایک گرلز کالج

کا حصہ بن چکی ہے)، جیدے کے پاس ایک چھوٹا سا سٹل کیمرہ تھا جو عام طور پر اس زمانے کے مڈل کلاسیے گھروں میں ہوتا تھا، اس نے کیمرہ میرے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ میں پہاڑی پر اس کی تصویریں بناؤں ،وہ پہاڑی کے چاروں اطراف دلیپ کمار اسٹائل میں long/mid/close پوز بناتا اور میں کیمرہ چلاتا رہا، تصویریں دھلوائی گئیں تو دوچار اچھی بھی بن نکل آئیں ، بڑی تگ و دو کے بعد ایک تصویر کسی فلمی اخبار میں چھپ بھی گئی وہ ایکٹر بننا چاہتا تھا،، جیدے حرامدے کی ایک بہن کالج کی اسٹوڈنٹ تھی، وہ چھٹی ہونے سے ایک آدھ گھنٹہ پہلے اس کالج کے گیٹ پر کھڑا ہوجاتا، کالج سے نکلنے والی لڑکیوں پر آنکھوں کی دوربین فکس کر لیتا، کوئی آسان شکار نظر آتا تو اس کا تعاقب شروع کر دیتا، کالج سے دو سو گز دور ایک پارک تھا، بہت سی طالبات اس سے گزر کر گھروں کو واپس جاتی تھیں، ایک بار جیدے حرامدہ پارک میں بیٹھ گیا، چھٹی کے بعد طالبات کی آمد شروع ہوئی تو وہ ایک لڑکی کے پیچھے ہو لیا، ایک چکر اس لڑکی کے آگے سے کاٹا اور پھر چلتے چلتے لڑکی سے سوال کیا، آپ نے مجھ پہچانا؟ لڑکی نے نفی میں سر ہلایا تو بولا، ابھی ابھی تو آپ کے آگے سے گزرا ہوں۔۔اس کی جوانی کے ابتدائی دن اسی دشت کی سیاحی میں گزرے ، وہ کبھی اپنے کسی کئے پر شرمندہ نہیں ہوتا تھا، پھر اس نے فلم اسٹوڈیوز جانا شروع کر دیا، کسی سے بھی واقفیت گانٹھ لینے کا ہنر بھی خوب جانتا تھا وہ، اسٹوڈیوز کے گیٹ کیپر بھی اس کی مٹھی میں آ گئے تھے، پھر وہ ایک ڈائریکٹر کا اسسٹنٹ بن گیا، ڈائریکٹر خلاف توقع HIT ہو گیا تو جیدے کے بھی وارے نیارے ہو گئے، اس نے اب خود ڈائریکٹر بننے کے لئے پنجے گھاڑنے شروع کر دیے تھے، با اثر خانم کو ماں بنا لیا ،اور اس کی بھی خدمت گزاری شروع کر دی، فلم ایکٹرسوں سے تعلقات استوار کرنے کی کہانیاں وہ بڑے فخر سے سنایا کرتا تھا، اس کی باتوں پر اعتبار کر لیا جائے تو بقول اس کے دو دہائیوں کی تمام ہیروئنز اس کے ہاتھ سے گزر کر کامیابی کے زینوں پر چڑھی تھیں، سب اس کی مرہون منت اور ممنون تھیں، وہ کہا کرتا تھا کہ جو اس کے راستے سے گزر جائے اس کی منزل آسان ہوجاتی ہے، جیدے نے اپنا پروڈکشن آفس بھی بنا لیا تھا، اب بڑے بڑے ایکٹر ایکٹریسیں اور ٹیکنیشنز اس کے دربار میں حاضر ہونے لگے، یہ پروڈکشن آفس ہی نہیں مکمل ڈیرہ بھی تھا ، وہاں وہ سب کچھ ہوتا جو اسٹوڈیوز میں اکثر ہوتا رہا، وہ نئے چہروں کو چانس دینے کا زبردست حامی ہے، اس لئے کوئی نہ کوئی نیا چہرہ اس کی جیب میں ہوتا ہے،جیدے کو داد ملنی چاہئیے کہ وہ آج کل کے انتہائی نامساعد حالات میں بھی نہ صرف انڈسٹری سے وابستہ ہے بلکہ عروج کے زمانے کی واپسی کے لئے پر امید بھی ، وہ نئی فلموں کی لوکیشنز دیکھنے یورپی ممالک کے دورے بھی کر چکا ہے، اس کا بمبئے میں بھی ذاتی فلیٹ ہے، وہ پاکستان میں فلم انڈسٹری کے ریوائول کے لئے ہمارے پاس روشنی اور امید کی آخری کرن ہے۔