Wednesday 28 August 2013

گیلانی صاحب

اللہ جانے گیلانی صاحب آئے کہاں سے تھے، تین بچے ،رنگوں کی چھوٹی چھوٹی درجنوں ڈبیان اور چھوٹے سائز کے کینوس، یہ تھا ان کا کل اثاثہ، دھوبن ماجھاں کے گھرایک کمرہ کرائے پر لیا تھا انہوں نے، ماجھاں کا نصف کچا گھر تین کمروں پر مشتمل تھا، ایک میں سیکڑوں دھلے ان دھلے کپڑے رکھے جاتے، اسی کمرے اور اس سے ملحقہ برآمدے میں گھر کے سارے چھ سات افراد سوتے، کپڑے استری کرنے کا اڈہ بھی اسی جگہ تھا، ساتھ والا کمرہ ایک
درزی کے پاس تھا جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی، گھر کے دروازے کے ساتھ تیسرا کمرہ مسکن بنا اس آرٹسٹ اور اس کی فیملی کا، گیلانی صاحب بلغم تھوکتے تھے، اس چھوٹے سے کمرے میں یہ چاروں زمین پر دری بچھا کر سوتے ، کھانا بھی وہیں بنتا ، مصوری بھی ہوتی، پینٹنگز کی تیاری میں بچے بھی ان کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے ، ہر پینٹنگ کا موضوع عورت ہوتی، وہ عورت ہی کو کیوں فوکس کرتے؟ کم عمری کے باعث میں نہیں سمجھ سکتا تھا، گیلانی صاحب کے فن پارے سوکھنے کے لئے دھوبن کے گھر کے کچےصحن میں بکھرے نظر آتے ، بڑی بیٹی تھی ، تیرہ چودہ سال کی ناہید ، رنگ سانولا ، نین نقش تیکھے ، اس سے چھوٹا جنید تھا، اور پھر سات آٹھ برس کی مونا، مونا کو دیکھ کر لگتا جیسے بیمار ہو وہ ، ہر تیسرے چوتھے دن گیلانی صاحب نئی بنی ہوئی پینٹنگز بغل میں دبائے گھر سے نکل جایا کرتے تھے۔ایک دن گیلانی صاحب اپنی پینٹنگز بیچ کر آئے تو ان کے ہاتھوں میں کھانے پینے کی اشیاء کے کئی پیکٹ تھے، مٹن بھی لائے تھے ،اس روز یہ ساری فیملی بہت خوش تھی، گیلانی صاحب نے خود پکا کر بچوں کو گوشت کھلایا ، گیلانی صاحب کا کہنا تھا ایک گاہک نے بہت اچھے دام دیے ان کی پینٹنگ کے، کون سخی مل گیا آج آپ کو؟ میرے سوال پر کہنے لگے، اداکارہ شبنم، شبنم آپ کی جاننے والی ہے کیا؟ نہیں، میں گلبرگ میں اس کے گھر گیا تو اندر سے پوچھا گیا کہ کون ہوں؟ کیوں ملنا ہے؟ میں نے کہہ کہ نعیم ہاشمی کا بھائی ہوں، آپ نے جھوٹ کیوں بولا؟، کاکا، میں تمہارا چاچا ہی ہوں، میں تو ناہید سے تمہاری شادی کا بھی سوچ رہا ہوں،میں نے آنکھیں جھکا لیں اور یہ سوچتا ہوا واپس چلا آیا کہ یہ چاچا خوامخواہ آرٹسٹ ہے یا کوئی نوسرباز ۔ایک دن گیلانی صاحب گھر واپس آئے تو مجھے میرے گھر سے بلوا کر کہنے لگے،، اپنے والد سے کہو ، سیف الدین سیف انہیں یاد کر رہے ہیں ، ان کی نئی فلم مادر وطن میں اسکول ماسٹر کا رول ہے جو وہ ہاشمی صاحب سے کرانا چاہتے ہیں، میں نے اندازہ لگایا کہ گیلانی صاحب کا بڑے لوگوں میں بیٹھنا اٹھنا ہے، اسی لئے تو سیف صاحب سے ملنے گئے ہونگے۔ پھر گیلانی صاحب دھوبن کا گھر چھوڑ کر اچھرہ مین بازار کی ایک گلی میں جا بسے، یہ ایک مکمل گھر تھا جہاں اور کوئی نہیں رہتا تھا، کچھ دنوں بعد انہوں نے محلے کی ایک بڑھیا سے شادی کر لی، ان کا کہنا تھا کہ یہ قدم انہوں نے بچوں کے لئے اٹھایا ہے،کچھ عرصہ بعد وہ اس بڑھیا کو طلاق دے کر کہیں اور چلے گئے۔ایک سال بعد پتہ چلا کہ گیلانی صاحب نیو سمن آباد کی ایک بڑی کوٹھی میں رہ رہے ہیں، ایک دن ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں پہنچا، نقشہ ہی بدلا ہوا تھا گیلانی فیملی کا، دیکھتا ہوں کہ مہمان خانے میں بہت ساری لڑکیاں اور عورتیں بیٹھی ہیں، ایک کاؤنٹر بھی بنا ہوا ہےجہاں گیلانی صاحب کے بچے آنے والیوں کا خیر مقدم کر رہے ہیں ، باورچی خانے میں ملازمین کھانے پکا رہے ہیں، مہمان خواتین کو چائے اور مشروب پیش کئے جا رہے تھے، پتہ چلا کہ گیلانی صاحب نے ایک فلم شروع کر دی ہے، اخبارات میں نئے چہروں کی تلاش کے لئے اشتہارات چھپوائے گئے اور یہ لڑکیاں اور عورتیں انٹرویو یا آڈیشن دینے آ رہی ہیں، ایک کمرے میں گیلانی صاحب انٹرویوز لے رہے تھے،مجھے یہ سب اچھا نہ لگا اس واقعہ کے پندرہ بیس سال بعد جبکہ گیلانی صاحب فوت ہو چکے تھے،ان کی بیٹی ناہید ملی، بہت موٹی اور بھدی ہو چکی تھی، اس کے ساتھ اس کا بیمار شوہر تھا، مرض مہلک تھا، مگر ناہید اپنی پینٹنگز بیچ کر اس کا علاج کرانا چاہتی تھی ، آرٹ کونسل میں اس کے فن پاروں کی نمائش بھی ہوئی، شوہر کی موت کے بعد اس کا فون آیا ،، وہ کہہ رہی تھی، سرال والے بہت مذہبی ہیں، شوہر کی موت کے بعد اسے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں اور اس نے یہ پابندی قبول کر لی ہے، کوئی دوسرا ٹھکانہ نہیں اس کا، یہ آخری رابطہ تھا اس سے میرا۔۔اس کی چھوٹی بہن مونا کا کیا بنا؟ زندہ تھی یا مر گئی ؟اس نے نہیں بتایا ۔۔۔
ایک بار گیلانی صاحب کا بیٹا جنید بھی آیا ملنے، اس کے ساتھ اس کا کوئی دوست بھی تھا جو کسی زمیندار کا بیٹا بتاتا تھا اور گھر سے بھاری رقم ساتھ لایا تھا، وہ دونوں فلم بنانا چاہ رہے تھے، میں نے انہیں منع کیا ،روکنے کی کوشش کی ، میری نصیحت انہیں اچھی نہ لگی پھر کبھی جنید بھی نہ ملا۔