Tuesday 27 August 2013

جیل میں ،،ملاحظہ

آج آپ ملاحظہ فرمائیں، ملاحظہ ، یہ ہوتا کیا ہے؟جاننے کے لئے جانا پڑتا ہے جیل میں۔۔جیل کے اپنے قانون قاعدے، اپنی اصطلاحات، اپنی زبان اور اپنے ضابطے اور روایات ہوتی ہیں، جیسے رات کو بھیڑ بکریوں کی طرح گنتی کرکے کوٹھریوں میں بند کرنے سے پہلے قیدیوں کی  ،، چڑیا،، لگنا،سزا یافتہ قاتل، باغی ،وی وی آئی پی یا خطرناک قیدی توعمومآ تنہائی میں رکھے جاتے ہیں، لیکن بے ضرر قیدیوں کی چڑیا لگتی ہے۔ بانچ چھ فٹ کی کوٹھری میں دو دو نہیں ، تین یا پانچ قیدی بند کئے جاتے ہیں، اور جو تین قیدی ایک رات اکٹھے ہوتے ہیں اگلی رات ان کے ساتھی تبدیل کر دیے جاتے ہیں ، جیل مینئول کہتاہےکہ دو قیدی سازش یا جنسی عمل کر سکتے ہیں۔۔
آپ ملزم ہیں یا مجرم ، جیل کی مضبوط دیواروں کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی، آپ کس رتبے کے ہیں یا سماج میں کتنے معزز و محترم، جیل کو اس سے کوئی غرض نہیں ، پاکستان میں جیلوں میں تمام رسمیں وہی ہیں جو گورے اپنی محکوم رعیت کیلئے رائج کر گئے، گورا چلا گیا ، نشان باقی چھوڑ گیا، اور ان نشانات پر کالی افسر شاہی عمومی طور پر آج بھی مکمل بے غیرتی کے ساتھ چل رہی ھے۔۔ باادب، با ملاحظہ، ہوشیار ۔یہ مکالمہ آپ نے تاریخی فلموں ، کتابوں اور ڈراموں میں کئی بار سنا اور پڑھا ہوگا، بادشاہ جب خلوت گاہ سے نکلتا ہے تو ہرکارے یہ ڈائیلاگ بولتے ہیں ، جس کا مطلب ہے ،، سب اپنی اپنی گردنیں جھکا لیں اور آنکھیں زمین میں گاڑھ دیں ، آپ جیل میں ہوتے ہیں تو مغل اعظم اور کمپنی بہادر کی حکومت کے دور کا یہ مکالہ آپ کو نہ صرف سننے کو ملتا ہے بلکہ آپ پر لاگو بھی ہوتا ہے، جیل میں سب سے پہلے قیدی کی عزت نفس پر حملہ کیا جاتا ہےاور اس کی انا مجروح کی جاتی ہے، ملاحظہ،، تو میرا سندھ اور پنجاب کی سات جیلوں میں بار بار ہوا، لیکن ذکر کروں گا، سنٹرل جیل کراچی میں ہونے والے ملاحظوں کا، جہاں میرے ساتھ کئی بزرگ، سینئیر صحافی ، شاعر اور دانشور قید تھے، سب کا جرم ایک ہی تھا، آزادی صحافت ، آزادی جمہور اور تحفظ روزگار کے لئے جنرل ضیاء الحقی کو چیلنج ، صدائے احتجاج، قائد اعظم کے مزار پر کھڑے ہوکر قائد اعظم سے سوال کرنا، ان سے پوچھنا ،بابا یہ کس کا پاکستان ہے؟ 14 اگست یوم آزادی پر قائد اعظم کے مزار پر موجود ہزاروں محکوم لوگوں کی موجودگی میں، قائد اعظم سے ایسے ہی سوالات کرنے کی پاداش میں ان کے مزار سے گرفتار کرکے مجھے کراچی سنٹرل جیل پہنچایا گیا ، وہاں ملتان کے سینئیر صحافی ولی محمد واجد، امروز کے سلیم شاہد، لاہور کے ریاض ملک، الطاف ملک ،،الفتح ،،کے وہاب صدیقی ، ارشاد راؤ، محمود شام اور کراچی کے انتہائی قابل احترام بزرگ صحافی احمد علی علوی جن کی عمر یقینآ 65 برس سے زیادہ تھی اور تعلق غالبآ ڈان گروپ سے تھا، وہاں پہلے سے موجود تھے، علوی صاحب بزرگ ہی نہیں نحیف اور بیمار بھی تھے، میں نے انہیں جیل کا ساتھی بنانے کا فیصلہ کر لیا، کراچی سنٹرل جیل میں پہلی رات گزری تو صبح جیل کے ناشتے کے بعد جیل وارڈن نے حکم سنایا کہ سب قیدی تیاری کر لیں ،، دس منٹ بعد ملاحظے کے لئے جیل کی گراؤنڈ میں جمع ہونا ہے، ہم سب کے پاس جیل کا ایک ایک گلاس اور ایک ایک پلیٹ تھی، لباس کا ایک ایک جوڑا جسے ہم نے جیل کالباس پہننے کے بعد تکیے کے طور پر استعمال کرتے تھے، یہ تمام اثاثہ ساتھ لے کر ہم داروغہ کے پیچھے چلتے ہوئے جیل کے میدان میں پہنچے، جیل کے تمام قیدی یہاں جمع ہو رہے تھے، جب گنتی پوری ہو گئی اور تمام قیدی شدید گرم زمین پر بیٹھ گئےتو حکم دیا گیا کہ اپنا اپنا سامان سامنے رکھ کر سب قیدی آنکھیں نیچی کر لیں ،صاحب یعنی سپرینٹنڈنٹ جیل کا ملاحظہ ختم ہونے تک کوئی قیدی سر اٹھائے گا نہ آنکھیں، حکم کی تعمیل ہوئی ، سب کی گردنیں اور آنکھیں دس منٹ تک جھکی رہیں، پھر داروغہ کی آواز سنائی دی،،، اب سب قیدی اہنی اپنی بیرکوں میں واپس چلے جائیں، ہماری آنکھیں اور گردنیں واپسی پر بھی جھکی ہوئی تھیں، میں اور بزرگ احمد علی علوی اگلے ملاحظے تک آپس میں بھی آنکھیں نہ ملا سکے۔۔