Wednesday 28 August 2013

کالا قریشی

 وہ کئی سال پہلے انتقال کر گیا تھا، زندہ ہوتا تو اس کا خاکہ لکھنے کا مزہ زیادہ آتا،وہ اپے خاکے کو خود پسند بھی کرتا اور دوستوں سے کہتا،میری حرامزدگیاں دیکھنی ہیں تو میرا خاکہ پڑھو فیس بک پر،، قریشی  چل پھر کے گٹا فروخت کیا کرتا تھا ، سعادت خیالی اس کے مقروض ہو گئے تو بدلے میں اسے صحافی بنا دیا، اس زمانے میں  سب سے آسان کام صحافی بننا ہی تھا
، ایک طرف انتہائی پڑھے لکھے، دانشور اور ذہین و فطین لوگ صحافت میں تھے تو دوسری جانب تھڑے باز ، پھڑو، لفافہ جرنلسوٹوں کی کھیپ تیار ہو رہی تھی، فلمی صنعت کے مرکز رائل پارک میں ایک دھوبی نے ادائیگی نہ کرنے والے صحافیوں اور ایکٹروں سے بدلہ لینے کے لئے کسی طرح مل ملا کے اخبار کا ڈیکلیریشن لے لیا تھا ، وہ اپنے اخبار کا نہ صرف چیف ایڈیٹر تھا بلکہ اس نے کالم لکھنا بھی شروع کر دیا تھا ، کالم کا عنوان تھا، خدا راہ مجھے صحافی مت کہو۔ پاکستان پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس صحافی کا کالم سب سے زیادہ پڑھا جاتا تھا۔۔ لوگ واقعی اس سے ڈرا کرتے تھے، ایک موٹر مکینک بھی سینئیر صحافی کے اعزاز تک پہنچا، سنا ہے کہ ایک نامور صحافی کا بل زیادہ ہو گیا تو انہوں نے عوضانے میں اسے اخبار میں ملازمت دلادی تھی، یہ بھی سنا ہے کہ آج بھی درجنوں ایسے لوگ صحافیوں کے کلبوں اور یونینز کے ممبر ہیں جو رکشے چلاتے ہیں یا جنرل اسٹورز کے مالک ہیں ۔ کہنہ مشق اور سینئیر صحافی ،،MR.Q لاہور میں ہونے والی سو فیصد پریس کانفرنسیں اٹینڈ کیا کرتا تھا ، وہ اپنے اخبار کا واحد رپورٹر ہوتا تھا، یعنی تمام محکموں کا اکیلا سربراہ، جھجک نام کی چڑیا تو اس کے پاس سے بھی نہیں گزری تھی ، میلا کچیلا یا ان پڑھ ہونے کے احساس میں وہ کبھی مبتلا نہیں ہوا تھا، وہ بڑے بڑےترم خان سیاستدانوں ، بیوروکیٹس یا سرمایہ داروں سے بھی مرعوب نہیں ہوتا تھا، احمقانہ اور بےہودہ سوال کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا، اس کا کام پنگا لینا تھا، پیشہ ورانہ پنگا، مطلب یہ کہ منہ پھٹ ہونے کی وجہ سے اسے دیہاڑی لگانے میں زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑتی تھی ، وہ اپنے قبیلے کا واحد رپورٹر تھا جو اعتراف کیا کرتا تھا کہ آج اس نے کتنے لفافے پکڑے، یا اس کی جیب کتنی بھاری ہے ، اس نے کئی لوگوں سے میری پہلی ملاقات کرائی ، جن میں انعام اللہ نیازی اور پرویز مہدی مرحوم کے نام بھی شامل ہیں ، پرویز مہدی شاید اس کا رشتے دار بھی تھا۔

MR.Q 
پریس کلب اور جرنلسٹس یونین کے انتخابات میں بھی حصہ لیتا اور بڑے مارجن سے جیت بھی جاتا تھا، دوسروں کی چٹکیاں لینے میں وہ فل میراثی تھا، اگر وہ صحافی نہ بنتا تو تھیٹر کا بہترین ایکٹر بن سکتا تھا ، 80 کی دہائی میں بورے والا کا ایک نوجوان پنجاب ہونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے بعد شعبہ صحافت میں داخل ہوا تو اسکی کئی حرکتیں دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ کم از کم شرارتوں ، اوٹ پٹانگ اور چہل بازی کی حد تک MR.Q پر قابو پانے ، اور اس سے ٹکر لینے والا ایک ٹیلنٹڈ نوجوان ہمارے پاس آگیا ہے، یہ تھا سعید مان ۔۔
لائف کو فل انجوائے کرنے والا نوجوان ، وضع قطع میں وہ 
MR.Q
سے کئی ہاتھ آگے تھا۔۔۔سعید مان اب پاکستان سے باہر ہے، وہ جب تک رہا فیملی ممبر کی طرح رہا ۔
MR.Q 
بھی میرے گھر کے فرد کی طرح تھا۔
۔۔پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے انتخابات میں MR.Q اور سعید مان دونوں گورننگ باڈی اور بی ڈی ایم کے امیدوار بن گئے، الیکشن کے روز سعید اپنی ایک گرل فرینڈ کو کمپین کے لئے لے آیا، یہ لڑکی سب سے ووٹ کی REQUEST کر رہی تھی ، MR.Qکے لئے کسی سے کمزور پڑنے کا شاید یہ پہلا واقعہ تھا، کیونکہ گرل فرینڈ تو اس کی پوری نسل میں کسی کی نہیں رہی ہوگی ONE VOTE ONE KISS سعید مان کا انتخابی نعرہ تھا ، بہر حال یہ دونوں الیکشن جیت گئے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے انتخابات پشاور میں ہونا تھے، اور ان دونوں نے بھی حق رائے دہی استعمال کرنا تھا، میں PUJ کے صدر کی حیثیت سے اپنے قافلے سمیت پشاور پہنچا ، اس قافلے میں یہ دونوں بھی شامل تھے، ہمیں PC میں ٹھہرایا گیا ، ارباب جہانگیر اس وقت وزیر اعلی سرحد تھے ، ایک دن بعد ہمیں بتایا گیا کہ آج چیف منسٹر اسی ہوٹل میں ہمیں ڈنر دے رہے ہیں ، رات نو بجے کے قریب چیف منسٹر ہال میں پہنچ گئے ، ہوٹل کی ایک خوبصورت میزبان ان کے ساتھ پروٹوکول ڈیوٹی کر رہی تھی ، میں نے دیکھا کہ سعید مان نے اس میزبان لڑکی کو متوجہ کر لیا ہے اور اس سے گفتگو کر رہا ہے، سعید نے جیب سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکالا اور ہوٹل کی اس میزبان کے ہاتھ میں تھما دیا، یہ منظر کہیں نزدیک کھڑا MR.Q بھی دیکھ رہا تھا ، وہ سعید مان اور میزبان لڑکی کے درمیان آ گیا ، لڑکی کے ہاتھ سے سعید مان کا وزیٹنگ کارڈ چھینا ، تھوک سے سعید مان کا نام مٹانے کی کوشش کی اور کارڈ کی دوسری سائیڈ پر اپنا نام اور فون نمبر لکھا اور کارڈ دوبارہ لڑکی کودے دیا، لڑکی حیرت زدہ ہو کر وہاں سے کھسک گئی، شاید اس قسم کا لیچڑ پن اس نے پہلے بھی نہ دیکھا ہو،ایک بار نجی شعبے میں نئی ائیر لائینز شروع ہوئی تو انتظامیہ نے صحافیوں کو لاہور سے دبئی لے جانے کا پروگرام بنایا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب شیخ ریاض چیف جسٹس ہوا کرتے تھے، وہ بھی اپنی بیگم سمیت دبئی سیر کو گئے تھے ، اس سفر میں MR.Q بھی شریک تھا ، جب پرواز نے اڑان لی تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ دبئی تو جا رہا ہے لیکن اس کے پاس شاپنگ کے لئے پیسے نہیں ہیں، وہ مجھ سے اصرار کرنے لگا کہ ائیر لائن کا مالک بھی اسی جہاز میں سوار ہے اور میں سفارش کروں کہ وہ اسے شاپنگ کے لئے پیسے دے ،،،،، یہ میرے لئے ناممکن تھا ، MR.Qنے اتنا زچ کیا کہ مجھے اپنی جیب سے اسے سو ڈالر دینا پڑے،،،، دبئی پہنچے تو ائیر لائن کے مالک نے ہمیں بس میں سوار ہونے سے پہلے بتایا کہ یہ بس آپ لوگوں کو ایک ایسی مارکیٹ میں لے جائے گی ، جہاں بہت سستی اشیاء مل جاتی ہیں ،،، MR.Q نے لقمہ دیا،، آپ ہمیں دبئی دکھانے لائے ہیں یا لنڈا بازار؟ اس واقعہ کے کئی سال بعد قریشی نے انکشاف کیا کہ اس نے ائیر لائن کے مالک سے پیسے ہتھیا لئے تھے۔۔۔۔ بظاہر لگتا تھا کہ اسے اپنے ان پڑھ ہونے کا کوئی قلق نہیں، لیکن ایسا نہ تھا، اس نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلائی، اس کا بڑا بیٹا ایک بار مجھے ملنے آیا تو وہ انگریزی ہی انگریزی بولے جا رہا تھا ، پتہ چلا کہ اس نے ایم اے انگلش کیا ہے لیکن نوکری نہیں مل رہی۔